'میر ی زندگی کا سب سے خوشگوار دن وہ تھا جب مجھے پاکستانی شناختی کارڈ ملا'
علی اکبر | سراج الدین
سجاد خان نے پاکستان میں پشاور کے ایک پناہ گزین کیمپ میں آنکھ کھولی۔ پاکستان ہی وہ ملک تھا جہاں انہوں نے اپنی زبان سے پہلا لفظ ادا کیا اور یہ واحد ملک ہے جسے وہ حقیقی طور پر جانتے ہیں۔
اب 35 برس سجاد خان کا کہنا ہے کہ ان کا خاندان افغان-سویت جنگ کی وجہ سے افغانستان سے جان بچا کر بھاگا۔ دن مہینوں میں تبدیل تبدیل ہوئے اور مہینے سالوں میں مگر جنگ ختم نہ ہوئی۔ پناہ گزینوں کے کیمپ میں تقریباً ایک برس بسر کرنے کے بعد سجاد کا خاندان ایک کرائے کے گھر میں منتقل ہوا۔
گزر بسر کے لیے سجاد کے والد نے ریڑھی پر سبزیاں بیچنا شروع کیں۔ تقریباً 15 برس کی سخت جدوجہد کے بعد وہ اپنا کاروبار جمانے میں کامیاب ہوئے جس سے ان کے میں مناسب آمدنی کا سلسلہ شروع ہوا۔
سجاد نے 'ڈان' سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستانی شہریت حاصل نہ کر سکنے کی وجہ سے ان کے لیے مشکلات موجود رہیں کیونکہ وہ اپنا کاروبار یا جائیداد ان کے والد کے نام پر نہیں ہو سکتے تھے۔
سجاد کے مطابق شناختی کارڈ ملنے کی وجہ سے ان کی سب سے بڑی مشکل جو ختم ہوئی وہ پولیس کی جانب سے ہراساں کیے جانے کا سلسلہ تھا۔
سجاد یاان کا خاندان واپس افغانستان نہیں جانا چاہتا تھا۔
سرکاری اور نجی کاروباری دفاتر میں تعلقات استوار کرنے کے بعد انہیں غلط معلومات کی بنیاد پر شناختی کارڈ لینے کا خیال آیا۔
سجاد کو آج بھی وہ دن یاد ہے جس دن انہیں پاکستانی شناختی کارڈ ملا۔ سجاد کا کہنا ہے کہ 'وہ میر ی زندگی کا خوشگوار ترین دن وہ تھا'۔
سجاد نے بتایا کہ شناختی کارڈ کے حصول کے بعد انہوں نے اپنی تمام تر جائیداد اپنے نام پر منتقل کی اور رہائشی علاقے میں ایک گھر بھی خریدا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ شناختی کارڈ ملنے کی وجہ سے ان کی سب سے بڑی مشکل جو ختم ہوئی وہ پولیس کی جانب سے ہراساں کیے جانے کا سلسلہ تھا۔
سجاد کا کہنا تھا کہ شناختی کارڈ ملنے کے بعد ان کی سرکاری ہسپتالوں، تعلیمی اداروں، رہائش اور سفری سہولیات کا رسائی ممکن ہوئی۔
نئے کارڈز کی وجہ سے سجاد کے خاندان کو حج اور عمرہ کرنے کا بھی موقع ملا۔
لیکن ایسا کرنے والا صرف ان کا خاندان نہیں تھا۔
سجاد کے مطابق ہزاروں دیگر افغان گھرانوں نے بھی غلط معلومات کے ذریعے پاکستانی شناختی کارڈ حاصل کرکے ان تمام سہولیات سے فائدہ اٹھایا جو کہ پاکستانی شہریوں کو دستیاب تھیں۔
عفان نامی ایک اور افغان نژاد شخص نے بتایا کہ 10 سال قبل پاکستان کا شناختی کارڈ حاصل کرنا کوئی مشکل کام نہیں تھا کیونکہ اس وقت حکام رشوت لے کر کارڈ جاری کر دیتے تھے۔
ایک ایف آئی اے اہلکار نے 'ڈان' کو بتایا کہ اس طرح شناختی کارڈ حاصل کرکے افغان شہری نہ صرف جائیداد خرید رہے ہیں بلکہ سرکاری دفاتر میں نوکریاں اور بلدیاتی انتخابات میں حصہ تک لے رہے ہیں۔
لیکن اب صورتحال تبدیل ہو گئی ہے۔ اور سجاد اور گلا جیسے اکثر افغان گھرانے اب حکومت کی جانب سے شناختی کارڈز کی دوبارہ تصدیق کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں۔
'اردو سیکھنا میرا شوق بن گیا تھا'
سحر بلوچ
54 سالہ غازی خان، 1980 میں پاکستان ہجرت کرنے والے افغان پناہ گزینوں کی دوسری نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔
یہ کراچی کے پررونق بازار الآصف اسکوائر کے چند واحد افراد میں سے ہیں جو کہ اپنی مادری زبان فارسی کے ساتھ ساتھ روانی سے اردو بھی بول سکتے ہیں۔
ان کا خاندان اور بہن بھائی مشرقی افغانستان میں اپنے آبائی گھر سے تقریباً 15 روز کا تھکا دینے والا سفر پیدل طے کرکے طورخم کے ساتھ پاکستان میں داخل ہوئے۔ یہاں پہنچنے کے بعد انہیں کئی نئی چیزیں سیکھنی تھیں اور پاکستانی معاشرے میں گھل ملنا تھا۔
غازی نے جلد ہی اردو سیکھنا شروع کر دی کیونکہ انہیں اکثر ملازمت صرف اس وجہ سے نہیں ملتی تھی کہ وہ زبان نہیں سمجھ سکتے تھے۔
غازی نے بتایا کہ، 'زبان سیکھنا ان کا شوق بن گیا تھا'۔
جب کہ ان کی دوسری ترجیح ملازمت کی کی تلاش تھی۔
انہوں نے بتایا کہ، 'اس وقت پاکستان آنے والے افغان شہریوں کی دو قسمیں تھیں۔ ایک وہ جو کہ پاکستان میں ٹرانسپورٹ کے کاروبار میں انویسٹ کر سکتے تھے جب کہ دوسرے میرے والد کی طرح جو دیہاڑی پر ملازمت کرتے تھے۔ پکتیہ میں اپنی زمین بیچ کر بھی ہمیں مناسب رقم نہیں ملی اس لیے شروع کے کچھ سال ہمارے خاندان کے لیے انتہائی مشکل تھے'۔
ایک چائے کہ دکان اور پھر گیراج میں کام کرنے کے بعد ان کے والد نے پکتیہ کے ہی کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر الآصف اسکوائر پر ایک دکان خریدی۔
اس دکان کو بعد ازاں غازی نے مکمل طور پر سنبھال لیا۔
اب صورتحال کافی تبدیل ہو چکی ہے۔ وہ اپنے کاروبار سے خوش نہیں ہیں اور ان کا کاروبار بھی گزشتہ کچھ ماہ سے انتہائی کم ہو گیا ہے۔
ہم بھی وہی ترانہ پڑھتے ہیں جو باقی پاکستانی پڑھتے ہیں اور ہم اس ملک سے محبت کرتے ہیں۔'
وہ بتاتے ہیں کہ 'لوگوں پاکستان اور افغانستان کے درمیان مسلسل دشمنی سے سخت مایوس ہیں۔ یہ ہماری غلطی نہیں ہے۔'
انہوں نے یہ کہتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی کہ، ' دنیا بھر میں اگر کوئی شخص کسی ملک میں پانچ سے 10 سال اگر رہتا ہے تو اسے شہریت ملتی ہے۔ ہم نے یہاں اپنی زندگی کی تین دہائیاں گزاری ہیں اور اب بھی ہمیں مہاجرین کہا جاتا ہے'۔
انہوں نے کہا کہ، 'یہ ہم ہی جو کہ ابھی تک افغانستان اور پاکستان کے درمیان تعلق کو اپنی اولاد میں ثقافت، زبان اور روایت کے ذریعے زندہ رکھے ہوئے ہیں۔'
غازی اس بات پر پریشان ہیں کہ، کیسے اگلی افغان نسل باقی رہے گی اگر انہیں افغانستان واپس جانا پڑا۔ انہوں نے ڈان کو بتایا کہ یہ بچے اردو بولنے کو ترجیح دیتے ہیں اور فارسی یا پشتو روانی سے نہیں بول سکتے۔
'اب ہمارے پیچھے پکتیہ میں اپنے رشتہ داروں سے کوئی روابط نہیں ہیں۔ وہ غیرقانونی طور پر ہماری زمینوں پر قابض ہو چکے ہیں یا انہیں ان کی اصل مالیت سے کم میں بیچ چکے ہیں۔ رشتہ داروں سے اس نفرت کی وجہ سے زبان اور رہن سہن جیسا تعلق بھی ٹوٹ چکا ہے۔'
ستمبر 2013 میں کراچی آپریشن شروع ہونے کے بعد سے پولیس اور رینجرز کی جانب سے مہاجرین کے پی او آر کارڈز مسلسل چیک کیے جانے سے پاکستان کی جانب سے افغان مہاجرین کو واپسی بھیجنے کا سلسلہ ایک مرتبہ پھر سے شروع ہوا ہے۔
غازی کا کہنا ہے کہ، جھنجھر گوٹھ اور گردونواح میں سیکورٹی سرچ کے دوران افغان شہریوں کو فوری طور پر گرفتار کر لیا جاتا ہے۔
غازی کے مطابق، 'اب ایسا مقام آ گیا ہے کہ ہمیں عزت کے لئے بھی بھیک مانگنا پڑتی ہے۔ ہم بھی وہی ترانہ پڑھتے ہیں جو باقی پاکستانی پڑھتے ہیں اور ہم اس ملک سے محبت کرتے ہیں۔'