کراچی کا پارہ گر ہی گیا
کراچی میں چند دنوں کے لیے ہونے والی تھوڑی سردی ہی یہاں رہنے والوں کے لیے بہت ہے۔ مختصر وقت کے لیے ہونے والی ٹھنڈک میں سال بھر رکھے گرم کپڑوں کو پہننے، اوڑھنے اور گاجر کے حلوے سے لطف اندوز ہونے کا موقع مل ہی جاتا ہے۔
ٹی وی رپورٹس تو یہ بتا رہی ہیں کہ منچلوں کو مری کے علاوہ اور کچھ نہیں سوجھتا، لیکن ایسا نہیں۔ مری تک نہ جا سکنے والوں کو ساحلِ سمندر بھی خوب تفریح فراہم کرتا ہے۔ یقین نہیں تو سمندر سے جڑے ہوٹلوں پر دو تین گھنٹے گزار کر دیکھ لیجیے، آئندہ دو دنوں تک لازمی مزہ آتا رہے گا۔
کراچی کی سردی کوئٹہ میں ہونے والی برفباری اور سائبیریا میں چلنے والی سرد ہواؤں کی مرہونِ مِنت ہے، یہی بچپن سے سنا اور سمجھا ہے۔
اس سردی میں ہزاروں میل کا سفر طے کر کے آنے والے پرندے بھی کراچی کے ساحل پر بڑی تعداد میں وقت گزاری اور آدھی رات تک پانی میں مٹر گشت کرتے رہتے ہیں۔
تیزی کے ساتھ بڑھتی ماحولیاتی اور سمندری آلودگی کہیں انہیں بھی ہم سے دور نہ کرد ے، کیوں کہ ان کی دلچسپی کا بڑا سبب مینگرووز ہیں جو اب تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔ یہ مینگرووز سائبیریا سے آنے والے پرندوں کا عارضی ٹھکانہ بھی ہیں۔
سمندر کنارے بسے شہر کی یخ بستہ راتوں میں درجہ حرات 10 ڈگری سینٹی گریڈ سے کم نہیں ہوا، لیکن ہوا کی رفتار 65 کلومیٹر تک رہی۔ اس دوران لاہور کے 9 ڈگری اور اسلام آباد کے 5 ڈگری کے مقابلے میں تو یہ کچھ نہیں، لیکن ہمارے لیے اتنا ہی بہت ہے، کیوں کہ جاتی سردی، مطلب فروری میں اگر رات 12 کے بعد اسلام آباد سے براستہ موٹر وے لاہور جایا جائے تو کلر کہار یا بھیرہ پر ٹھٹھرتی ٹانگوں اور کانپتے ہاتھوں کی لرزش روکنے کے لیے چائے کی چسکیاں امرِ لازم بن جاتی ہیں۔
اور تو اور اب کی بار دھند نے بھی خوب رنگ دکھایا، زیادہ نہیں ایک رات ہی کے لیے۔ جہاں ڈرائیور حضرات نے ایئرپورٹ شارعِ فیصل کے قریب فوگ لائٹس کی عدم دستیابی کی صورت میں ایمرجنسی لائٹس اور حد نگاہ انتہائی کم ہونے کے باعث ڈیڑھ کلومیٹر تک نہایت سست روی کا مظاہرہ کیا۔
ٹھنڈ شہر بھر میں کوئٹہ ہوٹلوں کے گرد جمنے والی محفلوں کی رونق میں مزید اضافہ کا سبب بھی بنی ہے اور اس میں اک نئے انگریڈینٹ لڈو کے کھیل کا اضافہ ہو گیا ہے۔
اس بار ہونے والی سردی کا آغاز موسم سرما کی تعطیلات کے ساتھ ہوا، اس لیے بچے اب ٹھٹھرتے اور کانپتے اسکول جا رہے ہیں، اسی لیے پرائیوٹ اسکول انتظامیہ نے چھٹیوں کے مطالبہ کے بجائے استدعا کی ہے کہ بچوں کو صبح آدھے گھنٹے تاخیر کی رعائیت فراہم کی جائے۔
سردی سورج کو بھی اسی طرح لگ رہی ہے جیسے باقی شہریوں کو، اسی لیے ٹھٹھرتا کانپتا کچھ تاخیر سے نمودار ہو رہا ہے۔
نیچر لورز کے لیے دستیاب ماحول میں تیزی سے ہونے والی کمی نے شہر اور شہریوں کے لیے بہت سے مسائل کو جنم دیا۔ عمومی طور پر کراچی میں صبح سے شام تک ٹریفک کے شور اور گاڑیوں کے دھوئیں میں پھنسے لوگ اب ایک ذہنی ہیجان میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہونے والے بڑے بڑے بحث مباحثوں کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے۔
عبداللہ شاہ غازی کے مزار سے ساحل سمندر تک تیزی سے ڈیویلپ ہونے والے کارپوریٹ کلچر نے ماحول میں ایک چکا چوند تو پیدا کر دی ہے، لیکن ایک مخصوص طبقہ ہی بڑی حد تک اس سے محظوظ ہو سکتا ہے۔ امید ہے معیاری اور سستی تفریح کے مواقع فراہم کیے جائیں گے۔
بس سستی تفریح ایسی نہ ہو جیسی سفاری پارک میں پونی ہارسز پر ظلم کی صورت میں نظر آتی ہے، کہ فی بچہ 20 روپے دیں اور گھوڑے پر سواری کر لیں۔ خوبصورت گھوڑے اسی ظلم و جبر میں قریب المرگ ہو چلے ہیں۔
اب شائد ماحولیاتی ترقی کی ضروت ہے جس کے لیے اک حکومت ہی نہیں سب کو کردار ادا کرنا ہو گا، کیوں کہ اگر کوڑا پھینکنے والے احتیاط کریں تو اٹھانے والے خود ہی محتاط ہو جائیں گے۔
تبصرے (1) بند ہیں