ہری پور کا نابینا ڈاکیا، تنخواہ صرف ایک ہزار
ضلع ہری پور کے دور افتادہ گاؤں میں بید کی ایک چار فٹ کی چھڑی پہاڑی راستوں پر اپنے تھامنے والے کے لیے بینائی کا کام سرانجام دیتی ہے۔
اس کا تھامنے والا جوں ہی کسی جگہ سے گزرتا ہے، وہاں موجود لوگوں کی آنکھیں ادب و احترام سے جھک جاتی ہیں۔ لوگ بڑی گرمجوشی اور محبت سے مصافحہ کرتے ہیں۔ بے پناہ اور بے لوث محبت اس شخص کا اثاثہ ہے جس پر وہ شخص فخر کرنے میں حق بجانب ہے۔
یہ شخص کوئی رکنِ قومی و صوبائی اسمبلی نہیں اور نہ ہی کوئی اعلیٰ سرکاری افسر ہے، بلکہ بینائی سے محروم ایک پوسٹ مین ہے جو گزشتہ 44 سال سے علاقے کے لوگوں کی ڈاک اور منی آرڈر باقاعدگی اور پوری ایمانداری سے ان تک پہنچا رہا ہے۔ "حافظ صاحب" کے نام سے مشہور اس پوسٹ مین کا اصل نام محمد انور ہے۔
بید کی چھڑی سے پہاڑوں راستوں میں آنے والی ٹھوکروں کو ہٹاتے وہ راستہ بناتے جاتے ہیں اور 12 کلومیٹر طویل راستہ اسی طرح طے کرتے ہیں۔ آخری گھر کے مکین کی آنکھوں میں چمکنے والے آس کے جگنو کی امید پوری کرنے کے بعد ان کی واپسی کا سفر شروع ہوتا ہے۔ ان کا یہ سفر گزشتہ 44 سال سے جاری ہے اور آج بھی اسی محبت اور اپنائیت سے وہ لوگوں کو ان کی امانتیں پہنچانے کی ذمہ داری ادا کر رہے ہیں۔
12 کلومیٹر کے علاقے میں قائم گھروں کے راستے ان کے ذہن میں راسخ ہوگئے ہیں، افراد کی آوازیں ان کے حافظے میں ایسی محفوظ ہوئیں کہ صرف اسلام علیکم کہہ کر مخاطب کرنے والے کو وہ اس کے نام سے پکار کر وعلیکم اسلام کہتے ہیں۔ ان گھروں اور ان کے مکینوں سے ان کا تعلق ایک گھر کے فرد جیسا ہوگیا ہے۔
محمد انور کی والدہ، ایک بھائی اور ایک بہن نابینا تھیں۔ وہ خود بچپن سے نابینا نہیں تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی بینائی مکمل طور پر ختم ہوگئی، پھر بھی انہوں نے اپنا کام جاری رکھا۔
محمد انور پیدائشی طور پر ہی بینائی سے محروم تھے۔ یہ معذوری ان کی والدہ اور دیگر بہن بھائیوں میں بھی موجود تھی۔ والد کے انتقال کے بعد گھر کی کفالت محمد انور کے سر پر آن پڑی تو انہوں نے اس معذوری کو اپنے راہ کی رکاوٹ نہ بننے دیا اور اللہ کے آسرے مزدوری کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔
محمد انور اپنے ابتدائی حالات اس طرح بیان کرتے ہیں: "ہم گھر میں چار نابینا افراد تھے۔ میری والدہ نابینا تھیں اور میرا بھائی اور ایک بہن بھی دیکھنے کی نعمت سے محروم تھے۔ غربت کی وجہ سے مجھے بچپن سے ہی نوکری کے لیے گھر سے نکلنا پڑا۔ اس وقت میں مکمل نابینا نہیں تھا۔ بہت دھندلا سہی، مگر مجھے دکھائی دیتا تھا۔
"1973 میں مجھے پوسٹ مین کی نوکری 55 روپے ماہوار پر ملی، جس کے بعد ہمارے گھر میں کھانا روز پکنے لگا۔ اس کے کچھ عرصے بعد ہی میری والدہ نے میری شادی کر دی۔ میری اہلیہ نابینا نہیں تھی۔ اللہ نے مجھے 4 بچوں سے نوازا۔ ایک بیٹا اور تین بیٹیاں۔ میری اولاد الحمداللہ نارمل ہے۔ بچوں کی پرورش کے لیے یہ نوکری اور بھی ضروری ہوگئی تھی۔ پھر یہ ہوا کہ میرا بھائی انتقال کرگیا اور اس کے چار بچوں کی ذمہ داری بھی مجھ پر آگئی۔ مگر میں نے ہمت نہیں ہاری اور میرے رب نے میرا ساتھ دیا۔"
دو ڈاکخانوں کے درمیانی راستوں سے محمد انور کی شناسائی ایسی ہے کہ ان کے ساتھ چلنے والا حیران رہ جائے۔ وہ ایک ایک گھر کو اس گھر کے مکینوں سمیت جانتے ہیں۔ یہاں کے مکین بھی محمد انور کو گھر کا فرد ہی سمجھتے ہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ محمد انور کسی دروازے پر ڈاک یا منی آڈر دینے گیا اور کھانے کے ٹائم پر اسے کھانے کے بغیر مکینوں نے جانے دیا ہوا۔
اپنی نوکری کے حوالے سے محمد انور بتاتے ہیں کہ "گزشتہ چوالیس برس سے میں محکمہ ڈاک میں عارضی ملازم ہوں۔ میرا کام ایک ڈاکخانے سے دوسرے ڈاکخانے تک ڈاک پہنچانا ہے، جس کی اجرت مجھے اب 1040 روپے ملتی ہے۔ ڈاکخانہ ککوتری سے گائوں کچھی کے درمیان تقریباً 12 کلومیٹر کا فاصلہ ہے جو میں پیدل طے کرتا ہوں۔ پہلے تو اس علاقے میں روڈ اور گاڑیاں نہیں تھیں، مگر اب گاڑیاں موجود ہیں، مگر میں پھر بھی پیدل ہی ڈاک تقسیم کرتا ہوں۔
"بعض اوقات بھاری پارسل اور منی آڈر کی بڑی رقوم بھی دوسرے ڈاکخانے تک پہنچانی ہوتی ہیں۔ میں نے یہ کام ہمیشہ ایمانداری سے کیا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے مجھے سرخرو کیا اور کبھی کوئی پریشانی نہیں ہوئی، نہ ہی کسی حادثے یا نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ اب بوڑھا ہوگیا ہوں اور آرام کرنا چاہتا ہوں، مگر میرے علاقے کے لوگ میرا بہت ساتھ دیتے ہیں اور مجھے یہ کام چھوڑنے نہیں دیتے۔"
انور اپنے رب کی رضا میں راضی، اپنے اور اپنے بچوں کی پرورش کرتے رہے۔ انتہائی محدود تنخواہ اور نامساعد حالات میں بھی کفالت کی ذمہ داریاں پوری ہوتی رہیں۔ اس حوالے سے حالات کو انور کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں:
"حلال میں بہت برکت ہے۔ اس تنخواہ میں گزارہ ہو رہا تھا، ساتھ میں نے کاشتکاری بھی کی اور مویشی بھی پالے۔ الحمداللہ مالک نے بہت اچھا نظام چلایا۔ علاقے کے لوگوں کی محبت اور تعاون بھی شامل رہا، اس لیے کبھی کوئی شکایت یا تنگی محسوس ہی نہیں ہوئی۔ اب تو میرا بیٹا بھی بڑا ہو گیا ہے، اور ملازمت کرتا ہے۔ اس لیے اب کوئی پریشانی نہیں ہے۔"
44 برس کی ملازمت میں تنخواہ 55 روپے سے 1040 روپے تک پہنچی ہے۔ باقی ساری دنیا کی تنخواہ ہر برس بڑھتی ہے، جبکہ میری تنخواہ میں پانچ سال بعد بہت معمولی سا اضافہ ہوتا ہے۔ گزشتہ چار برس سے یہی تنخواہ ہے۔
مجسم شکر و قناعت حافظ محمد انور کو نہ تقدیر سے کوئی شکایت ہے نہ اردگرد موجود لوگوں سے کوئی گلہ۔ اپنے عزم اور حوصلے سے معذوری کو شکست دینے والا یہ نگینہ اپنے علاقے میں نہ صرف مقبول ہے، بلکہ بے شمار لوگوں کے لیے رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے۔
حافظ انور کی فرض شناسی اور اپنے کام سے لگن کی وجہ سے متعلقہ محکمے کے افراد اسے احترام اور رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ پوسٹ آفیسر ڈاکخانہ ککوتری عبدالحمید کا کہنا ہے کہ ’’حافظ انور فرض شناسی اور عزم کی لازوال مثال ہے۔ چاہے گرمی ہو یا سردی، بارش ہو یا حبس، حافظ انور ہر صورت ڈیوٹی پر آتا ہے۔
"راستہ انتہائی خراب اور مشکل ہونے کے باوجود کئی دفعہ بہت بھاری پارسل بھی وہ اپنے سر پر اٹھا کر لے جاتا ہے۔ وہ اپنا فرض جس ایمانداری سے ادا کرتا ہے، اس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ اتنے برسوں میں اس کی ایک شکایت بھی نہیں۔ وہ جسمانی طور پر معذور ضرور ہے، مگر حقیقتاً ایک اسپیشل انسان ہے جو لاکھوں نہیں کروڑوں میں سے ایک ہوتا ہے۔‘‘
محمد انور نہ صرف محنتی اور ایماندار انسان ہے بلکہ خودداری نے اس کی شخصیت کو مزید باوقار بنا دیا ہے۔ "44 برس کی ملازمت میں تنخواہ 55 روپے سے 1040 روپے تک پہنچی ہے۔ باقی ساری دنیا کی تنخواہ ہر برس بڑھتی ہے، جبکہ میری تنخواہ میں پانچ سال بعد بہت معمولی سا اضافہ ہوتا ہے۔ گزشتہ چار برس سے یہی تنخواہ ہے۔ افسران تنخواہ بڑھانے کے مطالبے پر صرف دلاسے تسلیاں دیتے ہیں، مگر تنخواہ نہیں بڑھتی۔ دسمبر کے مہینے میں محکمہ اس تنخواہ میں سے بھی ایک سو روپیہ کاٹ لیتا ہے۔ میری حکام بالا سے درخواست ہے کہ میرے بھتیجے کو محکمہ ڈاک میں مستقل ملازمت فراہم کی جائے تاکہ میری مشکلات میں کچھ کمی ہو سکے۔"
محکمہ ڈاک میں چوالیس برس تک انتھک محنت کرنے والے اس عظیم انسان کی موجودہ تنخواہ سرکاری سطح پر متعین کم ازکم تنخواہ کا بمشکل دس فیصد ہے، جبکہ حافظ محمد انور کی نوکری اب بھی عارضی ہے جس کا واضح مطلب یہی ہے کہ اپنی زندگی کی چار دہائیاں انتھک محنت کرنے کے باوجود محمد انور بڑھاپے میں پینشن اور دیگر معاشی مراعات سے یکسر محروم رہیں گے، جو کہ محکمانہ بے حسی اور استحصال کا بدترین ثبوت ہے۔
محکمہ ڈاک کی جانب سے اس معذور انسان کے ساتھ ہونے والی معاشی ناانصافی نہ صرف قابل مذمت ہے، بلکہ معاشرے کے لیے لمحہ فکریہ بھی ہے۔
طارق حبیب انویسٹیگیٹیو رپورٹر کے طور پر مختلف بین الاقوامی میڈیا اداروں کے ساتھ وابستہ رہے ہیں، اور آج کل بطور سینئر پروڈیوسر آج نیوز سے وابستہ ہیں۔
تبصرے (8) بند ہیں