متنازع معاملات پر ڈونلڈ ٹرمپ کے خطرناک مؤقف
اب جبکہ امریکی تاریخ کے سب سے زیادہ متنازع صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس ہفتے عہدہ سنبھالنے والے ہیں تو دنیا اپنی سانسیں روکے ہوئے ہے۔
ان کے قابلِ بھروسہ ہونے کے حوالے سے اٹھتے سوالات کی وجہ سے واشنگٹن بے حد غیر یقینی کا شکار ہے۔ ان کے انتخاب نے ملک کو پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ تقسیم کا شکار بنا دیا ہے۔
ٹرمپ کے بطور 45 ویں امریکی صدر حلف اٹھانے کے ایک دن بعد سینکڑوں اور ہزاروں خواتین کی جانب سے واشنگٹن مارچ متوقع ہے۔ دنیا کا مضبوط ترین عہدہ سنبھالنے والے شخص کے لیے یہ سازگار شروعات نہیں۔ نوبیل انعام یافتہ ماہرِ اقتصادیات پال کرگمین لکھتے ہیں کہ "امریکا میں واضح طور پر حکمرانی نااہل ترین شخص کے ہاتھ میں آئی ہے۔" پال مزید لکھتے ہیں کہ "چوں کہ ٹرمپ صدر کا عہدہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں، صرف اس بناء پر ان کا احترام نہیں کیا جانا چاہیے."
نئے آنے والے صدر کی مشکوک اخلاقی اور سیاسی ساکھ کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکا غیر یقینی حالات کی جانب گامزن نظر آ رہا ہے۔ عہدہ سنبھالنے سے قبل ہی انہیں قابو میں رکھنے کی باتیں کی جا رہی ہیں. ان کا اپنے ملک کی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اور خفیہ اداروں سے تنازع چل رہا ہے، جن کا موازنہ وہ نازیوں کے ساتھ کرتے ہیں۔
روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی تعریف، اور یہ الزام کہ صدارتی انتخابات کے نتائج میں روس کا اثر شامل تھا، نے نئے صدر پر عدم اعتمادی کو مزید بڑھایا ہے۔
چند دن قبل لیک ہونے والی ایک غیر تصدیق شدہ انٹیلیجنس معلومات میں یہ الزام لگایا گیا ہے کہ ممکنہ طور پر ماسکو کے ایک ہوٹل میں ٹرمپ کو سیکس ورکرز کے ساتھ فلما کر روس ٹرمپ کو بلیک میل کر چکا ہے؛ اس طرح نئے صدر کئی امریکی افسران کی نظر میں ایک 'سیکیورٹی رسک' بن چکے ہیں۔
اس شک پر اسرائیلی اخبارات میں شائع ایک خبر میں مزید روشنی ڈالی گئی ہے جس کے مطابق امریکی افسران نے اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ خفیہ معلومات کا تبادلہ کرتے وقت ’خیال رکھا جائے'، کیوں کہ اس طرح معلومات روس تک بھی پہنچ سکتی ہے۔
اگر ایک رہنما کی ساکھ اس قدر مشکوک و مشتبہ ہو، تو اس کے بارے میں کوئی سوچنے پر مجبور کیوں نہ ہو؟ اس سے پہلے کسی بھی امریکی صدر کی اہم قومی سلامتی کے معاملات سنبھالنے کی اہلیت کی اس قدر سخت جانچ پڑتال نہیں کی گئی ہے.
خارجہ پالیسی پر ٹرمپ کے عجیب و غریب خیالات عالمی رہنماؤں کے لیے ایک بڑی تشویش کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ وہ غیر قانونی ہجرت کو روکنے کے لیے میکسیکو کی سرحد پر دیوار کھڑی کرنے اور اس دیوار کی قیمت بھی میکسیکو سے وصول کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ مگر سب سے زیادہ تشویش ناک بات امریکی سفارت خانے کی یروشلم منتقلی کا فیصلہ ہے. یہ واشنگٹن کی طویل عرصے سے قائم پالیسی سے انحراف ہوگا.
امریکا میں جو بھی شخص صدر منتخب ہو، روایت ہے کہ وہ حلف اٹھانے سے قبل موجودہ انتظامیہ کی پالیسیوں پر تبصرہ نہیں کیا کرتا. ڈونلڈ ٹرمپ نے اس روایت کو توڑتے ہوئے فلسطینی زمین پر نئی اسرائیلی بستیوں کی تعمیر کی روک تھام کے لیے اقوامِ متحدہ میں پیش ہونے والی قراداد کو ویٹو نہ کرنے کے اوباما کے فیصلے کو عوامی سطح پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
اسرائیلی بستیوں کے حامی وکیل ڈیوڈ فرائیڈمین کو اسرائیل میں سفیر تعینات کرنے کے ارادے کو امریکی اتحادیوں کی جانب سے بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، جو اس اقدام کو ایک بڑی تباہی کے طور پر دیکھتے ہیں جس سے مشرق وسطیٰ میں صرف مزید آگ پھیلے گی۔
ایک اور متنازع قدم اٹھاتے ہوئے ٹرمپ نے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے داماد جیرڈ کشنر کو مشرق وسطیٰ میں امن سمجھوتہ کروانے کا ٹاسک دیں گے. اس نامعقولی نے نہ صرف فلسطین بلکہ امریکا کے مغربی اتحادیوں کو بھی شدید پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔
چین بھی ٹرمپ کی سرکش خارجہ پالیسی کی حرارت محسوس کر رہا ہے۔ بطور منتخب صدر، عالمی رہنماؤں کو کی جانے والی ٹیلی فون کالز میں سے ایک تائیوان کے صدر کو بھی کی گئی تھی۔ گزشتہ تمام سابقہ امریکی حکومتیں، چاہے وہ ری پبلکن ہوں یا ڈیموکریٹس، 1979 سے ’ون چائنہ‘ کی پالیسی پر قائم رہی ہیں۔ گزشتہ چار دہائیوں کے دوران کئی تلخیوں کے باوجود بھی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کافی مضبوط ہوئے ہیں۔
ٹرمپ کے تائیوان کی جانب پرتپاک رویوں اور اشاروں سے ایک بار پھر ’ٹو چائناز’ کا مسئلہ کھڑا ہو سکتا ہے۔ یہ بات بیجنگ کے لیے بھی شدید غصے کا باعث بنی ہے اور اس کے یقینی طور پر زبردست علاقائی اور عالمی اثرات مرتب ہوں گے۔ چین نے منتخب صدر پر آگ سے کھیلنے کا الزام عائد کیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ بیجنگ کے پاس پھر اپنی طاقت دکھانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں بچے گا۔
ٹرمپ کی بریگزٹ کے لیے عوامی سطح پر حمایت اور اپنے بیانات میں دیگر یورپی ملکوں کو بھی برطانیہ کے نقش قدم پر چلنے کا مشورہ دینے کی وجہ سے انہیں یورپی ملکوں کی جانب سے بھی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے.
ایک انٹرویو میں وہ یورپی یونین کو توڑنے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ 10 لاکھ سے زیادہ مہاجرین کو جرمنی آنے کی اجازت پر انہوں نے جرمن چانسلر اینگلا مرکل پر عوامی سطح پر تنقید کی، جس پر جرمنی سے شدید ردعمل ابھرا۔ ٹرمپ کے انتخاب نے ایک شدید قوم پرستانہ لہر کو ہوا دی ہے جو کہ یورپی اتحاد کے لیے بڑا خطرہ ہے۔
ایک دوسرا حساس مسئلہ یہ ہے کہ ٹرمپ ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے پر نظرِثانی کی کوشش میں ہیں۔ یہ معاہدہ ایران اور چھے عالمی طاقتوں پی 5 پلس ون نے 2015 میں کیا تھا جس کے تحت ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کی ایران کی صلاحیت ختم کرتے ہوئے اس پر عائد معاشی پابندیاں ہٹائی گئی ہیں۔
یقیناً واشنگٹن تنہا اس معاہدے کو واپس نہیں لے سکتا مگر اس طرح ایران کے لیے بین الاقوامی دھارے میں دوبارہ آنے کے لیے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ اب جبکہ وہ صدارت کا عہدہ سنبھالنے والے ہی ہیں، مگر اب بھی ان کے مسلم مخالف مؤقف میں نرمی کہیں دکھائی نہیں دے رہی۔ اس طرح دولت اسلامیہ اور القاعدہ جیسے اسلامی انتہا پسند گروپس کو مزید تقویت ملے گی۔
مگر افغانستان پر ٹرمپ کی پالیسی کافی حد مبہم نظر آتی ہے جہاں قریب 10 ہزار امریکی فوجی اب بھی دہشتگردوں سے لڑنے میں مصروف ہیں۔ افغان مسئلے پر ان کا مؤقف نہ انتخابی مہم کے دوران اور نہ اس کے بعد دیے جانے والے انٹرویوز میں واضح ہوا۔
مشیر قومی سلامتی کے عہدے کے لیے ان کے نامزد کردہ جنرل مائیکل فلن اور دفاعی سیکریٹری ریٹائرڈ جنرل جیمز میٹس افغان جنگ میں شریک رہے ہیں اور صورتحال سے واقف ہیں، مگر اس وقت ایسا کوئی واضح اشارہ نہیں ملتا جس سے پتہ چلتا ہو کہ آیا نئی انتظامیہ فوجیوں کو وہاں اسی تعداد میں وہاں تعینات رکھے گی یا پھر مزید بڑھائے گی۔ 15 سالہ طویل افغان جنگ کے خاتمے کے کسی سیاسی حل پر بھی کوئی وضاحت نظر نہیں آ رہی ہے۔
ان تمام باتوں میں یقیناً پاکستان کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔ کئی مبصرین کا ماننا ہے کہ اگر افغانستان میں صورتحال بگڑتی ہے تو وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ مشہور زمانہ ٹیلیفونک گفتگو کے باوجود بھی پاکستان پر دباؤ بڑھے گا۔
سینیٹ اجلاس کے موقع پر جنرل میٹس نے اپنے بیان میں پاکستان سے تعلقات پر ملا جلا پیغام بھیجا۔ جہاں انہوں نے تعلقات مضبوط کرنے کا عہد کیا، وہاں انہوں نے پاکستان کو خبردار کیا کہ وہ اپنی زمین سے دہشتگردی کرنے والے انتہاپسند گروپس کے خلاف کارروائی کرے۔
ٹرمپ کے بارے میں صرف ایک بات متوقع ہے اور وہ ہے ان کا غیر متوقع مزاج۔ اس بڑے عہدے پر ان کی موجودگی سے امریکا اور دنیا میں عدم استحکام پیدا ہوگا۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا کانگریس اور مضبوط امریکی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ انہیں قابو میں رکھ سکتی ہیں یا نہیں، اور اگر ہاں، تو کیسے۔
تبصرے (1) بند ہیں