• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am

’بھارت کو متنازع منصوبے حل کرنے کی جلدی نہیں‘

پاکستان کے ساتھ کشن گنگا اور رتلے ہائڈروجن پاور جیسے متنازع منصوبے حل کرنے کی کوئی جلدی نہیں، بھارتی عہدیدار
شائع January 7, 2017


نئی دہلی: بھارت نے عالمی بینک سے کہا ہے کہ اسے پاکستان کے ساتھ کشن گنگا اور رتلے ہائڈروجن پاور جیسے متنازع منصوبے حل کرنے کی کوئی جلدی نہیں۔

دی تھرڈ پول ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق بھارتی عہدیداروں نے نئی دہلی میں موجود عالمی بینک کے نمائندوں کو کہا ہے کہ ان منصوبوں پر دونوں ممالک کے درمیان کسی بھی اختلاف کو دوطرفہ مذاکرات یا غیر جانبدار ماہر کی تقرری کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے۔

خیال رہے کہ بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں سندھ طاس معاہدے (آئی ڈبلیو ٹی) میں شامل دریاؤں پر بنائے جانے والے ان منصوبوں پر پاکستان نے اعتراضات اٹھاتے ہوئے اسے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

بھارت کی جانب سے پاکستانی اعتراضات مسترد کیے جانے کے بعد پاکستان نے سندھ طاس معاہدے میں ثالث کے طور پر شامل عالمی بینک سے رابطہ کیا تھا۔

اسلام آباد نے امریکی حکومت کو بھی معاملے میں مداخلت کرنے کے لیے کہا تھا، جب کہ پاکستان کا خیال ہے کہ پانی کا تحفظ پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کا اہم جزو ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’ہندوستان سندھ طاس معاہدہ منسوخ نہیں کرسکتا‘

سندھ طاس معاہدوں میں شامل ستلج اور دریائے سندھ چین سے شروع ہوکر بھارت کے راستے پاکستان پہنچتے ہیں، جب کہ اسی معاہدے میں شامل دیگر چار دریا جہلم، چناب راوی اور بیاس بھارت سے شروع ہوکر پاکستان پہنچتے ہیں۔

بھارت اپنا متنازع کشن گنگا منصوبہ جہلم جب کہ رتلے ہائڈرو پاور منصوبہ دریائے چناب پر بنا رہا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ واشنگٹن چاہتا ہے کہ اسلام آباد اور نئی دہلی تمام مسائل باہمی تعلقات کے ذریعے حل کریں جب کہ بھارت کا بھی یہی مؤقف ہے کہ سندھ طاس معاہدے کو دو طرفہ تعلقات کے ذریعے حل کیا جائے۔

دونوں ممالک میں تنازع بڑھ جانے کے باعث عالمی بینک نے سندھ طاس معاہدے کے حل کے لیے غیرجانبدار ماہر کی تقرری سمیت ثالثی عدالت کی تقرری جیسی تمام کارروائیاں روک دی تھیں۔

ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق سندھ طاس معاہدے پر دونوں ممالک میں ڈیڈ لاک ختم کرنے کی کوشش کے لیے عالمی بینک کے نمائندے ایئین ایچ سولومین نے بھارت کے محکمہ خارجہ اور وزارت پانی کے نمائندوں سے ملاقات کی۔

بھارتی وفد کی سربراہی محکمہ خارجہ کے جوائنٹ سیکریٹری گوپال بگلے نے کی، ملاقات کے دوران بھارتی وفد نے دونوں منصوبوں پر پریزنٹیشن پیش کی، جس میں دلائل دیئے گئے کہ منصوبے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہیں۔

ملاقات کے بعد بھارتی عہدیدار نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بھارت نے پاکستان کی جانب سے اٹھائے جانے والے تکنیکی اعتراضات پربات کرتے ہوئے اپنے مؤقف میں کہا کہ معاملے کو غیر جانبدار ماہر ہی بہتر طریقے سے حل کرے گا۔

پاکستان نے حال ہی میں بھارت کی جانب سے غیر جانبدار ماہر کی تقرری کی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ معاملہ عالمی ثالث عدالت ہی حل کرے گی۔

مزید پڑھیں: 'سندھ طاس معاہدہ مستقبل کے مسائل پر خاموش ہے'

عالمی بینک معاملے کو حل کرنے کے لیے عالمی ثالث عدالت اور غیر جانبدار ماہر کی تقرری پر راضی ہوگیا تھا، مگر دونوں ممالک کی جانب سے دونوں تجاویز پر شدید اعتراضات کے بعد عالمی بینک نے دونوں کارروائیاں معطل کردیں۔

ویب سائٹ نے بھارتی خبررساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی) کا حوالہ دیتا ہوئے لکھا ہے کہ گزشتہ روز بھارتی عہدیداروں کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں عالمی بینک کے نمائندے ایئین ایچ سولومین نے بھارت کے دونوں منصوبوں پر کوئی بھی اعتراض نہیں اٹھایا ،بلکہ انہوں نے معاملے کو حل کرنے کے لیے ممکنہ حل تلاش کرنے جیسے معاملات پر بات کی۔

عالمی بینک کے عہدیدار کی جانب سے معاملے کو حل کرنے کے لیے اسلام آباد سے نئی دہلی تک کوششیں کرنے کے باوجود مسئلے کو حل کرنے کے لیے کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکا۔

ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق عالمی بینک کے عہدیدار نے بتایا کہ بھارت اپنی عالمی ذمہ داریوں سے بخوبی آگاہ ہے اور وہ ان دونوں متنازع منصوبوں سمیت تمام معاملات کو حل کرنے کے لیے مزید مشاورت کے لیے بھی تیار ہے۔

واضح رہےکہ سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت تین مغربی دریاؤں جہلم، چناب اور دریائے سندھ کے پانی کو ہائڈرو پاور جیسے منصوبوں میں استعمال نہیں کرسکتا، جبکہ کشن گنگا اور رتلے ہائڈروجن پاور منصوبے مغربی دریاؤں پر ہی بنائے گئے ہیں۔

ہندوستان کو کسی بھی پن بجلی کے منصوبوں کےلیے دریاؤں کا پانی روکنے کا اختیار نہیں اور پاکستان کو ان منصوبوں کے دروازوں کی اونچائی پر اعتراض ہے کیوں کہ ان منصوبوں کے دروازے دریاؤں میں پانی کے بہاؤ کو متاثر کرتے ہیں۔

بھارتی منصوبوں پر پاکستان کا مؤقف

پاکستان نے گزشتہ برس ستمبر میں بھارت کے کشن گنگا منصوبے پر اعتراضات اٹھائے ہوئے عالمی بینک سے رابطہ کیا تھا اور کہا تھا کہ کشن گنگا منصوبہ سندھ طاس کی خلاف ورزی ہے اس لیے معاملے کے حل کے لیے عالمی ثالث عدالت کا تقرر کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ طاس معاہدہ : پاکستان نے معاملہ ورلڈ بینک میں اٹھادیا

سابق واٹر کمشنر سید جماعت علی شاہ نے دی تھرڈ پول سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کشن گنگا منصوبہ ایک سال سے جاری ہے اور اسلام آباد کی جانب سے عالمی بینک سے تاخیر سے رابطہ کرنے سے بھارت کو مزید وقت ملا۔

حال ہی میں پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے سبکدوش ہونے والے امریکی وزیر خارجہ جان کیری سے رابطہ کیا تھا، امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھاکہ امریکا بین السرحدی پانی کے بہاؤ کا پرامن حل چاہتا ہے۔

ویب سائٹ نے ڈان اخبار کی خبر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ واشنگٹن کے سفارتی مبصرین کا خیال ہے کہ یہ مسئلہ انتہائی سنجیدہ ہے، اسی لیے امریکی وزیر خارجہ جان کیری بھی معاملے کو پر امن طور پر حل کرنے کی کوششوں پر مجبور ہوئے۔

ویب سائٹ میں چھپے مضمون کے مطابق تاہم اب پاکستان اس تصویر میں چین کو بھی لانے کا خواہش مند ہے۔

ویب سائٹ لکھتا ہے کہ پاکستانی عہدیداروں کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق گزشتہ برس 29 دسمبر کو چین کے شہر بیجنگ میں ہونے والے پاک چین اقتصادی راہداری کے چھٹے جوائنٹ کوآرڈینیشن کمیٹی (جے سی سی) کے اجلاس میں پانی کے تحفظ کے لیے خصوصی گروپ تشکیل دیا گیا تاکہ مستقبل میں پاکستان پانی اور خوراک جیسے مسائل کا شکار نہ ہو۔

بعد ازاں رواں ماہ چینی وفد نے پاکستان کا دورہ کیا،جس کے بعد جے سی سی نے کہا کہ دیامر بھاشا ڈیم کو بھی سی پیک میں شامل کرنے پر غور کیا جاسکتا ہے۔

وفاقی وزیر برائے ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال کے مطابق دیامر بھاشا ڈیم کو سی پیک منصوبے میں شامل کرانا ایک تاریخی کامیابی ہوگی، منصوبے میں شامل ہونے کے بعد اس ڈیم پر تقریبا 15 ارب امریکی ڈالر لاگت آئے گی۔

مزید پڑھیں: سندھ طاس معاہدہ : 'ورلڈ بینک ذمہ داریاں پوری کرے'

عالمی بینک اور ایشیا بینک پاکستان کو ہائڈرو پاور منصوبوں کے لیے فنڈز فراہم کرنے سے انکار کرچکے ہیں۔

پاکستانی ماہرین کا مؤقف

سابق وفاقی وزیر اور معروف قانون دان احمر بلال صوفی نے پانی کی حفاظت کو سی پیک میں شامل کرنے کو بنیادی طور پر پاکستان اور چین کی سیاسی پسند قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ مسئلہ براہ راست سی پیک میں نہیں آتا، اسے کمرشل حیثیت میں سی پیک میں شامل کیا گیا۔

ویب سائٹ سے بات کرتے ہوئے احمر بلال صوفی کا کہنا تھا کہ بھارت، چین سے پانی کی نچلی جب کہ پاکستان سے اونچی سطح پر ہے، دونوں ممالک ایک دوسرے کی مدد کرکے بھارت کا مقابلہ کریں گے۔

احمر بلال صوفی نے مزید کہا کہ بھارت کی جانب سے منصوبوں کی تعمیر اور سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی تشویش ناک ہے، ہندوستان پانی کے بہاؤ کو کم کرنے کے لیے اپنی صلاحیت بڑھا رہا ہے، پاکستان کو معاملہ عالمی سطح پر اٹھانا چاہئیے۔

سابق واٹر کمشنر سید جماعت علی شاہ نے بتایا کہ عالمی برادری کو بھارت کی جانب سے عالمی معاہدے کی خلاف ورزیوں پر تفصیل سے آگاہ کیا جانا چاہئیے، جب کہ دونوں ممالک کو مسائل کے لیے مل کر کام اور شکایات کے حل کے لیے درمیانہ راستہ اختیار کرنا چاہئیے۔

ویب سائٹ کے مطابق حالیہ دنوں میں بھارت کی جانب سے معاملے پر جارحانہ انداز میں لابنگ کرنے اور اثر انداز ہونے کی وجہ سے عالمی بینک نے معاہدے میں مزید خرابی کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔

آبی ماہر سیمی کمال نے ویب سائٹ کو بتایا جیسے اس معاملے میں عالمی بینک نے پہلے ثالث کا کردار ادا، ایسے ہی اب بھی عالمی بینک کو اس معاملے میں صحیح کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان، بھارت کو آبی تنازع جنوری تک حل کرنے کی مہلت

ان کے مطابق عالمی بینک کو اس معاملے میں اس لیے صحیح کارروائی کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ سندھ طاس معاہدے کے ختم ہونے کی کوئی تاریخ نہیں اور یہ معاہدہ 74 صفحات اور 12 شقوں پر مشتمل ہے اور عالمی بینک اس میں تیسرے فریق کے طور پر شامل ہے۔

سیمی کمال کے مطابق ثالث کے طور پرعالمی بینک کو پیچھے ہٹنا نہیں بلکہ اس معاملے کو حل کرنا چاہئیے، اسے ثالث کے طور پر جھگڑالو بھارتی حکومت کاسامنا کرنا چاہئیے، بینک کی جانب سے معاملے کو حل کرنے کا عمل رکنا نہیں چاہئیے، دونوں ممالک کی حکومتوں کے درمیان عالمی بینک کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئیے۔

جماعت علی شاہ کے مطابق ایسے معاملات کے خلاف کارروائی کرنے سے پہلے پاکستان مناسب منصوبہ بندی نہیں کرتا، پاکستان کا کیس کمزور ہوتا ہے۔

معاشی ماہر قیصر بنگالی بھی سابق واٹر کمشنر کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس معاملے پر پاکستان کی جانب سے سیاسی دیوانگی اور دانشورانہ منصوبہ بندی نہ ہونا جرم کے برابر ہے۔

قیصر بنگالی کو پاکستان کی سندھ طاس معاہدے کی ٹیم پر کم اعتماد ہے ، وہ کہتے ہیں پانی کے تنازعات حل کرنے کے لیے پاکستان کے پاس کوئی مناسب منصوبہ بندی نہیں ہوتی، سندھ طاس پر پاکستان کی جانب سے مذاکرات کرنے والے سربراہ نے 15 سال تک محدود ذہنیت سے اس زندگی اور موت کا معاملہ رکھنے والے مسئلے کا فیصلہ کیا۔

قیصر بنگالی کے مطابق پاکستان معاہدے کی روح پر ڈھول پیٹتا رہتا ہے ۔

معاشی ماہر کے مطابق بھارت سندھ طاس معاہدے کے خط کی خلاف ورزی نہیں کر رہا ، ہندوستان مغربی دریاؤں پر بجلی منصوبے ضرور بنا رہا ہے، مگر وہ پانی کا رخ نہیں موڑ رہا۔

انہوں نے خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان سندھ طاس معاہدے کا خط عدالت میں لےجائے گا تو اسے 2007 میں بغلیار ڈیم جیسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔

مزید پڑھیں: ’ہندوستان سندھ طاس معاہدہ یکطرفہ طور پر ختم نہیں کرسکتا‘

بھارتی مؤقف

بھارتی عہدیدار سندھ طاس معاہدے کو برقرار رکھنے کے لیے کوشاں ییں، مگر گزشتہ برس مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے اڈے پر حملے کے بعد ہندوستانی حکومت نے سندھ طاس معاہدے پر سخت مؤقف اختیار کیا۔

نئی دہلی نے حال ہی میں اپنے مؤقف میں کہا تھا کہ مغربی دریاؤں پربنائے جانے والے منصوبوں کی تحقیقات کے لیے ٹاسک فورس بنایا جائے گا جو اس بات کی تصدیق کرے گا یہ منصوبے سندھ طاس کی خلاف ورزی ہیں یا نہیں۔

گزشتہ برس کے آخری ہفتے میں بھارتی حکومت نے ٹاسک فورس کی تشکیل کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ٹاسک فورس کی سربراہی وزیر اعظم نریندر مودی کے پرنسپل سیکریٹری نریپندرا مشرا کریں گے۔


یہ مضمون سب سے پہلے دی تھرڈ پول ڈاٹ نیٹ پر شائع ہوا، جسے ان کی اجازت سے یہاں ترجمہ کرکے شائع کیا گیا۔