• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm

اپنے لیے یا پاکستان کے لیے؟

شائع January 24, 2017
پاکستانی ٹیم آسٹریلیا کے خلاف چوتھے ون ڈے کے ساتھ ساتھ سیریز بھی گنوا چکی ہے— فوٹو: اے ایف پی
پاکستانی ٹیم آسٹریلیا کے خلاف چوتھے ون ڈے کے ساتھ ساتھ سیریز بھی گنوا چکی ہے— فوٹو: اے ایف پی

سڈنی میں ڈیوڈ وارنر کی سفاکی اور بالرز کی مایوس کن بالنگ کا تذکرہ بعد میں ہوجائے گا مگر 354رنز کے بڑے ہدف کے تعاقب میں شعیب ملک اور عمر اکمل کی’’کوشش‘‘ کی بات کرنا سب سے زیادہ ضروری ہے جو انہوں نے پاکستان کو ’’فتح‘‘ دلوانے کیلئے کی۔

10اوورز میں 68رنز کے آغاز کے بعد شرجیل خان کی جارح مزاج اننگز کا خاتمہ 74رنز کی اننگز کیساتھ ہوا تو 17اوورز میں پاکستان کا اسکور 3/120تھا جبکہ مضبوط مڈل آرڈر کی موجودگی میں فی اوور سات رنز کا ہدف اتنا مشکل نہ تھا جتنا اسے بنا لیا گیا۔ 20اوورز میں138 کے اسکور پر بھی حالات نہیں بگڑے تھے لیکن محمد حفیظ اور شعیب ملک جیسے سینئر بیٹسمینوں نے اگلے 10 اوورز میں صرف 46 رنز کا اضافہ کرتے ہوئے درکار رن ریٹ کو ساڑھے آٹھ تک پہنچا دیا جبکہ 30ویں اوور کی آخری گیند پر محمد حفیظ 40 رنزکی ’’محفوظ‘‘ اننگز کھیل کر کمرہ آرام میں پہنچ گئے۔

اس موقع پر بھی شعیب ملک اور عمر اکمل نے ہدف کا تعاقب کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی بلکہ صرف اپنی جگہ کی حفاظت کرتے رہے۔ شعیب ملک نے 61گیندوں پر 47رنز کی اننگز کھیل کر خود کو ’’کامیاب‘‘ ثابت کیا جبکہ اگلے ہی اوور میں عمر اکمل نے بھی دائرے کے اندر چھکا لگانے کی کوشش میں اپنی وکٹ گنوائی تو 6/218کے اسکور کیساتھ پاکستان کی شکست پر مہر ثبت ہوچکی تھی۔

اگر ہم اعدادوشمار کی بات کریں تو شعیب ملک اور عمر اکمل کی شراکت میں 35گیندوں کے دوران صرف ایک ہی باؤنڈری لگ سکی جبکہ سامنے 354رنز کا پہاڑ واضح طور پر دکھائی دے رہا تھااور مجموعی طور پر ان دونوں بیٹسمینوں نے 84 گیندوں کا سامنا کرتے ہوئے صرف دو باؤنڈریز لگائیں۔ کیا اتنے بڑے ہدف کے تعاقب میں اس طرح کی بیٹنگ کرنا ’’جرم‘‘ نہیں ہے جب ٹیم کے سینئر بیٹسمین صرف اپنی جگہ بچانے کیلئے کھیل رہے ہوں اورانہیں ٹیم کی جیت سے کوئی سروکار نہ ہو۔

اگر پاکستان اور آسٹریلیا کی ٹیموں کا موازنہ کیا جائے تو آسٹریلیا کو واضح برتری حاصل ہے اور پاکستان کا اس سیریز میں ایک ون ڈے جیت لینا بھی بہت بڑی کامیابی ہے لیکن مقابلہ کیے بغیر ہتھیار ڈال دینا تو کسی بھی طور پر بھی قبول نہیں ہے۔ قومی ٹیم کو ایسے کھلاڑیوں کی ضرورت ہے جو پاکستان سے نہ کھیلیں بلکہ پاکستان کیلئے کھیلیں۔ میلبورن اور سڈنی کے ون ڈے میں پاکستانی ٹیم کی کارکردگی میں فرق کیا تھا ؟بس یہی کہ میلبورن میں پوری طرح جان لڑانے والے پاکستانی کھلاڑیوں نے سڈنی میں لڑے بغیر ہی ہتھیار ڈال دیے۔

میلبورن میں محمد حفیظ کو پہلی مرتبہ ون ڈے انٹرنیشنلز میں پاکستان کی کپتانی کا موقع لیا تو ’’پروفیسر‘‘ نے اپنا سارا تجربہ اس ایک میچ میں جھونک دیا۔ جارح مزاج کپتانی، نپی تلی کپتانی اور فتح گر اننگز سے محمد حفیظ نے دل جیت لیے تھے لیکن اظہر علی کی واپسی کیساتھ محمد حفیظ کا جوش بھی کم ہوگیا جنہوں نے اس سیریز کی بجائے دورہ ویسٹ انڈیز پر اپنی نگاہیں مرکوز کرلی ہیں ۔دوسری طرف جنید خان نے اپنی واپسی کو بھی یادگار بنانے کی بھرپور اور کامیاب کوشش کی جس کے سامنے آسٹریلین بیٹسمین ڈرے ہوئے دکھائی دیے لیکن سڈنی میں جنید خان نے اپنے کیرئیر میں پہلی مرتبہ دس اوورز کے کوٹے میں 80 سے زائد رنز دے ڈالے۔

سڈنی کے ون ڈے میں بھی پاکستانی کھلاڑیوں کی خراب فیلڈنگ پوری طرح واضح ہوگئی جبکہ میدان میں فٹنس کی خامیاں بھی آشکار ہوگئیں جب فیلڈرز کو باؤنڈری روکنے کیلئے بھاگنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا یا پھر وکٹوں کے درمیان بھاگنا بھی مشکل محسوس ہورہا تھا ۔چند دن پہلے اس موضوع پر ایک تحریر لکھی تھی کہ 90ء کے دور کی ٹریننگ اور فٹنس کیساتھ موجودہ دور میں اچھے نتائج حاصل نہیں کیے جاسکتے اور آج اس بات کا اظہار ماضی کے عظیم فاسٹ بالر وقار یونس نے دوران کمنٹری بھی کیا جن انہوں نے عمر اکمل کے بڑھتے ہوئے وزن اور فٹنس کھل کر تنقید کی۔

اظہر علی کو ون ڈے ٹیم کا کپتان رہنا چاہیے یا نہیں اس پر تو شاید بحث کرنا بھی فضول ہے کیونکہ اظہر علی میں کپتانی کی وہ صلاحیتیں نہیں ہیں جو انٹرنیشنل کرکٹ میں درکار ہیں اور یہ بات بہت پہلے ثابت ہوچکی ہے اور دورہ ویسٹ انڈیز سے قبل اس فارمیٹ کیلئے نئے کپتان کا فیصلہ کرنا ہوگا لیکن اظہر علی کو کپتانی سے ہٹانے کیلئے کھلاڑیوں کو جان بوجھ کر خراب کھیلنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ایسا کرنا پاکستان کا نقصان ہے۔

انگلینڈ میں بھی سیریز گنوانے کے بعد آخری میچ میں ’’بڑے‘‘ کھلاڑیوں نے اچھی پرفارمنس دکھا کر اپنی جگہ پکی کی تھی اور شاید آسٹریلیا کیخلاف آخری ون ڈے میں بھی ایسا ہی ہو لیکن ون ڈے فارمیٹ میں پاکستانی ٹیم اس وقت تک مشکلات سے باہر نہیں آئے گی جب تک فٹنس پر کام کرنے کے علاوہ اپنے لیے کھیلنے کی بجائے پاکستان کیلئے کھیلنے کا جذبہ پیدا نہیں ہوگا ۔اگر یہ ٹیم میلبرن میں کینگروز کو ناکوں چنے چبوا سکتی ہے تو پھر سڈنی میں بھی یہ زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتی تھی جو جان بوجھ کر نہیں کیا گیا ...اور پاکستان کا ستارہ سینے پر سجانے والوں کا یہ عمل سب سے زیادہ قابل افسوس ہے!


یہ مضمون ابتدائی طور پر کرک نامہ ڈاٹ کام پر شائع ہوا، اور با اجازت یہاں دوبارہ شائع کیا گیا ہے.

فرحان نثار

فرحان نثار مختلف اخبارات، جرائد اور ویب سائٹس کے لیے کرکٹ کے موضوع پر کالمز اور بلاگز لکھتے ہیں کئی پاکستانی کرکٹرز کے انٹرویوز کر چکے ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: farhanwrites@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (4) بند ہیں

muhammad Tayyab Jan 24, 2017 11:26am
dear I agree with you. umer akmal and shoib malik also azher ali not desseve nai kartye. Aamir ko b gehen lagta jaa raha he. achei coaching k sath achi selection b bhut metter karti he.
Raja Bilal Jan 24, 2017 11:44am
Abb iss PCT se dil itna uchaat ho gaya hai k harein ya jeetein koi farq hi nahi parta! Jab tak sifarshi cricketer atay rhein ge ye team kabhi bhi nahi jeet sake gi so main sab ko yehi mashwara doon ga k inn ki haar par afsoos kar k apna time zaaya mat karein ye loog NIKHATTU hain!!
Dr. MUHAMMAD JAWED Jan 24, 2017 12:28pm
They are performing just enough to keep cricket alive for their own earning. This attitude should be consider as more than a corruption.
KHAN Jan 24, 2017 06:26pm
السلام علیکم: قومی ٹیم کو ایسے کھلاڑیوں کی ضرورت ہے جو پاکستان سے نہ کھیلیں بلکہ پاکستان کیلئے کھیلیں۔ یہ کھلاڑی تو شاہد آفریدی ہی ہے، خیرخواہ

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024