• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:02pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:02pm
شائع January 16, 2017 اپ ڈیٹ January 18, 2017

گلگت بلتستان میں پھول تشویش کا باعث کیوں؟

نور پامیری

دو ہفتے قبل آبائی گاؤں گلمت ہنزہ جانے کا موقع ملا جو کہ ایک پہاڑی علاقہ ہے۔ وہاں غضب کی سردیاں پڑتی ہیں، سو سردی کو پچھاڑنے کی پوری تیاری کر کے وہاں گیا۔ بزرگ کہتے ہیں کہ ماضی میں یہاں برفباری کا یہ عالم تھا کہ لوگ کمر تک برف میں دھنس جاتے تھے۔

میں نے برفباری کی امید لیے تصویر کشی کی نیت سے ایک کیمرہ اُٹھائے گاؤں کا رخ کیا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ سردی کے اس موسم میں برفباری تو ایک طرف، بادام اور چیری کے پھول دیکھنے کو ملیں گے۔

عموماً خوشیاں لانے والے یہ پھول علاقے کے لوگوں کے لیے اب حیرت اور پریشانی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ دسمبر اور جنوری میں یخ بستہ برفانی صحراؤں میں پھولوں کا کھلنا چہ معنی دارد؟ جس موسم میں گزشتہ چند سالوں تک ہماری زمین برف سے ڈھکی ملتی تھی، ان مہینوں میں جشنِ بہاراں منایا جائے؟

بات صرف ہمارے گاؤں کی نہیں، بلکہ قرب و جوار کے دیہات اور وادیاں بھی اس "خزانی بہار" سے متاثر ہوئے ہیں۔ قریب واقع ضلع نگر کے بعض علاقوں میں بھی سفید اور سرخ پھول درختوں پر لگے ہیں۔ ضلع غذر اور اسکردو کے بعض علاقوں سے بھی پھول کھلنے کی خبریں مل رہی ہیں۔

گلگت بلتستان کے ضلع نگر میں کھلے پھول — تصویر حسین نگری
گلگت بلتستان کے ضلع نگر میں کھلے پھول — تصویر حسین نگری

گلگت بلتستان کے ضلع نگر میں کھلے پھول — تصویر حسین نگری
گلگت بلتستان کے ضلع نگر میں کھلے پھول — تصویر حسین نگری

گلگت بلتستان، سردیوں میں کھلے پھول— نور پامیری
گلگت بلتستان، سردیوں میں کھلے پھول— نور پامیری

گلگت بلتستان، سردیوں میں کھلے پھول— نور پامیری
گلگت بلتستان، سردیوں میں کھلے پھول— نور پامیری

سردیوں میں پھول کیوں کھلے ہیں؟ معاملہ کیا ہے؟ کسی کو نہیں معلوم۔ کوئی کہتا ہے کہ صنعتی سرگرمیوں کی وجہ سے ماضی کی نسبت زمین کا درجہ حرارت بڑھ گیا ہے، اس لیے درختوں پر پھول کھل گئے ہیں۔ موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلی کی بازگشت جابجا سنائی دیتی ہے۔ اس صورتحال کا واضح ادراک کسی کو نہیں ہے۔ حکومتی اور غیر حکومتی ادارے خاموش ہیں، سوشل میڈیا پر بے نتیجہ مباحث چل رہے ہیں۔

عالمی سطح پر بھی درختوں پر خزاں میں پھول کھلنے جیسے غیر معمولی رجحانات دیکھے گئے ہیں۔ بالٹیمور سن نامی اخبار میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق عالمی حدت میں اضافے کی وجہ سے درختوں کی بڑھوتری تیز ہو جاتی ہے۔ 2013 میں نیشنل جیوگرافک میں شائع ایک رپورٹ میں بہار کی جلد آمد کو عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلی سے تعبیر کیا گیا ہے۔

اس غیر معمولی تبدیلی سے مقامی زمیندار پریشان ہیں کیوں کہ گلگت بلتستان، چترال، کوہستان اور دیگر پہاڑی علاقوں میں موجود انسانی آبادیاں پہاڑوں کے دامن میں گلیشیئرز کے درمیان واقع ہیں۔ اگر درجہ حرارت واقعی بڑھ رہا ہے اور اسی طرح بڑھتا گیا تو گلیشیئرز کے پگھلنے اور برفباری نہ ہونے، یا کم ہونے، سے علاقائی اور ملکی سطح پر جو ہولناک تباہی پھیلے گی اس کا اندازہ فی الحال نہیں لگایا جاسکتا۔

گلگت بلتستان میں قبل از وقت پھولوں کا کھلنا تشویش کا باعث ہے— تصویر نور پامیری
گلگت بلتستان میں قبل از وقت پھولوں کا کھلنا تشویش کا باعث ہے— تصویر نور پامیری

پونیال، ضلع غذر میں بھی پھول کھلے نظر آتے ہیں— تصویر نور اکبر
پونیال، ضلع غذر میں بھی پھول کھلے نظر آتے ہیں— تصویر نور اکبر

حیدرآباد، ہنزہ— تصویر شمس الدین
حیدرآباد، ہنزہ— تصویر شمس الدین

آغا خان ڈولپمنٹ نیٹ ورک سے منسلک فوکس ہیومینیٹیرین اسسٹنس پاکستان نامی ادارے کی رپورٹ کے مطابق گلگت بلتستان کے 300 کے لگ بھگ سروے شدہ دیہاتوں میں سے ںصف سے زائد مختلف قدرتی آفات کی زد میں آنے والے علاقوں پر واقع ہیں۔ موسمی تغیرات کی وجہ سے ان دیہات میں موجود افراد کا متاثر ہونا ناگزیر ہے۔ یہ یقیناً بہت تشویشناک بات ہے کیوں کہ زمینداروں کی کئی نسلوں نے اپنا خون پسینہ بہا کر ان زمینوں کو انسانی آبادی کے قابل بنایا ہے۔

وادئ نگر سے تعلق رکھنے والے حسین نگری صاحب سوشل میڈیا پر کہتے ہیں کہ اگر ان نمایاں تبدیلیوں کی محرکات کو سمجھنے کی سنجیدہ کوششیں نہیں ہوئیں اور مستقبل کے لیے لوگوں کو تیار نہیں کیا گیا تو لاپرواہی اور غفلت کے ہولناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ اس اہم معاملے کو سمجھنے اور مستقبل کی تیاری کے لیے سب کی نگاہیں حکومت اور غیر حکومتی اداروں پر مرکوز ہیں۔

گلگت بلتستان کی حکومت نے گزشتہ دنوں گلیشرز کے نزدیک ندیوں، نالوں اور دریاؤں کے کنارے انسانی بستیاں تعمیر کرنے پر پابندی لگانے کی قرارداد منظور کی ہے۔ جبکہ جنگلات کے تحفظ کے لیے بھی سخت اقدامات اُٹھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ان قراردادوں کو قوانین میں بدلنے اور ان پر عملدرآمد کروانے کی اشد ضرورت ہے۔

اس کے علاوہ، حکومت کو چاہیے کہ قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے مزید وسائل تیار رکھیں اور زیادہ خطرات کی زد میں آنے والے علاقوں پر واقع دیہاتوں کے رہائیشوں کی دیگر مقامات میں آبادکاری اور ان کی بحالی کے لیے بھی پیشگی منصوبہ بندی کا سلسلہ شروع کردیں۔

گلگت بلتستان، سردیوں میں کھلے پھول—تصویر نور پامیری
گلگت بلتستان، سردیوں میں کھلے پھول—تصویر نور پامیری

پونیال، گلگت بلتستان— تصویر نور اکبر
پونیال، گلگت بلتستان— تصویر نور اکبر

مقامی آبادیوں کو ان حالات سے نمٹنے کے لیے سائنسی بنیادوں پر ہر طریقے سے تیار کرنا بھی ضروری ہے۔ اس سلسلے میں مقامی سطح پر سماجی تنظیمی ڈھانچے بنانے اور ان کو معلومات، صلاحیتوں اور سازوسامان سے لیس کرنے کی بھی ضرورت ہے۔

سائینسدان گلوبل وارمنگ کے خطرات سے ہمیں آگاہ کرتے رہے ہیں۔ اس معاملے میں شدید احتیاط کے ساتھ ساتھ مقامی اور عالمی سطح پر اقدامات کی بھی ضرورت ہے۔ ہمارے ہمسائے میں چین واقع ہے، جو اس وقت دنیا کا صنعتی مرکز بن چکا ہے۔ صنعتی آلودگی چین میں ایک بہت بڑا مسئلہ پہلے سے بن چکا ہے۔ ان اثرات کا ہمسائے میں موجود علاقوں کی طرف منتقل ہونا حیران کن نہیں ہے۔

ابھی گلگت بلتستان سے پاک چین اقتصادی راہداری کی سرگرمیاں شروع ہونے جا رہی ہیں۔ اس تناظر میں بھی مستقبل قریب اور بعید کے چیلنجز کو سمجھنے اور مدنظر رکھنے اور ان کا سدباب کرنے کی ضرورت ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وقت گزر جائے۔


نور پامیری گلگت بلتستان سے تعلق رکھتے ہیں اور ایک بین الاقوامی فلاحی ادارے سے منسلک ہیں۔ بلاگز لکھتے ہیں اور تصویریں بنانے کا شوق ہے۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: noorpamiri@


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

نور پامیری

نور پامیری گلگت بلتستان سے تعلق رکھتے ہیں اور ایک بین الاقوامی فلاحی ادارے سے منسلک ہیں۔ بلاگز لکھتے ہیں اور تصویریں بنانے کا شوق ہے۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: noorpamiri@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (11) بند ہیں

Kamran Khan Jan 16, 2017 12:42pm
Dear Brother, Very nice please keep it up.. You did nice job. Regards, kamran Khan.
abbas Jan 16, 2017 08:34pm
nice. very good
طاہر البلوشی Jan 16, 2017 09:30pm
واقعی حیرت ناک عمل ہے۔ تحقیق سے ہی صورتحال واضح ہو سکتی ہے۔ ایسے مسائل اجاگر کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ بروقت تدارک بھی ہونا چاہیے۔ ورنہ تباہی سے کیسے بچ پائیں گے؟
ندیم خان Jan 16, 2017 10:13pm
اسلاعلیکم سر آپکی تحریر پڑھی جو بہت سیر حاصل معلومات تھی موسمیات بدلاو کے حوالے سے. ایک ایسے مسلے کی طرف توجہ دیلانے کی کوشش کی ہے جو بہت ہی کم لوگوں کو اس حوالے سے معلوم تھا یہ ایک مسلہ ہے جو گزرتےوقت سے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے اس حوالے سے اگاہی کی بہت ضرورت ہے کہ ہم اپنے ماحول کے بچاو کیلئے کس طرح کا کردار ادا کرسکتے ہیں اور کون کون سے احتیاطی تدابیر کی جاسکتی ہیں. ماحولیات کے تحفظ پرکام کرنے والے ادارے اس میں اپنا کس طرح کا کردار ادا کر رہیے ہیں اور مستقبل میں انھوں مذید کن کن چلینجز کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اس کےلئے ابھی سے تیاری کرنی ہوگی. اور پہاڑوں کے ساتھ ساتھ نشیبی علاقوں میں رہائش پزیر لوگوں میں اگاہی اور ان کو حادثات سے محفوظ رکھنے کیلئے مذید اورجلد ایسے پروگرامات کرنے چاہیے کہ انسانی جانوں کا ضیاع نہ ہو. خیر اندیش ندیم خان بول ٹی گلگت
حسین نگری Jan 17, 2017 02:28am
اب سی پیک بنے کے بعد اس سے بھی خطرناک حالات ہو سکتے ہیں کیونکہ ہر دن جب سینکڑوں مال بردار گاڑیوں کا قراقرم ہائے وے سے گزر ہو گا۔ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ہر سال تیزی سے گلیشیر ز پیگل رہے ہیں۔ جس کا نقصان گلگت بلتستان کے باسیوں سمیت پوری دنیا کو اٹھانا پڑے گا۔ وفاقی حکومت اور گلگت بلتستان کی کٹ پتلی صوبائی حکومت اکنامک زون کے چکروں میں پڑے ہوئے ہیں کسی کو موسمیاتی تبدیلیوں کی فکر نہیں ۔ چین ،پاکستان اور پنجاب والے سی پیک سے پیسے کمائنگے اور گلگت بلتستان والے موسمی تبدیلیوں سے۔ آنے والی قدرتی آفات پر رونا روتے رہنگے۔ ۔حسین نگری۔
Rizwan Ahmad Jan 17, 2017 08:54am
I love these places so so much... May Allah! give me chance to go and see there. (Ameen)
hidayat hussain Jan 17, 2017 09:46pm
dear aap ke aik ache kawish ha magar jo apna haq lena nae jantay hain wo kya khaak in chezoon ko samaj sakty, dunya wa wahid khitta ha jo aik qaom ban kar nae sochtay balay takseem dar takseem hain, koe Hunzai, Chilase, Balti, Nagari, Gojale, Gizri, Gilgiti, Tangeri, Ponayli, to koe Goech, Ghanche, Astore, Diameri, is ke elawa koe Shia, koe Sunni, keo Ismaile to Koe Noor Bukshi. is ke oper sheen or yashkun or mughal ka tarka b lagatay hain. kya khayal ha aap ka. meri guzarish sirf or sirf nawjawano sa ha wo in moamlaat ko goor say samjain or abe say koshish karain ta k hum aik qaom ban sakay or in moamlaat ko haal kar sakain........
Neelofer aman Jan 17, 2017 11:03pm
Sir
Neelofer aman Jan 17, 2017 11:05pm
@حسین نگری
suhail Jan 18, 2017 08:17pm
Hunza badam k flowering k 2 seasons hoty hain, ya aj nae is pehly b hota raha hai, ak april ma or dusra sardiun k season ma flowering , ya is sal ki bat nae hai ya pehla sa hota raha hai.
نفیس شاہ Jan 19, 2017 12:05am
معاملہ گھمبیر ہو سکتا ہے۔ تحقیق کرنے اور حقائق منظر عام پر لانے کی ضرورت ہے۔