مہمند کےطلبہ 'تعلیمی ایمرجنسی' کےباوجود کتابوں سے محروم
وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) کی مہمند ایجنسی کے سرکاری اسکولوں کے 29 ہزار طلبہ تاحال نصابی کتابوں سے محروم ہیں، جس کی وجہ سے اُن کا تعلیمی سال ضائع ہونے کا خطرہ ہے۔
فاٹا کے سرکاری اسکولوں میں امتحانات مارچ کے مہینے میں ہوتے ہیں مگر مہمند ایجنسی میں تاحال بچوں کو کتابیں نہیں ملیں۔
مہمند ایجنسی کے محکمہ تعلیم سے ملنے والی دستاویزات کے مطابق سرکاری اسکولوں میں اس وقت 69 ہزار طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیں جن میں سے 29 ہزار طلبہ کو ابھی تک ایک کتاب بھی نہیں ملی، جبکہ باقی 40 ہزار طلباء کو ایک یا دو، دو کتابیں ملی ہیں۔
واضح رہے کہ سال 2016 میں گورنر خیبر پختون خوا مہتاب عباسی نے فاٹا میں 'تعلیمی ایمرجنسی' کا اعلان کیا تھا مگر تعلیمی حالت زار سے لگتا ہے کہ یہ ایک مذاق سے کم نہیں۔
گورنمنٹ پرائمری اسکول یوسف خیل کے ایک استاد فضل منان کا کہنا ہے کہ کتابیں نہ ملنے کی وجہ کئی طلبہ اسکول چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ہیں، کیونکہ جب اسکول میں بچوں کے پاس کتابیں نہیں تو ہم کیا پڑھائیں اور بچے کیا پڑھیں؟
محمکہ تعلیم مہمند ایجنسی کے اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر جاوید خان کا کہنا ہے کہ ہم نے اپریل 2016 میں فاٹا سیکریٹریٹ سے 69 ہزار طلبہ کے لیے کتابوں کا مطالبہ کیا تھا، مگر ابھی تک صرف 40 ہزار طلبہ کو ایک ایک یا دو کتابیں مہیا کی گئی جبکہ باقی ماندہ 29 ہزار طلبہ کو پورے سال میں ایک کتاب بھی مہیا نہیں کی گئی، جس کی وجہ سے بچوں کا تعلیمی سال ضائع ہوجائے گا۔
مزید پڑھیں:مہمند ایجنسی میں سرکاری اسکول دھماکے سے تباہ
ایک طالب علم کے والد عثمان انور نے بتایا 'بچے ہمارے ساتھ کھیتوں میں کام کرتے ہیں یا گلی کوچوں میں کھیلتے ہیں، جب ہم اُن کو ڈانٹتے ہیں کہ اسکول جاؤ تو کہتے ہیں جب کتابیں نہیں تو کس لیے اسکول جائیں'۔
ایک طرف تو کتابیں نہ ملنے کا شکوہ ہے، دوسری طرف فاٹا خصوصاً مہمند ایجنسی میں شدت پسندوں کی جانب سے اسکولوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
مہمند ایجنسی میں شدت پسندوں کے ہاتھوں تباہ کیے گئے اسکولوں کی تعداد 127 ہوچکی ہے، جس میں سب سے زیادہ 64 اسکول تحصیل صافی میں تباہ ہوئے۔
شدت پسند عناصر نے کئی سال پہلے مہمند ایجنسی کے واحد ڈگری کالج کو بھی تباہ کردیا تھا جس کے بعد آج تک وہاں تدریسی عمل شروع نہ ہوسکا۔