• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

مغرب کی سازش یا ...

شائع January 13, 2017 اپ ڈیٹ January 14, 2017
لکھاری فری لانس کالم نگار ہیں اور مذہب میں دلچسپی رکھتی ہیں۔
لکھاری فری لانس کالم نگار ہیں اور مذہب میں دلچسپی رکھتی ہیں۔

مسلم بادشاہتوں کی دولت اور شان و شوکت اپنی جگہ، مگر عالمِ اسلام مشکلات کا شکار ہے۔ مسلم حکومتیں اندرونی کشمکش، بھوک کے شکار لوگوں کی جانب عدم توجہ، لالچ اور بیرونی طاقتوں کے زیرِ اثر ہونے کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔

سعودی عرب اور ایران کے درمیان تناؤ اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ اب وہ شام اور یمن میں ایک دوسرے کے خلاف پراکسی جنگوں پر اتر آئے ہیں۔ اسی وجہ سے گذشتہ سال ایرانی زائرین حج کی سعادت حاصل کرنے سے محروم رہے۔ ان جنگوں نے بڑے انسانی المیوں کو جنم دیا ہے، قحط اور غربت پیدا کی ہے، اور کروڑوں لوگوں کو دربدر کیا ہے۔

ان سیاسی چالوں کا مقصد صرف خطے میں طاقت اور اثر و رسوخ حاصل کرنا ہے، اور اس کے لیے سیاست اور مذہب کا استحصال کیا جا رہا ہے جس کا حتمی طور پر نقصان عام لوگ اٹھا رہے ہیں۔ پہلے سے تقسیم شدہ اسلامی دنیا مزید تقسیم کا شکار ہو رہی ہے۔ سوشل اور مین اسٹریم میڈیا پر بھی فرقہ وارانہ جذبات پھیل رہے ہیں جہاں فریقین کی جانب سے مبینہ طور پر کیے گئے ظلم و ستم کی تصاویر بڑی تعداد میں پوسٹ کی جاتی ہیں۔

پاکستان میں ہر سال سینکڑوں 'شعلہ بیان' خطیبوں کو محرم کے دوران زیادہ 'حساس' علاقوں میں داخل ہونے سے روک دیا جاتا ہے۔ اقلیتوں پر بے رحم حملے معمول ہیں جن میں اکثر پاکستانی طالبان یا ان کے ذیلی گروپ شامل ہوتے ہیں، مگر کبھی کبھی دیگر گروہ بھی اس کام میں حصہ لیتے ہیں۔ نفرت پھیلانے کے لیے منبر کا استعمال عام ہے۔

صدیوں سے قرآن کے لفظی معانی پر زور، کمزور احادیث پر یقین، اور قبائلی اور مردانہ حاکمیت پر مبنی روایات نے ایک ایسے پریشان کن بیانیے کو جنم دیا ہے جس میں خود کو پارسا سمجھنے والے مولوی حضرات کی سماجی اور مذہبی خواہشات کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔

80 کی دہائی میں پاکستانی پالیسیوں کی وجہ سے وہ بے رحم جنونی وجود میں آئے جو اسلام کو قتل و غارت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس حقیقت کے ادراک، اور بڑھتی ہوئی داخلی دہشتگردی کی وجہ سے آپریشن ضربِ عضب شروع کرنے کی نوبت پیش آئی۔

جس چیز کی اب پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے، وہ جاوید احمد غامدی کے الفاظ میں 'ضربِ فکر' ہے، تاکہ دہشتگردوں اور ان کے حامیوں کے نظریات کو شکست دی جا سکے۔ میں یہاں اس اصطلاح کا استعمال وسیع تر تناظر میں کر رہی ہوں۔

مسلم دنیا، اس کے وہ علماء اور رہنما جو مسلم سیاست اور معاشرے کے تیز رو زوال کے بارے میں سنجیدہ تشویش رکھتے ہیں، انہیں متبادل طرزِ فکر تلاش کر کے کھلی بحث کے پلیٹ فارمز تشکیل دینے چاہیئں۔ اس کام کو مقامی، ملکی، علاقائی اور عالمی سطح پر ہونا چاہیے۔

مقاصد میں ایسے معاشروں کا قیام شامل ہونا چاہیے جن میں برداشت اور تکثیریت پائی جاتی ہو، جیسا کہ مسلم معاشروں کو ہونا چاہیے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ ان معاشروں کو تعلیم اور مضبوط سماجی تعلقات کے ذریعے ٹیکنالوجیکل اور اقتصادی ترقی پر بھی اپنی توجہ رکھنی چاہیے۔

اس کی جانب پہلا قدم مسائل کا تجزیہ اور ذمہ داریوں کا تعین ہے۔ ہمیں ہر چیز کا الزام مغرب کی 'سازشوں' پر ڈالنے کی روش چھوڑنی ہوگی۔

ممالک، بالخصوص پاکستان، کو مذہبی اختلافِ رائے کو کھلے دل سے قبول کر کے شروعات کرنی چاہیے، اور آزادیءِ اظہار کے مخالفین پر گرفت مضبوط کرنی چاہیے، نہ کہ آزادیءِ اظہار پر یقین رکھنے والوں پر۔ ماضی قریب و بعید میں ایسی کئی مثالیں ہیں جن میں ایک کے بعد ایک حکومتوں نے یا تو پاکستانیوں کو خوف اور دہشت میں مبتلا کرنے والے گروہوں کی یا تو حوصلہ افزائی کی، یا پھر ان کے دباؤ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔

بلند پایہ عالمِ دین فضل الرحمان کو 1960 کی دہائی میں قرآن شریف پر اپنے تاریخی کام کی وجہ سے ملک چھوڑنا پڑا۔ کئی ایسے مسلمان جو مذہبی معاملات پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں، 'مرتد' اور 'گستاخ' کہلوانے کے ڈر سے نہیں کر پاتے۔

حال ہی میں گھریلو تشدد یا غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قوانین کی یا تو مزاحمت کی جاتی ہے، یا انہیں نرم کر دیا جاتا ہے۔ مذہب کی جبری تبدیلی کے خلاف لائے گئے سندھ کے حالیہ قانون کو 'غیر اسلامی' قرار دیا گیا۔ کئی قوانین مشتبہ تشریحات پر مبنی ہوتے ہیں اور انہیں کمزور و معصوم لوگوں کے خلاف ذاتی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

آج اسلام کے عقلیت پسندی، غور و فکر، بحث و مباحثے، کشادگیءِ ذہن اور انتخاب کی آزادی کے پیغام کو دہرائے جانے کی ضرورت ہے۔ ایک فرد کو اپنی مرضی کے مذہب یا فرقے کی پیروی کی اجازت ہونی چاہیے، اور ریاست کو اپنی توجہ لوگوں کی بھلائی کی جانب کرنی چاہیے، انہیں صحت اور تعلیم فراہم کرنی چاہیے، اور صرف غریب لوگوں کے استحصال کی صورت میں مداخلت کرنی چاہیے۔

علما کو مل بیٹھ کر گفتگو کرنی چاہیے کہ آخر لڑائیاں ہیں کس بات پر، اور یہ بھی کہ کیا ان کے مؤقف اسلامی تعلیمات کے مطابق ہیں بھی یا نہیں۔ مسلمانوں کو ان کی ذاتی اور اجتماعی زندگیوں میں شریعت کے مطلب پر بحث کرنے کی آزادی ہونی چاہیے، اور یہ کہ اس کی کون سی صورت متعلقہ ہے اور کون سی نہیں۔

مدرسوں کے پیدا کردہ ہزاروں 'علماء' پر نظر رکھنی چاہیے کہ وہ کیا سیکھتے ہیں اور فارغ التحصیل ہونے کے بعد کیا کرتے ہیں۔ مساجد کے خطبوں کا محتاط جائزہ لے کر کسی بھی نفرت انگیز چیز کو نکال دینا چاہیے۔ اسلامی نظریاتی کونسل جیسے ادارے جو خواتین کے حقوق کے مخالف ہیں اور فکری ترقی پر پابندیاں لگاتے ہیں، ان سے جان چھڑا لینی چاہیے۔ اور ان تمام اقدامات کو سخت قوانین کی حمایت حاصل ہونی چاہیے۔ اسلام سے متعلق معاملات پر تحقیق کرنی چاہیے، اور یہ کام ہمیں دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر کرنا چاہیے۔

اسلام کی نشاۃِ ثانیہ اس دور کی اہم ضرورت ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

نکہت ستار

لکھاری فری لانس کالم نگار ہیں اور مذہب میں دلچسپی رکھتی ہیں۔

[email protected]

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (5) بند ہیں

Neelofer aman Jan 13, 2017 05:51pm
V rightly he said that ‏ایک "ضربِ فکر" کی اشد ضرورت ہے۔ the more I sreached about him n when I look around then I came to the conclusion that ‏ایک "ضربِ فکر" کی اشد ضرورت ہے۔
Neelofer aman Jan 13, 2017 05:50pm
Ma'am, your words are expression of my feelings.
amjad iqbal Jan 14, 2017 06:22pm
ap ka blog par kar bohot kuch seekna ko mela, ik baat ap na ki hai ulama k baray me agar ulama apna kaam imandare se kar lay tu ye ikhtelaf khatam ho jai ga jo islam me hai, or logo ka shaor jag jai ga jo log soya howa hai wo bi, aj kal tu bareelwi apna ap ko musalman kahta hai tu dewobandi apna ap ko shia kahta hai me musalman ho tu suni kahta hai me, mamla bohot gamber had tak khatarnak hota chala ja raha hai, muja ye pata nai k in logo ko oper sa koi ilham ata hai k ye log serf jannat me jai ga ye pher koi or mamla hai, aj kal kisy sa pocho islam k bara me tu wo pehly bat kara ga shia kafir hai, agar shia sa pocho to suni kafir, barelwi sa pocho tu deobandi kafir deobandi sa pocho to barelwi kafir, muja kabi kabi lagta hai jannat ka teeka in logo na leya hai jeesa chaha jannat me raka jesa chaha bahar penk deya, ha ik bat hai k har ulama member pe bat k ya fasad ki bate nai karta bus kuch hai jo elaam k saat saat apna dil me Ghusa ko pal raka hai jo ki haram hai,
amjad iqbal Jan 14, 2017 06:38pm
dosri bat jo mane note ki wo ye k jebri mazhab tabdeel nai hotay or jo karna ki koshesh karta hai wo apna ap ko dooka or islam ko badnam kar rahe hai, or agar ham gherat k naam pe Qatal k baray me kahee tu ik bat zeehan me rakna bohot zaroori hai, agar kahi sa suna jai k gherat k naam pe qatal howa hai tu os ke baray me pori tahqeeq ki jane chaheya, na ke direct poster lagaya jaye k gherat k naam pe qatal, agar ham pehla Qandeel baloch k bara me kah de (Allah os ko jannat me jaga de) tu keya os k bai kisy k samna bet sakta hai, dil me tora soch lay pher yakeenan jawab droost ho ya na ho, da dee jaye ga, muja nai lagta k esa moqa pe koi sochta hai, Q k ye insan ki fetrat hai kabi kabi hosh koh betta hai, bohot zaroori bat, ortoo k huqooq jis ka matlab k ortoo ko azad keya jai es ka matlab garoo sa nekal deya jai, keya kisy ko lagta hai k uraat bahar mahfooz hai, or wo be hamra mulk me jaha ik choti si (Tayeba) jase bachi mahfoz nai hai,
syed asif jalal Jan 18, 2017 01:28pm
I competely agree with you

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024