پاناماکیس: 'فیصلے سے قبل وزیراعظم خود مستعفیٰ ہوجائیں'
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ پاناما لیکس سے وزیراعظم نواز شریف کی سیاسی اخلاقیات بُری طرح متاثر ہوئی ہیں، لہذا انہیں عدالتی فیصلے سے پہلے خود ہی اپنے عہدے سے مستعفیٰ ہو جانا چاہیئے۔
ڈان نیوز کے پروگرام 'نیوز وائز' میں گفتگو کرتے ہوئے فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے سابق وکیل اکرم شیخ نے جو کہانی پہلے بیان کی تھی اس نے نواز شریف کو بڑی مشکل میں ڈال دیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ عدالت کے سامنے جس طرح کے دلائل اور دستاویزات پیش کی گئی ہیں، ان پر ججز تو کیا ایک عام شہری بھی یقین نہیں کرسکتا۔
مزید پڑھیں: قطری شہزادے کا خط اور وزیراعظم کا موقف مختلف: سپریم کورٹ
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ پاناما کیس کے معاملے پر ایک عام خیال یہی ہے کہ شریف خاندان نے جھوٹ کا سہارا لیا اور یہ عام خیال صرف عوام کا نہیں، بلکہ کچھ حکومتی ارکان پارلیمنٹ کا بھی ہے۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا 'مجھے لگتا ہے اس صورتحال میں وزیراعظم نواز شریف کو مستعفیٰ ہو کر اپنی جماعت میں سے کسی اور کو موقع دینا چاہیئے تاکہ مسلم لیگ (ن) خود ہی پورے معاملے کی تحقیقات کروا سکے'۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ اب بات عام تاثر سے ثبوت میں تبدیل ہوچکی ہے اور یہ ثابت ہوگیا ہے کہ نواز شریف نے قومی دولت سے باہر کے ممالک میں جائیداد بنائی۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناما لیکس کے معاملے پر درخواستوں کی گذشتہ روز (26 جنوری کو) سماعت کے دوران وزیراعظم نواز شریف کے صاحبزادوں حسن اور حسین نواز نے اضافی دستاویزات پر مشتمل جواب سپریم کورٹ میں جمع کروا دیا، جس میں قطری شہزادے کا ایک اور خط بھی شامل تھا۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لاجر بینچ نے جب سماعت کا آغاز کیا تو حسن اور حسین نواز کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے عدالت عظمیٰ میں اپنے موکلین کی جانب سے جواب جمع کروایا۔
یہ بھی پڑھیں: پاناما کیس: قطری شہزادے کا ایک اور خط پیش کردیا گیا
وزیراعظم کے صاحبزادوں کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب میں قطری شہزادے شیخ حماد بن جاسم بن جابر الثانی کی پروفائل شامل تھی، جس میں قطری شہزادے کی کاروباری تفصیلات بھی فراہم کی گئیں، جن کے مطابق شیخ حماد بن جاسم بن جابر الثانی کا کاروبار دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے۔
قطری شہزادے کا 22 دسمبر 2016 کو لکھا گیا ایک اور خط بھی دستاویزات کا حصہ بنایا گیا، شہزادہ جاسم کے مطابق انھوں نے اپنے پہلے خط پر اٹھائے گئے سوالات کے جواب میں دوسرا خط تحریر کیا۔
یاد رہے کہ اس سے قبل نومبر 2016 میں سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سماعت کرنے والے لارجر بینچ کے سامنے بھی شریف خاندان کے وکلاء نے قطری شہزادے کا خط پیش کیا تھا۔
اس سے ایک روز قبل یعنی 25 جنوری کو ہونے والی سماعت کے دوران وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز کے وکیل شاہد حامد کا کہنا تھا کہ ان کی مؤکلہ کی کوئی بیرون ملک جائیداد نہیں، لندن فلیٹس ان کے بھائی کی ملکیت ہیں جبکہ ان کے بھائی بھی یہ ہی کہتے ہیں کہ یہ جائیدادیں ان کی ہیں۔
شاہد حامد کا کہنا تھا کہ مریم نواز کے مطابق انہیں والد کے زیر کفالت کہا جارہا ہے، حالانکہ ایسا نہیں، ایسا صرف اس لیے کہا جارہا ہے تاکہ ان کے والد کو جائیدادوں کے معاملے میں ملوث کیا جاسکے۔
واضح رہے کہ حال ہی میں ایک جرمن اخبار ‘Süddeutsche Zeitung’ کے ٹوئٹر پیغام کے ذریعے مریم نواز کے سامبا بینک کے کسٹمر ہونے کی دستاویزات منظرعام پر آئی تھیں۔
اخبار نے اپنی ٹوئیٹ میں لکھا تھا کہ 'جو پاکستانی پاناما پیپرز کے معاملے میں مریم صفدر کے کردار سے متعلق کسی شک و شبہ میں مبتلا ہیں وہ ان دستاویزات کی مدد سے خود ہی اندازہ لگا لیں'۔
یہ جرمن اخبار وہ پہلا میڈیا ادارہ ہے جسے پاناما اسکینڈل کی 11 ارب سے زائد خفیہ دستایزات موصول ہوئی تھیں۔
یاد رہے کہ 4 جنوری سے پاناما کیس پر درخواستوں کی سماعت سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں قائم نیا 5 رکنی لارجر بینچ کررہا ہے جس میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس اعجاز افضل، جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس گلزار احمد شامل ہیں۔
پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں آئینی درخواستیں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)،جماعت اسلامی پاکستان (جے آئی پی)، عوامی مسلم لیگ (اے ایم ایل)، جمہوری وطن پارٹی (جے ڈبلیو پی) اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر کی گئی تھیں۔