جج، اہلیہ کم سن ملازمہ پر تشدد کے ذمہ دار قرار
طیبہ تشدد کیس میں اسلام آباد پولیس کے چالان میں جج راجہ خرم اور ان کی اہلیہ کو کم سن ملازمہ پر تشدد کا ذمہ دار قرار دے دیا گیا۔
پولیس کی جانب سے جوڈیشل مجسٹریٹ اسلام آباد ایسٹ کی عدالت میں پیش کیے گئے حتمی چالان میں ماہین ظفر کو طیبہ پر تشدد کی ذمہ دار قرار دیا گیا ہے جبکہ راجہ خرم کو طیبہ کے علاج میں غفلت پر قصوروار ٹھہرایا گیا ہے۔
چالان میں راجہ خرم کے چار پڑوسیوں کے بیانات، طیبہ پر تشدد کی میڈیکل رپورٹ، کیس کی تفتیشی رپورٹ اور ایف آئی آر میں شامل نئی دفعات کی ضمنی رپورٹ بھی شامل ہیں۔
ملزمان پر فرد جرم عائد ہونے کے بعد کیس کا باقاعدہ ٹرائل شروع ہوگا۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد کی ماتحت عدالت نے راجہ خرم اور ان کی اہلیہ کی عبوری ضمانت میں 10 فروری تک توسیع کردی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: ملازمہ تشدد کیس اسلام آباد ہائی کورٹ ارسال
دو روز قبل سپریم کورٹ نے طیبہ تشدد کیس میں ازخود نوٹس لینے کے بعد معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ کو بھجوا دیا تھا۔
کیس کو اسلام آباد ہائی کورٹ بھیجتے ہوئے سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ اب مقدمے کی سماعت کس عدالت میں چلے گی، اس کا فیصلہ ہائی کورٹ کرے گی جبکہ عدالت کے تعین کے لیے ایڈووکیٹ عاصمہ جہانگیر کو بھی ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایات جاری کردی گئیں۔
طیبہ تشدد کیس — کب کیا ہوا؟
کمسن ملازمہ طیبہ پر تشدد کا معاملہ دسمبر 2016 کے آخر میں اُس وقت منظرعام پر آیا تھا، جب تشدد زدہ بچی کی تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگی تھیں۔
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راجا خرم علی خان کے گھر سے بچی کی برآمدگی کے بعد پولیس نے انھیں اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔
مزید پڑھیں: طیبہ تشدد کیس میں ناقابل ضمانت دفعات شامل
بعد ازاں 3 جنوری کو مبینہ تشدد کا نشانہ بننے والی کمسن ملازمہ کے والد ہونے کے دعویدار شخص نے جج اور ان کی اہلیہ کو 'معاف' کردیا تھا۔
بچی کے والدین کی جانب سے راضی نامے کی رپورٹس سامنے آنے کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے کم سن ملازمہ پر مبینہ تشدد کے معاملے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے بچی اور اس کے والدین کو عدالت پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔
اس کے بعد سے پولیس طیبہ کی تلاش میں سرگرداں تھی جبکہ اس نے طیبہ کی بازیابی کے لیے مختلف شہروں میں چھاپے مارے تھے، تاہم وہ اسلام آباد سے ہی بازیاب ہوئی، جسے بعد ازاں پاکستان سوئیٹ ہوم بھیج دیا گیا تھا۔