امریکا ماضی میں کیا کیا کرتا رہا؟
امریکا کی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کی جانب سے 1940 سے 1990 کے درمیان مرتب کی جانے والی خفیہ دستاویزات کو شائع کردیا گیا ہے، جس میں پاکستان کے جوہری صلاحیت کے حامل ہونے جبکہ ضیاء الحق کے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے سمیت دیگر معاملات کی تفصیلات موجود ہیں۔
سی آئی اے کی جانب سے رواں ماہ کے آغاز ایک کروڑ 30 لاکھ صفحات پر مشتمل دستاویزات کی ڈیجیٹل ریلیز (اشاعت) نے عالمی دنیا کی دلچسپی میں اضافہ کیا۔
رپورٹس کے مطابق شائع کی جانے والی ان خفیہ دستاویزات میں یو ایف اوز اور اسٹارگیٹ منصوبوں کا غلبہ ہے، تاہم ہندوستانی میڈیا نے ان خفیہ دستاویزات میں دریافت کیا کہ سی آئی اے کس طرح ایک روحانی پیشوا ساتھیا سائیں بابا کو دنیا میں نئے مذہب کا آغاز سمجھتی تھی۔
مضحکہ خیز طور پر 1971 کے ہندوستان کے حوالے سے دستاویزات میں ایک عنوان شامل کیا گیا، جسے 'نیشنل انٹیلی جنس سروے' کا نام دیا گیا، اس میں ملک کے قومی کرداروں کو ان الفاظ میں پیش کیا گیا کہ 'خوف کو کم کرنے کیلئے جو شاید کم ہوسکتا ہے، تاہم بیشتر بھارتی دفاعی — حساس اور جذباتی — ہیں اور وہ ظاہری طور پر بہت جارحانہ ہیں جو کہ تکبر کی حد تک ہے'۔
سی آئی اے کی رپورٹ کے مذکورہ پیراگراف کے مطابق 'بھارتیوں کے پاس صلاحیت اور آسانی ہے، تاہم ان کے پاس فوری احساس نہیں ہے، یہ نہیں ہے کہ بھارتی رہنما درست کام کرنے کیلئے بے فکر یا تیار نہیں، لیکن ان کی جانب سے ظاہر کیا جانے والا آرام دہ نقطہ نظر غیر بھارتیوں کیلئے بھی اشتعال کا باعث ہے'۔
اگر ان خفیہ دستاویزات میں لفظ 'پاکستان' کو تلاش کیا جائے تو 1233 مقامات پر اس کی نشاندہی ہوتی ہے، جن میں اخبارات کی کلپنگ اور فوج، ٹیلی گرامز اور جغرافیہ پر ملک کے پروفائلز شامل ہیں۔
خفیہ دستاویزات میں پاک امریکا تعلقات کے حوالے سے ماضی میں ہونے والے تاریخی واقعات کے پس منظر پر سی آئی اے افسران کے انکشافات بھی شامل ہیں: جن میں ہندوستان اور پاکستان کے کشیدہ تعلقات، پاکستان کے جوہری پروگرام میں پیش رفت، ضیاء الحق کے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے اور دیگر معاملات موجود ہیں۔
یہ دلچسپ بات ہے کہ بغیر کسی تاریخ کا تعین کیے سی آئی اے انٹیل رپورٹ پاک امریکا تعلقات کو بھارت اور سوویت یونین (موجودہ روس) کے درمیان تعلقات کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔
اس میں کہا گیا ہے کہ 'اقوام متحدہ میں شمالی افریقہ اور کشمیر کے حوالے سے امریکا کے واضح موقف کے باوجود پاکستان میں مغرب نواز افکار جاری رہنے کے امکانات ہیں'۔
مذکورہ دستاویزات میں واضح الفاظ میں لکھی گئی ایک اہم تحریر کے مطابق 'پاکستان کا مغرب نواز ہونا اس کی جانب سے ہندوستان اور روس کے درمیان تعلقات میں اضافے کے خدشے کے پیش نظر ہے نا کہ سرمایہ دارانہ نظام یا مسیحی تہذیب کے ساتھ بنیادی ہمدردی کیلئے، یہ مثبت سے زیادہ منفی ہے'۔
ہاتھ سے لکھی گئی ایک اور تحریر کے مطابق 'پاکستان مغرب کے ساتھ کھلے دل سے اتحاد قائم نہیں کرنا چاہتا، سوائے یہ کہ وہ بدلے میں مناسب فوائد حاصل کرے'۔
اس کے علاوہ دستاویزات میں ایران میں کمیونسٹ کنٹرول پر پاکستان کے ممکنہ رد عمل کے حوالے سے یہ بھی تحریر موجود ہے کہ 'کیا ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ایران پر کمیونسٹ کے قابض ہوجانے سے پاکستان کیلئے خطرات میں اضافہ ہوجائے گا'۔
اس کے علاوہ دستاویزات میں پاکستان کے حوالے سے شامل انتہائی اہم تفصیلات میں امریکی جاسوس فرانسس گرے پاور کا ذکر بھی موجود ہے جسے پشاور ائیر بیس پر گرفتاری سے قبل یو ٹو طیارے کو اڑان بھرنے کا کہا گیا تھا۔
افشا کی جانے والی خفیہ دستاویزات اس سے قبل صرف میری لینڈ کے کالج پارک کے نیشنل آرکائیو میں عوام الناس کیلئے موجود تھی، جسے وہ کام کے اوقات کار میں 4 کمپیوٹرز دیکھ سکتے تھے۔
ماسکو سے تعلق رکھنے والے سیکیورٹی مشیر نے دستاویزات کے درست ہونے پر سوالات اٹھاتے ہوئے — جن میں سے بیشتر نظر ثانی شدہ ہیں— انھیں جعلی اور غلط معلومات قرار دیا ہے جبکہ سی آئی اے نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
سی آئی اے کے ترجمان نے سی این این کو بتایا کہ 'ان میں سے کوئی بھی بناوٹی نہیں ہے، یہ مکمل کہانی ہے، یہ غلط اور صحیح ہے'۔
امریکا کی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) نے 'ریڈنگ روم' کے نام سے اپنی ویب سائٹ پر ڈیٹابیس کے لیے خفیہ دستاویزات عام کی ہیں،اس سے پہلے ڈی کلاسیفائیڈ دستاویزات صرف کالج پارک میری لینڈ میں واقع نیشنل آرکائیوز میں دستیاب تھیں، ان ڈی کلاسیفائیڈ دستاویزات میں سے ڈان نے اہم ترین کو ان کے حالات واقعات کے ساتھ شائع کیا ہے۔
سی آئی اے نے 17 جنوری 2017 کو مزید 930,000 خفیہ دستاویزات عام کی ہیں، 1999 سے سی آئی اے تاریخی اور عام دستیاب دستاویزات کو ریکارڈز سرچ ٹول (کریسٹ) میں جاری کرتی رہی ہے۔
1971 میں پاک۔ بھارت صورتحال پر سی آئی اے کی ایک انٹیلی جنس رپورٹ میں ایک نامعلوم امریکی سفیر نے اپنی حکومت کو ایک مراسلے میں سقوط ڈھاکا سے قبل پاکستان اور بھارت کے درمیان حالات سے آگاہ کیا۔
اس ٹیلی گرام پر 'سیکرٹ' تحریر تھا اور ' ڈیپارٹمنٹ آف اسٹیٹ ٹیلی گرام' کی مہر لگی تھی، جو اس عہد کے امریکی سفیر کی جانب سے بھارتی ہائی کمشنر جے کے اتل اور پاکستانی صدر یحییٰ خان سے ملاقاتون کے بارے میں دلچسپ معلومات فراہم کرتا ہے۔
ٹیلی گرام میں تحریر تھا ' اس (اتل) نے اپنے مشن کا آغاز عزرس کے ساتھ طویل ملاقات کے ساتھ کیا، یحییٰ کے بارے میں اس نے دریافت کیا کہ وہ بھارتی پریس اور جی او آئی حکام کی جانب سے جس طرح خوفناک عفریت کی طرح کے کردار جیسا پیش کیا جاتا ہے، ویسا نہیں ہے، بلکہ اتل کے مطابق اس نے دریافت کیا کہ وہ فوجی ذہن کی پیچیدگیوں کے شکار، مشوروں کے سامنے سر جھکا دینے والے اور برصغیر میں کشیدگی کم کرنے کی شدید خواہش رکھتے تھے'۔
'اتل کے بیان کے مطابق یحییٰ کی امداد باہمی کی ایک مثال وہ تھی جب بھارتی سفارتکار کی یحییٰ سے ملاقات کا اختتام پاکستانی صدر کے عید کے پیغام پر ہوا، جس کی حتمی اشاعت میں اتل کی ہدایات پر مبنی مخصوص بیانات کو شامل کیا گیا تھا'۔
اسی حوالے سے ایک اور ٹیلیگرام میں امریکی سفیروں نے اتل کی اندرا گاندھی سے ملاقات کے بارے میں تبصرہ کیا ' اتل نے خاص طور پر اس حقیقت پر زور دیا کہ بھارت پاکستان کو توڑنا نہیں چاہتا اور یہ بھی بتایا کہ وہ اس نکتے کو اس دوپہر کو سلطان خان سے ملاقات کے دوران بھی واضح کریں گے'۔
'میں نے اسے بتایا کہ میں اس بات پر حیران ہوں کہ مجیب الرحمٰن کا نام اس پیغام میں شامل نہیں جبکہ اس کی وزیراعظم اور وزیر خارجہ لگاتار شیخ مجیب الرحمٰن کی رہائی کا مطالبہ سیاسی سمجھوتے کے لیے مذاکرات کی شرط کے طور پر کرتے رہے ہیں'۔
اتل نے اس بات کی حالیہ سوچ کی عکاسی کے حوالے سے تردید کرتے ہوئے پراعتماد انداز سے بتایا کہ جہاں تک ان کا خیال ہے وہ مجیب کو ایک احمق سمجھتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کی رائے میں مجیب اور بھٹو دونوں موجودہ تباہی کے مرکزی ذمہ دار ہیں۔
سی آئی اے کے حالیہ جاری کردہ خفیہ دستاویزات میں اس عام خیال کی تردید کی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان 1971 کی جنگ میں دیگر کے ساتھ سرد جنگ کی سیاسی کشمکش کا عنصر بھی شامل تھا۔
دستاویزات اس کے برعکس حقیقت پیش کرتے ہیں کہ ماسکو ہندوستان کی جانب سے فوجی مداخلت کے "سیاہ اشاروں" پر خوش نہیں تھا۔
ایک بار پھر عام سوچ کے برعکس اندرا گاندھی بھارتی دائیں بازو کی طرف سے اٹھنے والی جنگی مطالبے کے خلاف تھیں اور سوویت یونین نے اندرا گاندھی کو جنگی جنونیوں کے مطالبوں کو رد کرنے پر زور ڈالا تھا۔
یہ خفیہ دستاویزات اوباما انتظامیہ کے آخری دنوں میں جاری ہوئے، جس میں یہ بھی درج ہے کہ جہاں بنگالی اکثریتی مشرقی پاکستان کے بحران کے ایک بڑے حصے کا ذمہ دار ذوالفقار علی بھٹو کو ٹھہرایا جاتا ہے، وہاں دراصل وہ مغربی پاکستانی فوج کا ایک حصہ تھا جس نے جنرل یحیٰ خان کو ڈھاکہ کے معاملے پر تباہ کن طریقے اپنانے پر اکسایا۔
صدر نکسن کو سی آئی اے کی جانب سے روزانہ بریفنگ دی جاتی تھی اسی طرح ایک دن سی آئی اے نے جولائی 1971 میں انہیں بتایا کہ "سوویت ۔ ۔ ۔ (مشرقی پاکستان میں) فوجی مداخلت کے بھارتی سیاہ اشاروں سے کافی پریشان دکھائی دیتی ہے اور 1965 کی طرح ایک بار پھر بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ چھڑنے سے روکنے کی خاطر ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے۔"
صدر کو دیے گئے بریفنگ نوٹ میں درج ہے کہ"9 جولائی (1971) پر روسی اخبار (ازویستیا) میں اعلٰی حکام کے تبصرے کے ذریعے بھارت اور پاکستان کو سختی کے ساتھ ماسکو نے اپنی خواہش کی یاد دہانی کر وائی ہے کہ برصغیر میں جنگ سے اجتناب ہونا چاہیے۔"
"اخبار کے مضمون میں یہ نشاندہی کی گئی ہے کہ ماضی میں مقامی تنازع جلد ہی فوجی تنازع کا روپ لے لیتے ہیں اور زور دیا گیا کہ بھارت اور پاکستان کو مشرقی پاکستان پر اپنے مسائل کا کوئی پرامن حل ڈھونڈنا ہوگا۔ مضمون میں اندرا گاندھی کی جانب سے پاکستان سے جنگ کا مطالبہ کرنے والوں کو رد کرنے کے عمل کی خصوصی طور پر تائید کی گئی ہے۔"
کونسل جنرل نے بحران سے نمٹنے کے دیگر طریقے بھی پیش کیے۔ "انہوں نے پناہ گزین مسئلے پر ماسکو کی مدد کا حوالہ دیا اور پاکستانیوں سے اپنی مخالفت کے دلائل پیش کیے، مگر انہوں نے اس بات پر شدید زور دیا کہ اگر بھارت جنگ چھیڑ دیتا ہے تو یہ انتہائی برا عمل ثابت ہوگا اور اس بات پر بھی زور دیا کہ اس جنگ کو روکنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں۔"
سی آئی اے نے صدر نکسن کو یہ بھی بتایا کہ پناہ گزینوں کا خیال رکھنے کے لیے بھارت کو مطلوبہ فنڈ سے کہیں زیادہ کم بیرونی امداد مختص کی گئی ہے۔ صرف 6 ماہ کے لیے 65 لاکھ مہاجرین کا خیال رکھنے کے لیے مطلوبہ رقم 40 کروڑ ڈالر ہے جبکہ مختص کردہ رقم 12 کروڑ ڈالر ہے۔
"مغربی بنگال میں 50 لاکھ مہاجرین کی موجودگی سے اشیاء خورد و نوش میں شدید اضافہ پیدا ہوا ہے اور مزدوری میں خاصی بڑی کمی واقع ہوئی ہے۔"
22 مارچ 1971 کو سی آئی اے نے صدر نکسن کو بتایا کہ قومی اسمبلی کے اجلاس کی منسوخی سے ہو سکتا ہے کہ مشرقی پاکستانی شدید رد عمل پیش کریں، جو صدر یحیٰ خان کے لیے مسائل میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔
یحیٰ خان نے سیاسی جماعتوں کو ایک مقام پر اکٹھا ہونے کی پرزور کوشش کی مگر وہ کسی بھی "ایک بڑی مغربی پاکستانی جماعت" کو اس اجلاس میں لانے میں ناکام رہے۔
سی آئی اے نے نشاندہی کی کہ،"یحیٰ شدید مشرقی پاکستانی رد عمل کے رسک سے آگاہ ہیں، مگر قیاساً انہوں نے فیصلہ کیا کہ اس کا متبادل — مغربی پاکستان میں بدنظمی اور مغربی پاکستانی فوج کے اندر بے چینی — انتہائی بدتر ہوگا۔
مشرقی پاکستان کی آزادی کے ممکنہ طور پر اعلان کے بعد بھی مجیب نے اگر سخت گیر مؤقف رکھا —یحیٰ کو ایک دوسری مشکل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے: آیا مشرقی پاکستان کو الگ ہونے دیا جائے یا پھر طاقت سے ملک کو جوڑ کر رکھنے کی کوشش کی جائے۔"
اس میں مزید درج ہے کہ، "7 کروڑ مشرقی پاکستانیوں کے درمیان شدید علحدگی پسند جذبات، اور اس صوبے میں دستیاب فوج اور پولیس اہلکاروں کو مد نظر رکھیں تو دوسرا راستہ انتہائی مشکل ہوگا۔"
19 فروری 1972 کو آفس آف کرنٹ انٹیلیجنس کی مرتب کردہ ہفتہ وار سمری میں اس وقت کے صدر ذوالفقار علی بھٹو کا، اور ان کو فوج سے لاحق خطرے کا تجزیہ کیا گیا ہے۔
امریکی حکام کی جانب سے تیار کی گئی اس دستاویز کے مصنف صفحہ نمبر 12 پر کہتے ہیں کہ بھٹو نے عہدہ سنبھالنے کے ابتدائی ہفتوں کے دوران ہی 'مہارت سے' عوامی حمایت حاصل کی ہے، مگر اب ان پر عوام میں پھیلی اقتصادی عدم اطمینانی اور سماجی تحریکوں کا بوجھ بڑھنے لگا ہے۔
"عوامی مطالبوں کے ساتھ ساتھ فوج بھی اقتصادی وسائل میں زیادہ سے زیادہ سے حصے کے مطالبے کرنے لگی ہے۔ فوج جو کہ پاکستان میں سب سے زیادہ منظم ادارہ ہے، بھٹو کے فیصلوں کا عرق ریزی سے جائزہ لے گی، اور اگر بھٹو اس کی توقعات پر پورا نہ اترے تو وہ دوبارہ اقتدار پر قبضہ کرنے سے نہیں ہچکچائے گی۔"
رپورٹ میں بھٹو کی جانب سے مارشل لاء جاری رکھنے کے فیصلے کو بھی ان کی حکومت کے لیے "سب سے زیادہ متنازع مسائل میں سے ایک ہے۔"
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ، "ان (بھٹو) کی جانب سے حتمی تاریخ کا اعلان نہ کرنے سے ان کے سیاسی مخالفین ناراض ہیں، جو سمجھتے ہیں کہ اس سے بھٹو کو اقتدار پر گرفت مضبوط کرنے کے لیے وقت مل رہا ہے۔ اس کے علاوہ غیر معمولی اختیارات باقی رکھنے کی وجہ سے بھٹو کئی متنازع معاملات پر ایسے مطلق العنان فیصلے کر سکتے ہیں جو اسمبلی کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوں گے، بھلے ہی ان کی پاکستان پیپلز پارٹی اکثریت میں ہے۔"
"نتیجتاً بکھرے ہوئے سیاسی اپوزیشن گروپس ولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی کے گرد اکٹھے ہو رہے ہیں۔ وہ کچھ دیر کے لیے ہی سہی، مگر بھٹو کو قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے، اور نئے آئین کی تیاری کے لیے زور ڈالنے کے لیے متحد ہیں۔"
سیاسی پیچیدگیوں کے علاوہ انٹیلیجنس رپورٹ میں "ہچکولے کھاتی معیشت" کا بھی ذکر ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مشرقی پاکستانی کی منڈیوں کو کھو دینے اور غیر ملکی امداد کے رکنے کی وجہ سے غیر یقینی صورتحال پیدا ہوئی ہے، پیداوار میں کمی ہوئی ہے، مزدوروں میں بے چینی پھیل رہی ہے، اور معیشت کو زک پہنچانے والی ہڑتالیں ہو رہی ہیں۔"
"خصوصاً پاکستان کی کاروباری برادری مزدور تحریکوں سے ںاخوش ہے، جبکہ مزدور، جو بھٹو کے صنعتکار مخالف نعروں پر پرجوش انداز میں یقین کر بیٹھے تھے، حکومت کے اعلان کردہ محدود مزدور اصلاحات سے ناخوش ہیں۔"
اکتوبر 1978 میں ’نیشنل انٹیلی جنس ڈیلی کیبل‘ کے نام سے جاری سی آئی اے کی ایک کیبل اس وقت کے پاکستانی صدر جنرل ضیاء الحق پر ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ سے متعلق مواد پر مشتمل ہے۔
کیبل کے مواد سے پتہ چلتا ہے کہ کیبل بظاہرامریکی حکومتی عہدیداروں تک معلومات پہنچانے کے حوالے سے لکھی گئی، جس میں پاکستان، شام، عراق، لبنان اور برازیل کے ممالک کے حالات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
دستاویز کہتے ہیں کہ جنرل ضیاء کو بنیادی طور پر آفیس میں عرصے تک رہنے کے لیے مسلسل ملٹری کی سپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے، کیوں کہ ان کے پاس پاکستان کے سیاسی و معاشی مسائل حل کرنے کی قابلیت نہیں ہوتی۔
کیبل سے پتہ چلتا ہے کہ جنرل ضیاءکی جانب سے عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد وہ فوج میں اپنے حریفوں کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں،انہیں یقین ہوتا ہے کہ مارشل لا سے فوج کا تشخص اور وقار کم ہوا ہے، جس وجہ سے ان کے اور فوج کے اعلیٰ افسران کے درمیان دوریاں بڑھی ہیں۔
تاہم فوجی افسران نے ان کے خلاف دفتر میں اس وقت تک کوئی اقدام نہیں اٹھایا جب تک ذوالفقار علی بھٹو کی قسمت کا فیصلہ نہیں کیا گیا تھا۔
امریکی عہدیداروں کی جانب سے فروری 1979 میں مرتب کی گئی ایک اور رپورٹ میں جنرل ضیاء کی جانب سے ذوالفقار علی بھٹو کے ٹرائل پر روشنی ڈالنے کے حوالے سے تجزیہ کیا گیا ہے۔
دستاویزات کہتے ہیں کہ ’اگر بھٹو بچ گیا تو فوجی قیادت جنرل ضیاء کے خلاف متحد ہوجائے گی اور ان کے خلاف مزید اقدامات اٹھائے جائیں گے‘۔
مندرجہ بالا دستاویز ان 930,000 خفیہ دستاویزات میں سے ایک ہے جنہیں سی آئی اے نے 17 جنوری 2017 کو عام کیا ہے۔ 1999 سے سی آئی اے تاریخی اور عام دستیاب دستاویزات کو سی آئی اے ریکارڈز سرچ ٹول (کریسٹ) میں جاری کرتی رہی ہے۔
1980 کے اوائل کی ایک ڈی کلاسیفائیڈ دستاویزات میں سی آئی اے کے ایک اعلیٰ افسر امریکی حکومت کو پاکستان کی جانب سے پلوٹونیم کشید کرنے والے ری پراسیسنگ پلانٹ کے بارے میں خبردار کرتے ہیں۔
یہ باتیں بین الاقوامی انٹیلیجنس پر امریکی صدر کو مشاورت فراہم کرنے والے سی آئی اے کے شعبے کے ڈپٹی ڈائریکٹر نے نومبر 1982 میں 'امریکا پر اثر انداز ہونے والے عالمی واقعات' نامی رپورٹ میں کیں۔
"پاکستان کی جانب سے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری" کے ذیلی عنوان میں یہ دستاویز اس وقت پاکستان کی جانب سے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کے بارے میں امریکی حکام کی معلومات کی جانب اشارہ کرتی ہے۔
"پاکستانی نیوکلیئر بم کی تیاری کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ وہ ایک ایٹمی ہتھیار کی تیاری کے لیے آلات اور پرزہ جات خرید رہے ہیں، اور اطلاعات ہیں کہ اگلے دو ماہ میں وہ پلوٹونیم کشید کرنے کے لیے ری پراسیسنگ پلانٹ بھی شروع کر دیں گے۔ صدر ضیاء جانتے ہیں کہ ری پراسیسنگ کا کوئی بھی عمل — یہاں تک کہ وہ بھی جنہیں پاکستانی "قانونی" سمجھتے ہیں — امریکا اور پاکستان کے سیکیورٹی تعلقات میں دراڑ ڈال سکتا ہے۔
ان افسر کا مزید کہنا ہے کہ اس دوران پاکستان کی ایٹمی سرگرمیوں میں چین کے شامل ہونے، یا ہندوستانی ردِعمل کے حوالے سے مزید کوئی معلومات نہیں آئی ہیں۔
"ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری اور پھیلاؤ" سے متعلق عوام میں جاری کی گئی ایک اور دستاویز 'ورلڈوائڈ رپورٹ' میں جولائی 1981 کی ایک جرمن اخباری خبر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کس طرح جرمن سائنسدانوں، اور اس وقت کے لیبیا کے حکمران قذافی نے 'خفیہ طور پر' پاکستان کو ایٹمی طاقت بننے میں مدد دی۔
مضمون کی شروعات میں ہی کہا گیا ہے کہ "صرف چند دن قبل پاکستانی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے ملک کا ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کا کوئی ارادہ نہیں، مگر خفیہ طور پر ایٹم بم بنانے کے لیے کام تیزی سے جاری ہے۔ پاکستان کے مددگار فیڈرل ری پبلک آف جرمنی کے سائنسدان اور لیبیا کے حکمران قذافی ہیں، جو تیل سے کمائی گئی دولت پاکستان کو اس کام کے لیے فراہم کر رہے ہیں۔"
مضمون میں تین جرمن اور چار پاکستانیوں، 'بشمول ایک اعلیٰ سرکاری عہدیدار' کی ملاقات کا بھی ذکر ہے۔
"تیاری اپریل 1980 سے جاری ہے۔ 1982 تک پاکستان کے پاس پہلا ایٹم بم بنانے کے لیے خاصا ایٹمی مواد موجود ہوگا۔ اس خدشے کی وجہ سے امریکی، روسی اور اسرائیلی انٹیلیجنس ایجنسیاں 1970 کی دہائی کے وسط سے پریشان ہیں۔ وہ تفصیلات نہیں جانتیں، شاید جرمنز نے بھی اس معاملے کو ایسے نہیں دیکھا ہے کہ پاکستان تیزی سے ایٹمی قوت بننے کے قریب ہے۔
رپورٹ میں مزید دعویٰ کیا گیا ہے کہ "قذافی اور بھٹو نے اسلام آباد میں ایک خفیہ معاہدہ کیا ہے جس کے مطابق طرابلس کے فراہم کردہ فنڈز سے اسلام آباد ایٹم بم تیار کرے گا، جبکہ بدلے میں طرابلس کو تیار شدہ ایٹمی ہتھیار ملیں گے۔
مضمون میں مزید دعویٰ کیا گیا ہے کہ قذافی نے پی آئی اے کے طیاروں کے ذریعے 50 کروڑ ڈالر کراچی پہنچائے۔
"قذافی کو تیل کی دولت 'اسلامی بم' کی تیاری میں استعمال کرنے سے روکنے کے لیے آئی ایم ایف سرکاری کھاتوں کا حساب کر رہا ہے۔ اس لیے دونوں ممالک کے درمیان معاہدہ اسمگلرز کی طرح ہوا۔ پاکستانی کی سرکاری ایئرلائن پی آئی اے کے ذریعے قذافی نے ڈالروں کی گڈیوں سے بھرے ہوئے سوٹ کیس روم سے کراچی تک پہنچائے۔"
امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی جانب سے جاری کردہ دستاویز میں جہاں دیگر حیرت انگیز انکشافات سامنے آئے ہیں وہیں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ سی آئی اے حکام نے 1981 میں امریکی ارکان کانگریس کو خبردار کیا تھا کہ بھارت پاکستان کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے روکنے کے لیے کہوٹہ میں پاکستانی جوہری تنصیبات پر حملہ کرسکتا ہے۔
17 اپریل ، 1981 کے سی آئی اے کے ایک میموگیٹ کے مطابق ایجنسی سے ایک عہدے دار نے امریکی سینیٹرز کو اس طرح کے حملے کے امکان سے آگاہ کیا تھا تاہم سی آئی اے سرکاری طور پر اس کی تردید کرتی ہے۔
یہ میمو امریکی نیشنل انٹیلی جنس کونسل اسپیشل اسسٹنٹ برائے جوہری پھیلاؤ کےچیئرمین کو بھیجا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ بعض سینئر امریکی حکام نے بھی اے بی سی نیوز کو اس بات کی تصدیق کی کہ بھارت کے کہوٹہ پر حملے کے امکانات پر امریکی حکومت میں سنجیدگی سے غور کیا جارہا تھا۔
اسی طرح سی آئی اے کا ایک میمو 17 اپریل 1981 کو چیئرمین نیشنل انٹیلی جنس کونسل (این آئی سی) کو بھیجا گیا جس میں بتایا گیا کہ سی آئی اے نے حملے کے امکانات کو انتہائی سنجیدگی سے لیا اور اس بات پر اتفاق کیا کہ پاکستان کی جوہری پیش رفت پر بھارت کے ممکنہ رد عمل کے حوالے سے ایک انٹیلی جنس جائزہ رپورٹ مرتب کی جائے۔
یکم اپریل 1982 کو جاری ہونے والے ایک اور میمو میں انکشاف کیا گیا کہ صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد سی آئی اے حکام اس نتیجے پر پہنچے کہ دو اہم معاملات ایسے ہیں جن پر مسلسل اور قریبی اسکروٹنی کی ضرورت ہے۔
ان میں پہلا پاکستان کی جانب سے میزائل مواد کے حصول پر بھارت کے خیالات اور دوسرا بھارت میں ہتھیاروں کی تیاری کے لیے قابل انشقاق مواد کی دستیابی اور جوہری ہتھیاروں کی تیاری شامل ہے۔
80 کی دہائی میں جاری کیے جانے والے دیگر میموز کے مطابق پاکستان اور بھارت کے درمیان جوہری پروگرامز کے حوالے سے بڑھتی ہوئی کشیدگی سے امریکا اس قدر خوف زدہ تھا کہ اس نے پاکستان اور بھارت میں خصوصی 'جوہری سفیر' تعینات کرنے پر بھی غور کیا تھا۔
6 ستمبر 1985 کو جاری ہونے والے ایک اور انتہائی خفیہ میمورنڈم کے مطابق اس تجویز پر کافی غور و خوض کیا گیا تاہم منظر عام پر لائے جانے والے دستاویز میں سے تفصیلات کو نکال دیا گیا۔
اس سے ایک سال قبل سی آئی اے کے دفتر برائے نیئر ایسٹرن اینڈ ساؤتھ ایشین اینالسس نے ایک میمو تیار کیا اور امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے 2015 میں افشاء کیے جانے والے دستاویز کے مطابق اس وقت کے امریکی صدر رونلڈ ریگن نے جنرل ضیاء الحق کو خبردار کیا تھا کہ 'بھارت آپ کے جوہری پروگرام کو روکنے کے لیے فوجی کارروائی کرسکتا ہے'۔
میمو میں درج ہے کہ "پاکستانی ایلچی کا خیرمقدم کریں گے"، وہ اس امر کی یقین دہانیاں چاہیں گے کہ امریکا مخصوص اقدامات کے حوالے سے بھارت کے ساتھ وعدہ وفا کرسکتا ہے۔
پاکستانیوں کی جانب سے پیشکش قبول کیے جانے کے امکانات کی وضاحت کرتے ہوئے سی آئی اے کا کہنا تھا کہ پاکستانیوں کے پاس کھونے کو کچھ خاص نہیں لیکن پھر بھی ایلچی روانہ کرنے کے بارے میں پاکستان کے مخصوص ردعمل کا انحصار بھارت کے جوابی اقدام پر منحصر ہے۔
تاہم سی آئی اے نے اس بات کا اعتراف کیا کہ پاکستان جوہری ہتھیاروں کے حصول کے لیے اپنی کوششوں کو ترک نہیں کرے گا کیوں کہ بھارت پہلے ہی ایک جوہری تجربہ کرچکا ہے۔
میمو میں اس بات کا بھی جائزہ لیا گیا کہ 'جوہری سفیر' کی تعیناتی پر بھارت کا کیا ممکنہ رد عمل ہوگا اور اس نتیجے پر پہنچا گیا کہ اس وقت کے بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی 'اس معاملے میں امریکی مداخلت کے حوالے سے کسی بھی ممکنہ معاہدے سے گریز کریں گے'۔
سی آئی اے کے تجزیہ کاروں نے بتایا کہ انہیں 'اس بات کا بھی یقین نہیں تھا کہ راجیو گاندھی کے ساتھ ہونے والی ملاقات کا کوئی مثبت نتیجہ نکل سکے گا'۔
سی آئی اے نے نشاندہی کی کہ راجیو گاندھی بھارت اور پاکستان سے برابری کے سلوک کی امریکی خواہش کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
میمو میں کہا گیا کہ راجیو گاندھی پاکستان اور بھارت کے جوہری مسئلے کے حوالے سے متبادل حکمت عملیوں پر غور کررہے تھے جس میں ممکنہ طور پر جوہری عدم پھیلاؤ کے بجائے ہتھیاروں پر کنٹرول کا آپشن شامل تھا۔
سی آئی اے کو یقین تھا کہ اگر امریکا 'آرمز کنٹرول رجیم میں غیر وابستہ ممالک کے کردار میں اضافے کے حق کو تسلیم کرلیتا ہے تو راجیو گاندھی جوہری عدم پھیلاؤ کے حوالے سے امریکی کوششوں کا احترام کرنے کے حوالے سے سوچنا چاہیں گے'۔
سی آئی اے کی جانب سے جاری کی جانے والی انٹیلی جنس جائزہ رپورٹ کے مطابق افغانستان میں سوویت یونین کے قبضے کے خلاف مزاحمت کرنے والے افغان باغیوں کی پاکستان کی جانب سے کی جانے والی حمایت کے پیچھے چند اہم عناصر کار فرما تھے جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
یہ خیال کہ اگر سوویت یونین نے افغانستان پر کنٹرول قائم کرلیا تو وہ پاکستانی سیاست پر اثر انداز ہونے کے لیے بلوچستان پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کرسکتا ہے۔
دوسرا یہ کہ اگر پاکستان افغان باغیوں کی حمایت جاری رکھتا ہے تو اسے ’امریکا، چین، سعودی عرب اور مغربی یورپ سے مزید عکسری و مالی معاونت‘ کے حصول کا جواز مل سکتا ہے۔
تیسرا یہ خوف کہ پاکستان کو تقسیم کرنے کے لیے ماسکو اور نئی دہلی کے درمیان گٹھ جوڑ ہوسکتا ہے۔
پاکستان پر سوویت دباؤ
جائزہ رپورٹ کے مطابق سوویت یونین سرحد پر فوجی دباؤ میں اضافے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں سرگرم مخالف گروپس کے ساتھ تعاون بڑھا کر اسلام آباد کو جواب دے سکتا تھا۔
رپورٹ میں آگے چل کر اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ کیوں بعض پاکستانی عہدے دار کابل اور ماسکو کے حوالے سے پاکستان کے رویے میں نرمی کی حمایت کررہے تھے۔
دستاویز میں اس کی وجوہات بیان کی گئی ہیں اور کہا گیا ہے کہ سوویت یونین کی مسلسل مخالفت سے ’پاکستان کی سلامتی خطرے میں پڑ سکتی تھی‘ کیوں کہ پاکستان ’سوویت جیسے بڑے ملک کی چڑھائی‘ کا کامیابی سے دفاع نہیں کرسکتا تھا۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ پاکستان کی سلامتی کے لیے بھارت بدستور خطرہ تھا اور افغانستان کی سرحد پر مستقل ٹینشن نے اسلام آباد کے پاس ماسکو اور نئی دہلی کی جانب سے دباؤ کو مربوط کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں چھوڑا۔
رپورٹ کے مطابق پاکستانی شہریوں اور افغان مہاجرین کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی اور مقامی وسائل پر پڑنے والے اضافی بوجھ کی وجہ سے بعض پاکستانی عہدے دار شاید ماسکو کے حوالے سے زیادہ لچکدار حکمت عملی اپنانے پر یقین رکھتے تھے۔
مزید برآں اگر امریکا اور یورپی برادری سوویت یونین کے ساتھ کشیدگی کم کرنے کا آپشن اپنا لیتے تو اس سے غیر ملکی امداد میں کمی کا خدشہ تھا۔
امریکی فوجی امداد کی اہمیت
جاری کیے جانے والے حساس دستاویز میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان اپنی افغان پالیسی پر قائم رہنے کے لیے امریکی فوجی امداد کو انتہائی ضروری سمجھتا تھا کیوں کہ جدید ہتھیاروں کا حصول سوویت یونین اور بھارت کی جانب سے درپیش دباؤ سے باہر نکلنے میں اہم کردار ادا کرسکتا تھا۔
جدید ہتھیاروں کی فروخت وہ پیمانہ تھا جس کے ذریعے پاکستان اپنی سلامتی اور سیاسی مفادات کی امریکی حمایت کا اندازہ لگاتا تھا۔
جائزہ رپورٹ کے مطابق امریکا کی جانب سے ہتھیاروں کی فراہمی میں ذرا سی بھی ہچکچاہٹ پاکستان کی نظر میں خطے کے حوالے سے کیے جانے والے امریکی وعدوں پر شکوک پیدا کرسکتی تھی جس سے امریکی مفادات کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا۔
اگر امریکا پاکستان کے لیے مسلسل عسکری تعاون و امداد کو یقینی نہیں بناتا تو اس سے ان لوگوں کی باتوں کو تقویت مل سکتی تھی جو یہ کہتے تھے کہ پاکستان کو ماسکو اور کابل کے لیے فراخ دلی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور اگر ایسا ہوتا تو پاکستان میں موجود افغان باغیوں کی سلامتی اور پروپیگنڈا پلیٹ فارم پر برا اثر پڑسکتا تھا۔
تاہم رپورٹ میں اس بات کا تذکرہ نہیں کیا گیا کہ امریکا کی جانب سے پاکستان کو جدید ہتھیاروں کی فراہمی پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں اضافہ کرسکتی تھی اور’ 1980 کی دہائی کے نصف تک امریکی ہتھیاروں کی فراہمی سے پاکستان کا دفاع مضبوط ہوچکا تھا‘۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کے لیے مسلسل امریکی فوجی امداد کی وجہ سے سوویت یونین کی جانب سے پاکستان میں ضیاء حکومت کی مخالفت بھی بڑھ سکتی تھی۔
سوویت یونین کے حوالے سے پاکستان کے خدشات
انٹیلی جنس جائزہ رپورٹ کے مطابق پاکستان یہ سمجھتا تھا کہ سوویت یونین کا افغانستان میں داخل ہونا خلیج فارس اور بحرِ ہند تک رسائی حاصل کرنے کے طویل المدتی حکمت عملی کا حصہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کو یہ بھی خدشہ تھا کہ سوویت یونین کی کامیابی کے بعد پاکستان پر بڑا حملہ ہوسکتا ہے تاکہ بلوچستان پر قبضہ کیا جاسکے اور پاکستان کو چین سے ملانے والی شاہراہ قراقرم کو منقطع کرکے بھارتی فورسز سے منسلک ہوا جاسکے۔
جائزہ رپوٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ پاکستانی اور امریکی حکام کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ پاکستان کو یہ خدشہ تھا کہ سوویت یونین اور بھارت پاکستان کو نسلی بنیادوں پر تقسیم کرکے پشتونستان، بلوچستان، سندھ اور پنجاب میں’ماتحت ریاستیں‘ قائم کرنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔
باغیوں کیلئے پاکستان کی حمایت
دستاویز کے مطابق باغیوں کے لیے پاکستان کی حمایت امریکی مفادات اور سوویت یونین کو افغانستان پر قابض ہونے سے روکنے کے لیے انتہائی ضروری تھی کیوں کہ پاکستان ’باغیوں کا محفوظ ٹھکانہ اور سپلائی بیس تھا اور اسلام آباد نے انہیں تربیتی کیمپس قائم کرنے اور سرحد پر غیر ملکی اسلحہ حاصل کرنے کی اجازت بھی دے رکھی تھی‘۔
جائزہ رپورٹ کے مطابق افغان باغیوں کی کامیابی کی سب سے اہم وجہ سرحد پر باغیوں اور ہتھیاروں کی نقل و حرکت تھی۔
انٹیلی جنس جائزہ رپورٹ کے مطابق سوویت یونین کا یہ خیال تھا کہ افغانستان کے حوالے سے پاکستانی کی پالیسیاں ’محض صدر ضیاء کی ذات سے منسلک ہیں‘۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ سوویت کے بلوچ اور پشتون علیحدگی پسند تنظیموں سے دیرینہ تعلقات تھے اور وہ پاکستان کی پالیسیوں کو اپنے حق میں کرنے کے لیے ان کا استعمال کرسکتے تھے۔
تاہم امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی یہ نہیں سمجھتی کہ یہ علیحدگی پسند تنظیمیں اتنی طاقتور تھیں کہ ان سے پاکستان میں ضیاء حکومت کو کوئی خطرہ ہوسکتا اور سوویت یونین کی جانب سے ضیاء حکومت پر دباؤ بڑھانے کی کوئی بھی کوشش پاکستان اور امریکا کو مزید قریب لاسکتی تھی۔
بطور اتحادی امریکا پر اعتماد
رپورٹ میں بارہا اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ پاکستان بطور اتحادی امریکا کو قابل اعتماد نہیں سمجھتا تھا اور اسے خدشہ تھا کہ اگر افغانستان پر سوویت یونین کا قبضہ طویل ہوا تو ممکن ہے کہ امریکا باغیوں کی حمایت سے دستبردار ہوجائے اور اگر ایسا ہوا تو پاکستان ’سپر پاور کی حمایت سے محروم ہوکر تنہا رہ جائے گا‘۔
رپورٹ کے مطابق ان ہی خدشات کی وجہ سے پاکستان کافی حد تک امریکا کو محض اسلحہ کا ایک سپلائر سمجھتا تھا اور ایسا خاص طور پر اس تناظر میں بھی تھا کہ 1965 اور 1971 کی پاک بھارت جنگوں میں امریکا نے ہتھیاروں کی فرخت پر پابندی عائد کردی تھی، ساتھ ہی کئی پاکستانی حکام کو شک تھا کہ پاکستان کے لیے امریکا کی حمایت سوویت یونین کی مخالفت کے لیے عارضی مصلحت ہے اور امریکا اور روس کے درمیان تناؤ میں کمی کا نتیجہ پاکستان کی تنہائی کی صورت میں نکلے گا۔
دستاویز میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی کہ ’چین کی بھرپور حمایت کے باوجود‘ پاکستان کے دفاع کے حوالے سے چین کی جانب سے کوئی ٹھوس وعدہ نہیں کیا گیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق افغانستان میں سوویت یونین کی مسلسل موجودگی کی وجہ سے درپیش خطرات، براہ راست کارروائی کا خطرہ اور یہاں تک کہ ان تجاویز کی موجودگی کہ کابل ’ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کرسکتا ہے‘، ان سب کے باوجود پاکستان نے متبادل پالیسیوں کو زیر غور رکھتے ہوئے اپنا موقف تبدیل نہیں کیا تاکہ زیادہ سے زیادہ غیر ملکی حمایت خاص طور پر فوجی امداد حاصل کی جاسکے۔
انٹیلی جنس جائزہ رپورٹ میں امریکی پالیسی کے لیے مضمرات کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا گیا کہ سوویت یونین اور افغان حکومت کے ساتھ مفاہمت کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی میں آنے والی کوئی بھی تبدیلی جنوبی ایشیا میں امریکی مفادات کے لیے شدید دھچکا ہوتی کیوں کہ اس کی وجہ سے کابل میں سوویت یونین کی حمایت یافتہ حکومت کو قانونی حیثیت حاصل ہوسکتی تھی۔
جائزہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان کے لیے امریکی حمایت اور فوجی امداد میں اضافے سے بھارت اور امریکا کے تعلقات مزید خراب ہوجائیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان بھی کشیدگی بڑھے گی۔
17 اپریل 2001 کو 'مشرق وسطیٰ کے ایریا سروے' (Area Survey of the Middle East) کے عنوان سے جاری کی گئی ایک دستاویز میں سی آئی اے نے متعدد ملکوں کی جانچ پڑتال کی، جس میں مشرق وسطیٰ کے عرفی نام کے تحت سی آئی اے نے دیگر ممالک کو بھی یکجا کردیا، جن میں پاکستان، بھارت، سیلون (سری لنکا)، ایران، ترکی، یونان، مصر، اسرائیل اور عرب ممالک شامل ہیں۔
سی آئی اے نے اپنی دستاویز میں سری لنکا کے لیے 60 کی دہائی میں استعمال ہونے والے نام سیلون (Ceylon) کا ذکر کیا۔
اس دستاویز میں خطے کی جغرافیائی اور سیاسی صورتحال، معیشت اور حالیہ رجحانات کے حوالے سے بات کی گئی۔
دستاویز میں پاکستان، ہندوستان اور اسرائیل کو 'حقیقی طور پر نادان' اقوام کے طور پر بیان کیا گیا۔
اس میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی کہ کس طرح پاکستان، ترکی اور یونان 'جدید دنیا' میں شامل ہونا چاہتے ہیں لیکن 'باہر' سے حمایت کے بغیر وہ یہ کام نہیں کرسکتے۔
معیشت پر روشی ڈالتے ہوئے ایک اقتباس میں بتایا گیا کہ کس طرح کمزور ریاستیں غیر ملکی کرنسی کے لیے واحد شے پر انحصار کرتی ہیں اور کس طرح مارکیٹیں اس منظرنامے کے لیے مثالی نہیں تھیں۔
یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان کا جوٹ کی برآمدات پر انحصار اور اس مارکیٹ کی خراب کارکردگی کے نتیجے میں پاکستانی معیشت جدوجہد کا شکار ہے۔
سب سے دلچسپ یہ کہ دستاویز میں ایک جگہ پاکستان اور ہندوستان کی انٹیلی جنس اور معلومات جمع کرنے کو بھی جانبداری کی بنیاد پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
دوسری جانب سی آئی اے نے پاکستان اور 'پاکستانینز' (Pakistanians) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ معلومات اکٹھی کرنے کے حوالے سے پاکستان اور ہندوستان دونوں کے پاس وسائل کی کمی ہے۔
واضح رہے کہ انڈیا کے شہریوں کے لیے 'انڈینز' کا لفظ استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ سی آئی اے نے پاکستانیوں کے لیے 'پاکستانینز' کا لفظ استعمال کیا تھا، جو کہ مستعمل نہیں ہے۔
امریکی خفیہ ادارے کے عمومی رکارڈ میں موجود 'جنرل ٹرکس' گیپ نامی رپورٹ، میں اسکالر اور کارکن رچرڈ جے برنیٹ نے خفیہ سیکیورٹی کارروائیوں کے خلاف ایک کیس قائم کیا۔
18 اکتوبر 2004 میں جاری ہونے والی دستاویز میں رچرڈ برنیٹ نے اس بات پر اصرار کیا کہ "خفیہ بیسز کے موجودگی کا تحفظ کرنے اور ان خفیہ بیسز کی موجودگی کا تحفظ پاکستان اور ایتھوپیا جیسے ممالک میں کرنے کے لیے امریکا کو ان ممالک کو خصوصی رعایت فراہم کرنی پڑی جنہیں وگرنہ رعایت فراہم نہیں کی جاتی۔"
انہوں نے نیو یارک ٹائمز کے اس آرٹیکل کا حوالہ بھی دیا جس میں درج تھا کہ "200 سے زائد ایجنٹس غیر ممالک میں خود کو کاروباری ظاہر کرتے ہیں۔"
"ایئر امریکا اور دیگر ایجنسیوں کی جانب سے جعلی ادارے، طلبہ تنظیمیں، گرجا گھر کی تنظیمیں وغیرہ سب اس جھوٹی دنیا کا حصہ ہیں جو امریکی لوگوں کو گمراہ کرنے میں اتنا ہی کامیاب ہوئی ہے جتنا انہوں نے غیر ملکی حکومتوں کو بہکایا ہے۔
رچرڈ برنیٹ کے مطابق "خفیہ آپریشن کو چھپائے رکھنے والی رازداری خارجہ پالیسی کے تیاری کے عمل کو مخصوص انداز میں مسخ کرتی ہے۔"
سی آئی اے کے لیے چھان بین
دستاویز میں برنیٹ سی آئی اے کے خفیہ آپریشنز کی ضرورت پر بھی سوال اٹھاتے ہیں۔
وہ لکھتے ہیں: "ایک بڑی خفیہ جنگی صلاحیت کی موجودگی ہی امریکی جمہوریت کو کمزور کرتی ہے کیونکہ ہمارے نظامِ حکومت میں لوگوں کے منتخب رہنماؤں کو اس بات کے فیصلے کا حق حاصل ہوتا ہے کہ ہم کب اور کہاں جنگ کریں۔"
"ایک بڑی بیوروکریسی کی دیکھ بھال جس کا بنیادی مقصد ہی فریب ہو، حکومت کے خلاف شبہ اور مایوسی کو جنم دیتی ہے۔ ان بیوکریسیز کی عوام سے منظم جھوٹ بولنے کی رسمی عادت نے حکومتی اعتماد کو اس حد تک نقصان پہنچایا ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔"
وہ مزید کہتے ہیں: "اس حقیقت سے فرار حاصل نہیں کیا جاسکتا کہ امریکی خفیہ کمیونٹی کے حجم اور صورت کے نیٹورک پر مؤثر کنٹرول قائم کرپانا ناممکن ہے۔ اور انتخاب کے لیے دو ہی صورتیں بچتی ہیں یا تو 1971 میں جیسا رچرڈ ہیلمز نے کہا تھا کہ اختیار رکھنے والے 'معزز افراد' پر 'بھروسہ' کرلیا جائے یا امریکا کے خفیہ انٹیلی جنس بازو کو علیحدہ کردیا جائے، اور میرے خیال میں دوسری صورت کی بےپناہ ضرورت پائی جاتی ہے۔
آرٹیکل میں مزید کہا گیا ہے کہ خفیہ نیٹ ورکس کی موجودگی بالخصوص اس بات سے جڑی ہے کہ امریکا کس قسم کی خارجہ پالیسی کو لے کر چلنا چاہتا ہے۔
"۔۔۔ خفیہ اداروں کا انڈر ورلڈ جدید سلطنت کو قائم رکھنے کا اہم ادارہ ہے، اگر ہم دنیا میں سیکیورٹی کو چلائے بغیر اس پر اختیار حاصل نہیں کرلیتے تو "بری چالوں" کا محکمہ ہماری قومی زندگی کا حصہ بنا رہے گا۔
اس میں لکھاری خاص طور پر چلی اور چلی میں منظرعام پر آنے والی عدم استحکم کی مہم کے حوالے سے بات کررہے ہیں۔
"بے شک ماضی کی نسبت اب سی آئی اے کے اہم سیاسی ہتھیار بن جانے کی کئی وجوہات ہیں، جن میں "لو پروفائل" مداخلتوں کی پہلے سے بہتر تکنیک، وسائل پیدا کرنے والے تیسرے درجے کے ممالک پر قبضہ حاصل کرنے کی بڑھتی ہوئی خواہش، اور بیرون ممالک روایتی فوجی کارروائیوں کو جاری رکھنے میں سامنے آنے والی مشکلات ہیں۔"
"اگر ہم ریاست کو ملک میں اور ملک سے باہر مجرمانہ کارروائیوں کو قانونی حیثیت دینے میں استعمال نہیں کرنا چاہتے تو ہمیں دیگر اقوام کی داخلی ترقی کے لیے شرائط مقرر کرنا چھوڑنا ہوگا۔"