ٹریفک جام یادداشت کمزوری کی وجہ
شور مچاتی موٹر سائیکلیں، رکشوں کی کھڑکھڑاہٹ، گاڑیوں کے ہارن کا نہ ختم ہونے والا شور، جلتی بجھتی انڈیکیٹر لائٹس اور نظام تنفس کے ساتھ جسم کا حصہ بننے والا مضر صحت دھواں نہ صرف سردرد، چڑچڑے پن اور سانس کی بیماریوں کا باعث بنتا ہے، بلکہ تحقیق کاروں کے مطابق ٹریفک سے بھری سڑکیں انسانی یادداشت کو بھی بری طرح متاثر کرتی ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق کینیڈا کے محققین کی نئی کھوج آئے دن ٹریفک جام کا سامنا کرنے والے افراد کے لیے خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں۔
تحقیق کے مطابق خون کی گردش کے ساتھ دماغ تک پہنچنے والا ٹریفک کا آلودہ دھواں انسانی دماغ کے خلیوں کو متاثر کرنے کا سبب بنتا ہے۔
لینسٹ میڈیکل جرنل کی تحقیق کے مطابق جو لوگ ٹریفک سے بھری سڑکوں سے 50 میٹر کی فاصلے پر رہائش پذیر ہوں، ان میں 'ڈیمنشیا' (یادداشت کی کمزوری) کا خطرہ مصروف سڑکوں سے 300 میٹر کے فاصلے پر رہنے والے افراد کی نسبت 7 گنا زیادہ ہوتا ہے۔
تحقیق کے مطابق ہوائی آلودگی کی باعث آلودہ عناصر خون کی گردش میں داخل ہو کر سوزش کی وجہ بنتے ہیں جس سے دل کی بیماریوں کے ساتھ ساتھ ذیابیطس جیسے امراض کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔
کینیڈین انسٹی ٹیوٹ کے ساتھ تحقیق کرنے والے پبلک ہیلتھ انٹاریو (پی ایچ او) کے ماحولیات اور آکیوپیشنل صحت کے ماہر رے کوپس کے مطابق خون کی گردش کے ساتھ دماغ تک پہنچنے والے آلودہ عناصر دماغی مسائل کی وجہ بن سکتے ہیں۔
ڈیمنشیا یا یادداشت کے متاثر ہونے کی وجہ دماغی بیماریاں ہیں جس میں دماغ کے خلیات متاثر ہوتے جاتے ہیں اور یادداشت میں کمزوری، سوچنے کی صلاحیت میں کمی اور ذہنی جبلت کے انحطاط کا سبب بنتے ہیں، ان سب وجوہات کی بنا پر متاثرہ شخص کے لیے روزمرہ کے کام سرانجام دینا کافی مشکل ہوجاتا ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق 2015 میں دنیا بھر میں ڈیمنشیا سے متاثرہ افراد کی تعداد تقریباً 4 کروڑ 75 لاکھ کے قریب رہی جس میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ دیکھا جارہا ہے۔
یہ لاعلاج مرض ترقی یافتہ ممالک میں لوگوں میں معذوری اور دوسروں لوگوں پر انحصار میں اضافے کی بھی اہم وجہ ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ کینیڈین تحقیق دنیا بھر میں صحت عامہ کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت ثابت ہوگی۔
برطانوی یونیورسٹی کے ماہر ٹام ڈیننگ کہتے ہیں کہ یادداشت میں کمزوری کا خدشہ ان شہروں کے لیے مزید بڑھ جاتا ہے، جو اسموگ کی لپیٹ میں رہتے ہیں۔
سائنسدان پرامید ہیں کہ ان کی تحقیق شہری انتظامیہ کی توجہ حاصل کرنے کامیاب ہوگی اور شہری آبادیوں کو بہتر بنانے میں اس کا استعمال کیا جاسکے گا۔