’وکی لیکس کو حساس ڈیٹا دینے والے فوجی کی سزا معاف‘
امریکی صدر براک اوباما نے اپنے دور صدارت کے آخری ہفتے میں 209 افراد کی سزاؤں میں کمی اور 64 قیدیوں کے لیے معافی کا اعلان کردیا۔
امریکی خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق جن لوگوں کی سزاؤں میں کمی کی گئی ہے ان میں سب سے اہم نام حساس حکومتی و عسکری دستاویز ویب سائٹ وکی لیکس کو دینے والے سابق فوجی اہلکار بریڈلے میننگ کا ہے۔
بریڈلے میننگ کو 2010 میں گرفتار کیا گیا تھا اور اس وقت اس کا نام بریڈلے میننگ تھا تاہم بعد میں اس نے خود کو عورت کہنا شروع کردیا تھا اور اپنا نام بریڈلے سے چیلسی میننگ کرلیا تھا اور اب اسے بطور خاتون چیلسی میننگ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
بریڈلے میننگ کو حساس دستاویز لیک کرنے کے الزام میں 35 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی اور وہ تقریباً 6 برس تک قید کی سزا کاٹ چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: وکی لیکس کو راز فراہم کرنے کا اعتراف
امریکی صدر کی جانب سے سزا میں کمی کرنے کے بعد اب بریڈلے میننگ کی سزا 17 مئی 2017 کو ختم ہوجائے گی۔
بریڈؒلے میننگ نے گزشتہ برس دو بار خود کشی کرنے کی بھی کوشش کی تھی۔
امریکی صدر کی جانب سے جن قیدیوں کی سزاؤں میں کمی اور معافی دی گئی ہے ان میں زیادہ تر منشیات سے متعلق جرائم میں سزا یافتہ ہیں۔
یاد رہے کہ مارچ 2013 میں بریڈلے میننگ نے قومی خفیہ راز وکی لیکس کو فراہم کرنے کا اعتراف کیا تھا۔
امریکا میں عدالت کے روبرو اپنے اوپر لگائے گئے الزامات قبول کرتے ہوئے بریڈلے نے کہا تھا کہ انہوں نے عوام کو امریکا کی خارجہ اور فوجی پالیسی سے آگاہ کرنے کیلئے وکی لیکس کو راز افشا کیے تھے۔
بریڈلے کے مطابق، انہیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس اقدام سے ملک کو نقصان پہنچے گا۔
مزید پڑھیں: 'آسانج پھیپھڑوں کی تکلیف میں مبتلا'
بریڈلے میننگ نے اعتراف کیا تھا کہ اس نے بغداد میں بطور انٹیلی جنس تجزیہ کار کام کے دوران 2009ء اور2010ء میں ہزاروں کی تعداد میں عراق اور افغانستان کی جنگی رپورٹیں، سفارتی اور دوسرے خفیہ دستاویزات اور خفیہ ویڈیو کلپس وکی لیکس کو فراہم کی تھیں۔
خیال رہے کہ وکی لیکس کے بانی جولین اسانج بھی سوئیڈن کو مطلوب ہیں اور وہ خفیہ دستاویز اپنی ویب سائٹ پر شائع کرنے کے بعد سے لندن میں ایکواڈور کے سفارتخانے میں مقیم ہیں کیوں کہ انہیں خدشہ ہے کہ خدشہ ہے کہ آسانج کو سفارت خانے کی حدود سے باہر نکلنے پر گرفتار کیا جا سکتا ہے۔