مائی مَتُو کا گاؤں جسے زمین نہیں "سمندر" نگل رہا ہے
آپ نے کبھی اُس بچے کی معصومیت، بے بسی اور بے چارگی دیکھی ہے جو کھیل کود میں مگن ہو اور پھر اچانک اُس کے ہاتھوں سے کھلونا چھین لیا جائے؟ اور پھر وہ ایسی کیفیت میں ڈوب جائے کہ نہ رو سکے اور نہ اپنی محرومیوں پر چلا سکے۔ بس اپنی بے بس آنکھوں سے اُس چھیننے والے کو مسلسل تکتا رہے۔ کیونکہ اُس کے بس میں فقط یہ ہی رہ جاتا ہے۔
سمندر کے کنارے کچھ ایسی آبادیاں ہیں، جن کی کیفیت اس بچے کی کیفیت سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ اب اس میں قصور خود کناروں کا ہے یا سمندر کا جو اپنے کناروں پر بسنے والوں سے بیوفائی کر رہا ہے اور نہ جانے کتنے موسموں کی رفاقت کو بھُلا کر اپنے پڑوسیوں کے آنگن نگلتا جاتا ہے، اس کا فیصلہ وقت پر اور آپ پر چھوڑتے ہیں کہ اس بیوفائی کا مُرتکب آخر کون ہے۔ سمندر، کنارے یا انسان؟
میں ان سمندر کے کناروں پر گزشتہ پچاس برسوں سے جا رہا ہوں۔ لیکن اس دفعہ جب سات برس کے بعد وہاں جانا ہوا۔ ان سات برسوں نے اس منظرنامے سے بہت کچھ چھین لیا تھا۔ بہت سارے رنگ تھے جو شب و روز نے نوچ لیے تھے۔ مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آتا تھا۔
میں نے ایک ٹیلے پر سے چہار سو نظر گھمائی۔ بس ایک سیاہی مائل مٹی تھی جو بچھی تھی۔ بے رنگ گاؤں تھے جو سانس لیتے تھے۔ ایک پانی کا تالاب تھا جس کے کناروں پر ہری گھاس اُگی تھی اور اس تالاب کے شمالی کونے پر کیکر کا ایک کمزور درخت کھڑا تھا۔ پھر نہر کے کنارے کچھ کانٹیدار درختوں کی جھاڑیاں تھیں جنہوں نے ہریالی اب تک سنبھال رکھی تھی۔ شاید یہ جھاڑیاں فطرت کے قانون کو بہتر سمجھ چکی تھیں جو حالات سے سمجھوتہ کر بیٹھی تھیں۔
مگر انسان ایک حد تک ایسا کرسکتا ہے زیادہ نہیں۔ خاص کر وہاں جہاں تمناؤں کے خواب بھی ڈر ڈر کے دیکھے جاتے ہوں، یہ اُصول فقط شہروں پر صادق آتا ہے کہ، بیس برس میں شہر اتنا بڑھا، تیس برس میں شہر کی ایراضی اور آبادی میں اتنا اضافہ ہوا۔
مگر سمندر کے کچھ بدقسمت کنارے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے نصیبوں میں بستیوں کا سُکھ نہیں ہوتا، وہاں یہ اُصول اس کے برعکس ہے۔ وہاں گاؤں بڑے نہیں ہوتے بلکہ وقت کے ساتھ چھوٹے ہوتے جاتے ہیں۔ ان گاؤوں میں رہنے والوں کی تمناؤں کی طرح نقل مکانی کی تلوار لاشعوری طور پر ان گاؤں والوں کے ذہنوں پر لٹکتی رہتی ہے۔
یہاں ذرخیزی کی جگہ نمک کی قلمیں اُگتی ہیں۔ تیس برس قبل میٹھے پانی کی جھیل تھی جس میں کنول کے پھول کھلتے تھے، وہاں کوئی کنول نہیں کھلتا بس نمکین پانی کے جھینگے ان پانیوں میں نظر آتے ہیں اور ساتھ میں نمک کی قلمیں، جو زندہ پیڑ پودوں اور درختوں کے لیے موت کا پیغام ہیں۔
اگر آپ کراچی سے بدین کی طرف آ رہے ہیں تو بدین شہر میں داخل ہونے سے قبل میٹھے پانی کی ایک نہر آتی ہے۔ مغربی کنارے سے اس نہر کے ساتھ چلیں تو پچاس کلومیٹر جنوب میں چلنے کے بعد جہاں یہ نہر اپنا وجود کھو دیتی ہے، وہاں یہ گاؤں ہے جس کی کہانی میں آپ کو سنا رہا ہوں۔
سات برس قبل جب یہاں آیا تھا تب ہی سمندر کے شوریدہ پانی نے اس علاقے کا راستہ تو دیکھ لیا تھا مگر وہاں موجود گاؤں سے دور تھا۔ ٹیلے پر چڑھ کر آنکھوں پر ہتھیلی جما کر جنوب مشرق میں دیکھتے تو اُس سمندری پانی کی لکیر نظر آ جاتی۔ اور اس پانی کی لکیر سے پہلے، ٹیلے سے آگے پانی کی ننہی منی نہر تھی جس کے کنارے کچھ کیکر کے درخت، سرکنڈے اور دوسری جھنگلی گھاس پھوس اُگی تھی۔
تھوڑا آگے لئی اور دوسری جنگلی جھاڑیوں کی بہتات تھی جو مقامی جنگلی حیات کو تحفظ فراہم کرتی۔ جبکہ اس کے آگے اس نہر کے میٹھے پانی کی وجہ سے دھان یا دھان کے فصلوں کی زمین نظر آ جاتی۔ پھر زمین کا خالی ٹکڑا آتا اور پھر تین چار چھوٹی جھیلیں تھیں۔ جہاں گرم دنوں میں مقامی پرندے اور سردیوں میں انڈس فلائی وے زون کے راستے ٹھنڈے علاقوں جیسے سائیبیریا وغیرہ سے آئے ہوئے پرندوں کے جھنڈ نظر آتے۔
مگر اب ایسا کچھ نہیں۔ سمندر کے بڑھتے پانی نے درختوں اور جھاڑیوں کے رنگ چاٹ لیے ہیں۔ وہ گھنی جھاڑیاں اور دھان کی فصلیں نہ جانے کہاں گئیں۔ اب تو زمین کی حالت دیکھ کر یقین ہی نہیں آتا کہ ان جگہوں پر وہ سب کچھ بھی تھا جو بہت خوبصورت اور آنکھوں کو راحت دینے والے منظر کا باعث بنتا تھا۔
میں نے ایک گھر کے آنگن میں، دیوی کے گھنے درخت کے نیچے 75 سے 80 برس کی ایک عورت ’متُو‘ سے اس جگہ اور گاؤں کے ماضی کے حوالے سے سوالات کیے؟ میرے سوال کو سمجھنے میں اُس کو نصف منٹ سے زیادہ لگا۔ اُس کے چہرے پر جھُریاں تھیں جو آکاس بیل کی طرح بکھری تھیں۔ اُس نے ہلکے کانپتے ہاتھوں سے اپنے سر کے دوپٹے کو پہلے آگے کھینچا اور پھر ایک ہاتھ سے سر پر جما دیا۔
’اچھے دن تھے۔‘ متُو کی بے بسی اور لاچاری کی نقاہت سے بھری آواز آئی۔
’بابا تھے اماں تھی، ہم دو بہنیں اور دو بھائی تھے۔‘
میں نے جب پوچھا کہ اُن میں سے اب کون ہے؟ تو اس سوال کے جواب میں کوئی آواز نہیں آئی مائی متُو نے اپنے دکھ کو ضبط کرتے دیکھا، ایک بے قرار خاموشی تھی جو ان کی روح تک چھائی نظر آئی۔ آنکھوں کی نمی نے مجھ پر سب آشکار کر دیا کہ ’اب کچھ نہیں بچا، سب چلے گئے۔‘ بس پیچھے چھوڑ گئے اپنی چند یادیں اور نمکین پانی کی بوندیں۔
ہمت سمیٹ کر کہتی ہیں کہ،’’ہم پہلے اگر زیادہ پیسے والے نہیں تو بہت غریب بھی نہیں تھے۔ اُن دنوں میں ایسی ویرانی نہیں تھی۔ اب تو وہ عمارت کب کی زمین بوس ہوگئی ہے جو ایک زمانے میں نمک چوکی کہلاتی تھی جہاں انگریز سرکار کے سپاہی یہاں رہتے تھے۔ یہاں پیسو مل نامی شخص کی پرچون کی دکان تھی اُس کا بھی اب کوئی آثار باقی نہیں۔
بچپن میں جب دھان کی کٹائی کے دن آتے تو میں اپنی جھولی میں دھان اُس کے دکان پر لے جاتی۔ میں بولتی کچھ نہیں تھی، بس جھولی میں دھان لے کر کھڑی رہتی، جب پیسومل کی مجھ پر نظر پڑتی تو وہ مسکراتا میرے پس آتا، کھجور کے کچھ دانے اور کبھی ناریل کا ٹکڑا مجھ کو دیتا اور سر پر ہاتھ رکھ کر دھان واپس لے جانے کو کہتا۔
"جہاں نظر جاتی ہریالی ہی ہریالی، جھیلیں اور جھیلوں میں کنول کے پھول، کُم، کوںیوں، لوڑھیوں (جھیلوں میں پائے جانے والے کھانے کے قدرتی میوہ جات)، مچھلی، کناروں پر سرکنڈے اور لئی کی جھاڑیاں اتنی کہ جنگل ہی جھنگل، اپنی گائیں اور بھیسیں اور اپنی زمینوں کا سُرخ چاول کا آٹا تھا۔
فجر کو امی اُٹھتی اور چکی پر دن کے لیے آٹا پیستی۔ ہر گھر سے اسی فجر کے وقت آٹے کی چکی کی آوازیں آتیں۔ بڑی ہوئی شادی ہوگئی پتہ ہی نہیں چلا دن کیسے گذرتے گئے گاؤں کی حالت تبدیل ہوتی گئی، جیسے جھولی سے دھان کے دانے گرتے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے جھولی خالی ہوتی گئی۔‘‘
یہ بات کرتے مائی متُو خاموش ہوگئیں، نور کھوتی آنکھیں نمکین پانی سے بھر چکی تھیں۔ آنکھوں میں پانی آیا تو اُس کی بڑی بیٹی اور بیٹے نے تسلی دی۔ مگر جب وقت، جوانی، ماں باپ اور اپنے گھر چلے جانے کا احساس من آنگن میں اُمیدوں کے کھڑے درخت پر آکاس بیل کی طرح بچھ جائے تو پھر اس درخت کا سوکھ جانا مقدر ٹھہرتا ہے۔
میں نے جب متُو کے بیٹے ساجن سے پوچھا کہ ان کی زمین کتنی تھی؟ تو اُس نے کہا کہ "میں جب چھوٹا تھا تو 80 ایکڑ تک زمین تھی جو مکمل طور پر قابل کاشت تھی۔ ابو اور میں بیلوں پر ہل چلاتے تھے۔ پانی بھی ٹھیک تھا، خرچہ زیادہ اس لیے نہیں تھا کہ فصلوں کو اسپرے درکار نہیں تھا، بیج بھی اپنا تھا۔ بس محنت کرنی پڑتی تھی جو ہم سب کرتے تھے۔
4 بھینسیں، گائیں اور دس کے قریب بھیڑیں تھیں۔ ہمارے پاس تو دودھ اور مکھن کی بڑی فراوانی تھی۔ ہمارا یہ علاقہ جھیلوں کی وجہ سے بڑا مشہور تھا۔ ہمارے گاؤں کے مشرق، مغرب اور شمال میں دو بڑی جھیلیں ’پٹیجی‘ اور ’واریارو‘ تھیں، اس کے علاوہ پانچ اور بھی چھوٹی جھیلیں تھیں جو سردیوں کی موسم میں پرندوں سے بھر جاتی تھیں۔ دور دور سے لوگ یہاں سیر و تفریح کے لیے آتے تھے۔ مگر موجودہ خستہ حالی آپ کے سامنے ہے۔"
میں نے دیکھا وہ دو بڑی جھیلیں اب بھی باقی ہیں مگر اُن میں سمندر کا پانی ہے جس کی وجہ سے جھیلوں کے کناروں پر کوئی ہری گھاس نہیں اُگتی، البتہ نمک کی سفید تہہ ضرور جمتی ہے۔
اس گاؤں کے قرب و جوار میں چھوٹے بڑے مزید 14 گاؤں ہیں جہاں 200 کے قریب خاندان مقیم ہیں مگر وہاں کوئی ڈسپینسری نہیں ہے۔ پرائمری اسکول ہے جو ستر برس پہلے قائم ہوا تھا مگر اس کی عمارت اب تک پکی نہیں ہوئی اور گھاس پھوس کی جھونپڑی میں سسک سسک کر چل رہا ہے۔
لیفٹ بینک آؤٹ فال ڈرین کے ٹائڈل لنک نے اس ذرخیز اور فطرتی حُسن کی حامل اس ساحلی پٹی سے خوبصورتی نوچ لی ہے۔ سمندر جو نہ جانے کتنے کوسوں دور تھا اُس کو یہاں کی زرخیز زمینوں کا راستہ اس ناکامیاب پراجیکٹ نے دکھا دیا جو کسر رہ گئی تھی وہ 1999 میں آنے والے سائیکلون نے پوری کر دی۔
میں ساجن کے ساتھ اُن کھیتوں پر گیا جہاں کبھی گہرے سبز رنگ کی دھان لہلہاتی تھی۔ میں اُن جھیلوں پر گیا جن کی خوبصورتی دیکھنے لوگ نہ جانے کہاں کہاں سے آتے تھے۔ میں نے بھیڑوں کے ریوڑوں کو بھی ڈھونڈنے کی کوشش کی جو سر جُھکائے ایک ردھم سے چلتی رہتی ہیں۔ لیکن مجھے وہاں مایوس فضا کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا۔ جہاں کھیت تھے وہاں نمک کی سفیدی اور کانٹیدار جھاڑیاں تھیں۔
میں نے جب ساجن سے پوچھا کہ، سمندر اس طرح مسلسل یہاں بڑھ رہا ہے، کیا اس کو روکا نہیں جا سکتا؟
’’کیوں نہیں روکا جا سکتا۔ گورنمنٹ اگر چاہے تو کیا نہیں ہو سکتا، ٹائڈل لنک کے جو پشتے بارشوں اور طوفانوں میں زمین سے مل گئے ہیں اُن کو اگر اچھے طریقے سے بنا دیا جائے تو یہ سارا علاقہ برباد ہونے سے بالکل بچ جائے گا۔ اگر سمندر کا پانی یہاں تک نہیں پہنچا تو ہوسکتا ہے کہ ہمارا علاقہ کچھ برسوں میں پھر ہرا بھرا ہو جائے۔
مگر گورنمنٹ ہم غریبوں کے لیے یہ کیوں کرے گی، آخر ہم ان کے لیے کیا اہمیت رکھتے ہیں جو وہ ہمارے لیے یہ سب کچھ کرے گی؟‘‘ ساجن کے جواب میں شکایت بھی تھی اور مایوسی بھی۔
میں وہاں کے کچھ اور چھوٹے بڑے دیہاتوں کے گھروں میں گیا۔ جہاں کے مکین زندگی کو نہیں بلکہ خود زندگی انہیں زندہ رکھے ہوئی تھی۔ غروب آفتاب میں ابھی ایک گھنٹے سے بھی تھوڑا زیادہ وقت تھا مگر رات کی روکھی سوکھی روٹی لکڑیوں کی دھوئیں بھری آگ پر پک رہی تھی۔ رات کو روشنی کا کوئی انتظام نہیں تھا سورج کھڑے ہی روٹی پیٹ میں جھونک دی جائے کہ پیٹ کی آگ بجھُانا خود کو باقی رکھنے کے لیے لازم جو ٹھہری۔
خوراک کی قلت سے عورتیں نحیف اور وقت سے پہلے عمر رسیدہ ہو رہی ہیں۔ چھوٹے بچے ہیں کہ جن کے پاؤں ننگے اور کپڑے پھٹے ہیں۔
وہ ان گلیوں میں بغیر کسی پریشانی کے دوڑتے پھرتے ہیں۔ ان کو اس بات کا قطعی احساس نہیں کہ سمندر مسلسل اُس زمین کو چاٹ رہا ہے جس پر وہ دوڑتے جاتے ہیں یا وہ آنگن جن پر وہ ٹھنڈی چاندنی راتوں میں بڑے سکون سے سوتے ہیں وہ کچھ برسوں میں سمندر ان سے چھین لے گا پھر ٹھنڈی چاندنی راتیں تو ہوں گی مگر یہ فرحت اور سکون دینے والا آنگن نہیں ہوگا۔
ان کو اپنی امی اور ابو کی آنکھوں میں دکھ اور خوف بالکل نظر نہیں آتا کہ جس ڈر و خوف کے ختم کرنے کا طریقہ تو ہے مگر کوئی چارہ گر ہی نہیں جو اس خوف اور دکھوں کا مداوا کر سکے!
’ٹائڈل لنک‘، جو ’ایل بی او ڈی‘ جیسے ناکامیاب اور متنازع منصوبے کا اہم حصہ ہے، اس کے پشتے جو دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے زمین دوز ہوگئے ہیں، کے بننے سے یہ خطہ سمندر کی آنے والی بربادی سے بچایا جا سکتا ہے، یہ پشتے کسی بھی حالت میں اس لیے بننے چاہئیں کہ، چند روپوں اور سستی و کاہلی کے عوض ذرخیز زمینوں، جھیلوں، جنگلی حیات اور انسانوں کو سمندر کی شوریدہ بربادی کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔
اس گاؤں کی ہریالی نہ زمین کھا گئی ہے اور نہ ہی آسمان نگل گیا ہاں یہ ضرور ہے کہ ماضی کے اس سر سبز و شاداب گاؤں اور اس کی زمین کو سمندر نگل رہا ہے۔
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔
ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (22) بند ہیں