• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

پاناما کیس:'نااہلی کیلئے سزا یافتہ ہونا ضروری'

شائع January 13, 2017

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں پاناما کیس پر درخواستوں کی سماعت کے دوران وزیراعظم کی وکیل مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ اراکین اسمبلی کی نااہلی کے لیے ٹھوس شواہد کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ ٹھوس شواہد کے بغیر نااہلی نہیں ہو سکتی۔

وزیر اعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کے خلاف آرٹیکل 62 کے تحت نااہلی کے لیے عدالتی ڈیکلیئریشن ضروری ہے،آرٹیکل 62، 63 کے تحت نا اہلی کے لیے کسی حوالے سے سزا یافتہ ہونا ضروری ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ تعلیمی قابلیت کے جعلی ہونے اور اثاثے چھپانے کے معاملے پر نااہلی آرٹیکل 62 کے تحت ہو سکتی ہے تاہم نااہلی کا معاملہ کاغذات نامزدگی کے وقت اٹھایا جاسکتا ہے اور الیکشن کے بعد نااہلی کا معیار کم نہیں ہوسکتا۔

مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ الیکشن کے بعد صرف کووارنٹو کی درخواست دائر ہو سکتی ہے

جس پر جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ آپ جن مقدمات کا حوالہ دے رہے ہیں وہ الیکشن کمیشن کے خلاف تھے ٹریبونل کے خلاف نہیں۔

دوران سماعت مخدوم علی خان نے جہانگیر ترین کیس کا حوالہ بھی دیا اور کہا کہ صدیق بلوچ کی نااہلی کا فیصلہ ٹریبونل سطح پر ہوا تھا مگر سپریم کورٹ نے ٹریبونل کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اراکین اسمبلی کی نااہلی کے لیے ٹھوس شواہد کی ضرورت ہوتی ہے اور ٹھوس شواہد کے بغیر نااہلی نہیں ہو سکتی۔

مشرف کی نااہلی کا حوالہ دیتے ہوئے مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ ان کا فیصلہ عدالتی فیصلوں کی روشنی میں ہوا اور آرٹیکل 62 ون ایف کے اطلاق کے بھی ضابطے موجود ہیں۔

جس پر جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ مشرف کیس میں ڈیکلیئریشن سپریم کورٹ نے دیا تھا۔

عدالت کا مزید کہنا تھا کہ اس فیصلے میں مشرف کی جانب سے حلف کی خلاف ورزی قرار دی گئی تھی۔

جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ نااہلی کے لیے پہلے ڈیکلیئریشن ہونا ضروری ہے، ڈیکلیئریشن اور نااہلی ایک ساتھ نہیں ہو سکتے۔

وزیراعظم کے پارلیمنٹ کے خطاب پر بات کرتے ہوئے وکیل مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ غلط بیانی اور جھوٹ کے تعین کے لیے بھی ضابطہ موجود ہے، وزیراعظم کے قومی اسمبلی سے خطاب کو ماضی میں بھی چیلنج کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما کیس کا بار ثبوت اب وزیراعظم کے وکلاء پر: سپریم کورٹ

جس پر جسٹس شیخ عظمت نے استفسار کیا کہ یہ شاید وہی خطاب تھا جو وزیراعظم نے دھرنے کے دوران کیا تھا۔

مخدوم علی خان نے وضاحت دیتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ اس وقت بھی وزیراعظم پر سچ نہ بولنے کا الزام عائد کیا گیا تھا اور اسپیکر نے ڈیکلیئریشن کے بغیر ریفرینس کو مسترد کر دیا تھا جبکہ لاہور ہائیکورٹ نے اسپیکر کے فیصلے کو قانون کے مطابق قرار دیا تھا اور سپریم کورٹ نے بھی لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔

مخدوم علی خان کے ان دلائل کے بعد سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کو پیر (16 جنوری) تک ملتوی کردیا، اگلی سماعت میں بھی مخدوم علی خان اپنے دلائل کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔

'نیب آرڈیننس نہیں وزیراعظم تبدیل کرنے کی ضرورت ہے'

سماعت کے اختتام پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ کن وقت ہے۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ ہم سپریم کورٹ میں اس لیے آئے کیونکہ پارلیمنٹ میں ہمارے سوال کا جواب نہیں دیا گیا، نہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں ہمیں جواب ملا اور نہ ہی اسپیکر کو بھیجے گئے ریفرنس میں، جس کے بعد مجبور ہوکر ہمیں سڑکوں کا رخ کرنا پڑا اور پھر سپریم کورٹ پہنچے۔

عمران خان نے شریف خاندان پر الزام عائد کیا کہ آج یہ لوگ عدالت سے بھاگ رہے ہیں، میں نے 18 سال پہلے لندن فلیٹس پر احتجاج کیا تھا تب کسی نے نہیں سنا مگر جب 2016 میں پاناما میں نام آیا تو یہ لوگ پھنس گئے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت ہمیں نیب کے آرڈیننس نہیں وزیراعظم کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

اس موقع پر شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پوری پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر کہا تھا کہ نیب ناکام ہوچکی ہے۔

عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ نیب بڑے چوروں کو چھوڑ کر چھوٹے چوروں کو پکڑ رہی ہے، ایک پاناما کی چوری جیلوں میں پڑے تمام چوروں کی چوری سے بڑی ہے۔

'عمران خان کو عدالت سے باہر مقدمہ لڑنے کی عادت ہے'

بعد ازاں حکومی نمائندگان نے بھی میڈیا سے گفتگو میں عمران خان کے الزامات کا جواب دیا۔

وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب کا کہنا تھا پاکستان تحریک انصاف ایسا کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکی کہ تیسری بار منتخب وزیراعظم کو نااہل کردیا جائے۔

انہوں نے عمران خان کو مخاطب کیے بغیر کہا کہ 'آپ جھوٹ بول کر کیس نہیں جیت سکتے'۔

ساتھ انہوں نے ایک بار پھر عمران خان کو مبارکباد دی کہ وزیراعظم نے نارووال میں ایک اور فیتہ کاٹ لیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاناما لیکس سے میاں نواز شریف کا کوئی تعلق نہیں ہے مگر عمران خان کو عدالت سے باہر مقدمے لڑنے کی عادت ہے، ابھی ہمارے پہلے وکیل نے دلائل شروع کیے ہیں تین وکلاء باقی ہیں۔

صحافیوں کے ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ وہ عمران خان سے خیبرپختونخوا کے احتساب کمیشن کا حال پوچھیں، یہ بہت بڑی بات ہے کہ موجودہ پرائم منسٹر کا کیس عدالت میں چل رہا ہے۔

حکومتی رہنما دانیال عزیز کا کہنا تھا کہ عمران خان کی جانب سے قومی احتساب بیورو کی حوالگی کا مطالبہ مزاحیہ ہے، پاکستان میں سیاستدانوں کو برا بھلا کہنے کا دور ختم ہوچکا ہے، اور جمہوریت اپنی راہ پہ رواں دواں ہے۔

گذشتہ سماعت

یاد رہے کہ گذشتہ روز کی سماعت میں مخدوم علی خان نے عدالت کے سامنے وزیراعظم کے پارلیمنٹ سے خطاب کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاناما پیپرز کے معاملے پر کی گئی تقریر میں نواز شریف نے اپنے اہل خانہ کے کاروبار کا مجموعی جائزہ پیش کیا تھا اور وہ کسی دعوے کا بیان حلفی نہیں تھا کہ وہ کسی مخصوص سوال کا جواب دیں۔

جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وزیراعظم کے وکیل کو کہا تھا کہ آپ وزیراعظم کے پچھلے وکیل سلمان احمد بٹ سے مختلف بات کررہے ہیں، اور سلمان اسلم بٹ نے قومی اسمبلی میں کیے گئے خطاب کو 'سیاسی بیان' قرار دیا تھا۔

جواباً مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ درخواست گزاروں نے متضاد موقف پیش کیا اور قانون شہادت کے تحت شواہد نہ ہوں تو کیس بن ہی نہیں سکتا۔

جسٹس عظمت سعید شیخ کا اس موقع پر کہنا تھا کہ کیس یہ ہے کہ نواز شریف نے تقریر میں غلط بیانی کی، اگر غلط بیانی نہیں ہوئی تو آپ کو ثابت کرنا ہے۔

جسٹس کھوسہ کا کہنا تھا کہ ہم تقریر کو غلط نہیں مانتے لیکن اگر کوئی چیز چھپائی گئی ہے تو پھر اسے آدھا سچ مانیں گے۔

جسٹس اعجاز الحسن نے اس بات کو بھی دہرایا تھا کہ 16 مئی 2016 کو وزیراعظم کا پارلیمنٹ سے خطاب کوئی فی البدیہہ خطاب نہیں بلکہ لکھی ہوئی تقریر تھا۔

جسٹس آصف کھوسہ کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت پاناما پیپرز پر الزامات کی تحقیقات کے لیے کمیشن کی تشکیل کی باتیں شروع ہوچکی تھیں اور وزیراعظم کو اس بات کا علم تھا کہ وہ جو بات کہیں گے وہ موضوع بحث بن سکتی ہے۔

جس پر وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے عدالت کو بتایا تھا کہ نواز شریف کا کسی آف شور کمپنی سے تعلق تھا اور نہ ہے۔

مخدوم علی خان کے مطابق نواز شریف کی برٹش ورجن آئی لینڈ میں کوئی کمپنی نہیں اور نہ ہی وہ کسی آف شور کمپنی کے ڈائریکٹر، شیئر ہولڈر یا بینیفیشل مالک ہیں۔

گذشتہ روز وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے درخواست گزاروں کی جانب سے وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی کے معاملے کو بھی 'ناقابل سماعت' قرار دیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ ان معاملات پر آرٹیکل 184/3 لاگو نہیں ہوتا۔

نواز شریف کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ عدالت دوسروں کے دیئے گئے بیانات پر وزیراعظم کو نااہل قرار نہیں دے سکتی، ساتھ ہی انھوں نے موقف اختیار کیا تھا کہ صادق اور امین کی تشریح پر ٹیسٹ صرف وزیراعظم نہیں تمام ارکان پارلیمنٹ کا ہونا چاہیئے۔

واضح رہے کہ وزیراعظم کے وکیل کی جانب سے دلائل کے آغاز سے ایک روز قبل پاکستان تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے اپنے دلائل مکمل کرلیے تھے جبکہ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے عدالت میں پیش کیے گئے قطری خط کو رضیہ بٹ کے ناول سے تشبیہ دیا تھا،ان کا کہنا تھا کہ شریف خاندان قطری خط کے پیچھے چھپ رہا ہے، شیخ رشید نے امید کا اظہار کیا تھا کہ عدالت عظمیٰ 'سچا انصاف' فراہم کرے گی۔

جس پر سپریم کورٹ نے واضح کیا تھا کہ عدالت آئین اور قانون کے مطابق انصاف فراہم کرے گی، کسی ایک پارٹی کے تصورات یا توقعات کے مطابق نہیں۔

یاد رہے کہ 4 جنوری سے پاناما کیس پر درخواستوں کی سماعت سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں قائم نیا 5 رکنی لارجر بینچ کررہا ہے جبکہ نئے چیف جسٹس ثاقب نثار 5 رکنی لارجر بینچ کا حصہ نہیں۔

لارجر بینچ میں جسٹس آصف کھوسہ، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس اعجاز افضل، جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس گلزار احمد شامل ہیں۔

واضح رہے کہ پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں آئینی درخواستیں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)،جماعت اسلامی پاکستان (جے آئی پی)، عوامی مسلم لیگ (اے ایم ایل)، جمہوری وطن پارٹی (جے ڈبلیو پی) اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر کی گئی تھیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Israr MuhammadkhanYousafzai Jan 14, 2017 12:11am
ایسا لگ رہا ھے کہ پاناما کیس کا فیصلہ عدالت نہیں کرپائیگی کمیشن بننے کا امکان زیادہ نظر ارہا ھے پی ٹی آئی کے وکیل نعیم بخاری نے بہت زبردست دلائل دیئے تھے لیکن وزیراعظم کے وکیل نے ان دلائل کا جواب دینے کی بجائے مقدمے کا رح اور سمت ہی بدل دیا ھے عدالت الجھن کا شکار ھوچکی ھے اسلئے ھم سمجھتے ھیں کہ فیصلہ کمیشن کے زریعے کیا جاسکتاہے

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024