سات جنموں کی قسم: ٹنڈو آدم میں اجتماعی ہندو شادی کی جھلکیاں
شادی ہال میں داخل ہوتے ہی بچپن میں دیکھی ہوئی کسی بولی وڈ فلم کے کسی منظر میں داخل ہونے کا گمان ہوتا ہے۔ دلہن کی سکھی سہیلیوں کی کھلکھلاہٹ اور اِدھر سے اُدھر دوڑم بھاگ ہے۔ پھولوں کی خوبصورت سجاوٹ اور دھنک کے سارے رنگ بکھرے ہوئے ہیں۔ 2 ہزار مہمانوں کی آمد سے تقریب کسی شادی سے زیادہ کسی میلے کا سماں باندھے ہوئے ہے۔
مگر اس شادی کی سب سے خاص اور مختلف بات یہ ہے کہ یہ ایک اجتماعی شادی کی تقریب ہے جہاں ایک سے زائد جوڑے رشتہءِ ازدواج میں بندھنے جا رہے ہیں۔
کم آمدن والے گھرانوں سے تعلق رکھنے والے 15 جوڑوں نے شاید ایسی شاندار تقریب کا تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔ یہ اڈیرو لعل ویلفیئر آرگنائزیشن اور دیگر مختلف تنظیموں اور افراد کی ہی مہربانی ہے کہ جن کی مالی معاونت سے اس تقریب کا انعقاد ہوا ہے، جس میں دلہنیں اور دولہے خود کو اس سرد دن میں کسی دیس کی رانی اور راجہ تصور کر رہے ہیں۔
ہاتھوں سے بنے زیورات، ایک منفرد سہرا اور سرخ ویسٹ کوٹ پہنے دولہوں میں سے ایک دولہا رامچند خوشی سے سرشار نظر آ رہا ہے۔
خوشی سے پھولے رامچند جو ایک بس کنڈٖیکٹر ہیں کہتے ہیں کہ "ہر کوئی میرے لباس اور میرے پہنے ہوئے زیورات کو دیکھ رہا ہے۔"
رامچند نے اپنے مستقبل کے لیے بڑے بڑے خواب سجا رکھے ہیں۔ اسے امید ہے کہ ایک دن وہ کنڈیکٹر سے ڈرائیور کی سیٹ پر بیٹھ جائے گا اور اس طرح اپنی ہونے والی بیوی اور خاندان کو بہتر زندگی فراہم کر پائے گا۔
جہاں دولہے باہر منتظر بیٹھے ہیں وہاں دلہنیں اپنے اس بڑے دن کے لیے سولہ سنگار میں مصروف ہیں۔ میک اپ کرنے والی خواتین دلہنوں کے بالوں کو سمیٹ کر باندھ دیتی ہیں۔ ساتھ ساتھ باتوں کا سلسلہ بھی چل رہا ہے اور دلہنوں کو جلد از جلد ان کے اس بڑے دن پر تصاویر میں خوبصورت دکھانے کے لیے بھر پور کوشش بھی جا رہی ہے۔
باہر اس تقریب کے صدر منتظم راجو بابا مہمانوں کا استقبال کر رہے ہیں۔ وہ ڈان ڈاٹ کام کو بتاتے ہیں کہ اس تقریب کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے لوگوں کی جانب سے 50 سے لے کر بڑی رقوم کی امداد کی گئی۔
وہ مزید بتاتے ہیں کہ، "نہ صرف ہندوؤں، بلکہ مسلمانوں نے بھی بھرپور حصہ ڈالا ہے۔ منتظمین نے ہر دلہن کے لیے 35 ہزار روپے کے تحائف کے ساتھ ساتھ بے حد دعائیں بھی بھیجی ہیں۔"
ایک دولہے کے بھائی بیربا کو پہلے پہل تو اجتماعی طور پر سات پھیروں کی رسم کی ادائیگی کا خیال عجیب لگا، لیکن جب انہیں پتہ چلا کہ 14 جوڑے اور ان کے گھرانے پہلے ہی تیار ہیں، تب انہوں نے بھی اپنا خیال تبدیل کر لیا۔
رسومات
وہ اس تقریب میں اپنی بھابی کا استقبال کرنے کے لیے کافی خوش نظر آ رہے ہیں۔
جلد ہی پھیروں کا وقت ہو گیا۔ دولہے اپنے منہ پر رومال رکھے منڈپ میں بیٹھ رہے ہیں۔ اسے ایک اچھا شگن مانا جاتا اور کہا جاتا ہے کہ اس طرح شادی کی رسومات خوش اسلوبی سے پوری ہوتی ہیں۔
تھوڑی ہی دیر میں دلہنیں بھی منڈپ میں آ جاتی ہیں اور قسموں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ جیسے ہی پنڈت کنہیا لال ساتوہں قسم کو پڑھنا شروع کرتے ہیں اور جوڑے مقدس آگ کے گرد پھیرے لینا شروع کرتے ہیں تب خواتین ان پر گلاب کی پتیاں نچھاور کرنے لگتی ہیں۔
کئی دولہوں کی مائیں اور دیگر خواتین اہل خانہ نے جوڑے کے بہتر نصیب کے لیے پورے دن کا روزہ رکھا ہوا ہے۔ رسومات کی انجام دہی کے بعد وہ پانی پی کر اپنا روزہ توڑتی ہیں۔
ایک قابل تعریف اقدام
اس رات کی تقریب صرف برادری کی سخاوت سے ممکن بن پائی ہے۔
استاد بابو اس تقریب کے کیٹرر ہیں جنہوں نے 50 فیصد ڈسکاؤنٹ کے ساتھ کھانا فراہم کیا ہے۔ وہ بزرگ ڈان ڈاٹ کام کو بتاتے ہیں کہ "میں انسانیت پر یقین رکھتا ہوں، ذات اور مذہب کی بنا پر تفریق نہیں کرتا۔ جب مجھے پتہ چلا کہ وہ اتنا زیادہ کھانا ایک اجتماعی شادی کے لیے خرید رہے ہیں تو بس میں نے بھی (ان کی مدد کردی)۔"
رخصتی سے پہلے پاکستان ہندو کونسل کے ایک سرپرست رمیش کمار وانکوانی نے ہر دلہن کے لیے مزید 10 ہزار روپے کی رقم کا اعلان کیا۔
ہمارے معاشرے میں جس طرح شادیوں میں بڑے پیمانے پر خرچہ ہوتا اسے مد نظر رکھتے ہوئے رمیش کمار وانکوانی، جو ممبر قومی اسمبلی ہیں، اجتماعی شادیوں کا سلسلہ جاری رکھنے پر زور دیتے ہیں۔
منوج گینانی فوٹوگرافر اور سنیمیٹوگرافر ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
منوج گینانی فوٹوگرافر اور سنیمیٹوگرافر ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔