• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:03pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:02pm Isha 6:29pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:03pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:02pm Isha 6:29pm

پاناما کیس: سپریم کورٹ کا روزانہ کی بنیاد پر سماعت کا فیصلہ

شائع January 4, 2017

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاناما لیکس کے معاملے پر وزیراعظم نواز شریف کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

سماعت کاآغاز کرتے ہوئے جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ کیس کو کسی صورت التواء کا شکار نہیں ہونے دیا جائے گا اور کیس کی سماعت روزانہ ساڑھے 9 سے 1 بجے تک کی جائے گی۔

دوران سماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف کے پارلیمنٹ سے خطاب میں قطری سرمایہ کاری کا کوئی ذکر موجود نہیں تھا، نواز شریف کے بچوں مریم، حسن اور حسین نے بھی غلط بیانی کی۔

نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ ریکارڈ کے مطابق دبئی کے 25 فیصد شیئرز 1980 میں فروخت کیے گئے اور دبئی فیکٹری کے 75 فیصد شیئرز 1978 میں فروخت کر دیئے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'شریف خاندان کی دبئی میں سرمایہ کاری بے نامی تھی، وزیراعظم نے کہا جدہ اسٹیل مل کی فروخت سے لندن فلیٹس لیے مگر وزیراعظم کی دستخط شدہ کوئی دستاویز موجود نہیں'۔

جس پر جسٹس اعجاز الحسن نے استفسار کیا کہ کیا آپ کے پاس وزیراعظم کے دستخط شدہ دستاویز ہیں؟ آپ کا انحصار تو خود وزیراعظم کی 2 تقریروں پر ہے۔

نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ تمام دستاویزات اور رپورٹس عملی سطح پر جاری ہوئیں۔

جسٹس گلزار نے عمران خان کے وکیل سے سوال کیا کہ ان دستاویزات اور رپورٹس کی قانونی حیثیت کیا ہے؟

جس پر نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ آئی سی آئی جے کی دستاویزات کو ابھی تک چیلنج نہیں کیا گیا۔

پی ٹی آئی کے وکیل کا مزید کہنا تھا کہ اگر قطری شہزادے کے خط کو نظرانداز کردیا جاتا ہے تو سارا کیس واضح ہوجائے گا۔

عدالت نے نعیم بخاری کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ آپ کو ثابت کرنا ہوگا کہ آف شور کمپنیاں 2006 سے پہلے ہی وزیراعظم کے بچوں کی ملکیت میں تھیں۔

جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ نومبر میں سابق قطری وزیراعظم کے پیش کیے گئے خط کے مطابق لندن فلیٹس الثانی فیملی کی ملکیت تھے جس کے بعد شریف خاندان نے انہیں خریدا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ عدالت میں اس حوالے سے کوئی شواہد پیش نہیں کیے گئے کہ الثانی خاندان ہی ان فلیٹس کا مالک تھا۔

عدالت نے پی ٹی آئی وکیل کو حکم دیا کہ وہ پارک لین فلیٹس کی خریداری کے لیے استعمال ہونے والے ذرائع کی معلومات واضح کریں، اس حوالے سے ایپکس کورٹ میں تین منی ٹریل پیش کیے جاچکے ہیں۔

عدالت نے وکیل پی ٹی آئی کو ایک ہی ٹریل واضح کرنے کا حکم دیا۔

واضح رہے کہ قطری شہزادے کے خط کے مطابق لندن کے پارک لین فلیٹس نواز شریف کے والد میاں شریف نے 1980 میں خریدے، دستاویز کے مطابق ان فلیٹس کو دبئی اسٹیل ملز فروخت کرکے خریدا گیا۔

جس پر جسٹس کھوسہ نے نعیم بخاری سے استفسار کیا کہ کیا ان فلیٹس میں سرمایہ کاری اس قدر منافع بخش تھی کہ 1980 سے 2006 تک اربوں روپے حاصل ہوگئے۔

دوران سماعت سیاستدانوں کی سپریم کورٹ کے احاطے میں میڈیا سے گفتگو پر بھی سپریم کورٹ کی جانب سے برہمی کا اظہار کیا گیا، عدالت کا کہنا تھا کہ احاطے کو سیاسی اکھاڑہ نہ بنایا جائے۔

جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ دیکھنا ہوگا نواز شریف نے عوامی عہدے کا غلط استعمال تو نہیں کیا، وزیراعظم 1980 سے 1997 تک بزنس اور سرکاری عہدہ رکھتے تھے۔

عدالت نے نواز شریف کے وکیل سے استفسار کیا کہ وہ دوبارہ وزیراعظم کب منتخب ہوئے، ملک بدر کب ہوئے، پنجاب کے وزیراعلیٰ کب بنے، اور پنجاب کے وزیر خزانہ کب رہے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وزیراعظم کے وکیل سے یہ تفصیلات طلب کرتے ہوئے سماعت کو کل تک کے لیے ملتوی کردیا۔

نیا 5 رکنی لارجر بینچ

یاد رہے کہ 9 دسمبر 2016 کو ہونے والی پاناما کیس کی گذشتہ سماعت میں اسے جنوری کے پہلے ہفتے تک ملتوی کردیا گیا تھا، جس کے بعد سابق چیف جسٹس انورظہیر جمالی کی مدت ملازمت 30 دسمبر 2016 کو ختم ہونے کے باعث درخواستوں کی سماعت کرنے والا لارجر بینچ ٹوٹ گیا تھا۔

31 دسمبر کو سپریم کورٹ کے نو منتخب چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے حلف اٹھانے کے بعد سپریم کورٹ میں جاری پاناما لیکس پر درخواستوں کی سماعت کے لیے نئے لارجر بینچ کا اعلان کیا تھا۔

4 جنوری سے کیس کی سماعت سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں قائم نیا 5 رکنی لارجر بینچ کررہا ہے جبکہ نئے چیف جسٹس 5 رکنی لارجر بینچ کا حصہ نہیں۔

لارجر بینچ میں جسٹس آصف کھوسہ، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس اعجاز افضل، جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس گلزار احمد شامل ہیں۔

وکلاء کی تبدیلی

یہ بھی واضح رہے کہ سماعت کے آغاز سے ایک روز قبل ہی پاناما کیس میں شریف خاندان کی سپریم کورٹ میں نمائندگی کرنے والے وکلاء تبدیل ہوئے، کیس میں وزیر اعظم نواز شریف کی پیروی سابق اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ کے بجائے اب ایڈووکیٹ مخدوم علی خان کررہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما گیٹ کیس: شریف خاندان کے وکلاء پھر تبدیل

وزیراعظم نوازشریف کے ساتھ ساتھ ان کے بیٹوں حسن نواز اور حسین نواز کے وکلاء بھی تبدیل ہوگئے ہیں، ایڈووکیٹ اکرم شیخ کے بجائے اب ان دونوں کی پیروی سلمان اکرم راجا کررہے ہیں۔

دوسری جانب نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز اور ان کے خاوند کیپٹن صفدر کی پیروی سینئر وکیل شاہد حامد کررہے ہیں۔

گذشتہ روز تحریک انصاف کی جانب سے پاناما کیس سے متعلق مزید دستاویزات بھی سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئیں جو 40 صفحات پر مشتمل تھیں۔

پی ٹی آئی کی قیادت کے مطابق سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی ان دستاویزات میں برطانوی تحقیقاتی اداروں اور موزیک فونسیکا کی جانب سے کی گئی تحقیقات شامل ہیں، ساتھ ہی موزیک فونسیکا اور منروا سروسزکے درمیان ای میلز کے تبادلے کی تفصیلات بھی ان دستاویزات کا حصہ ہیں۔

واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)،جماعت اسلامی پاکستان (جے آئی پی)، عوامی مسلم لیگ (اے ایم ایل)، جمہوری وطن پارٹی (جے ڈبلیو پی) اور طارق اسد ایڈووکیٹ نے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں آئینی درخواستیں دائر کی تھیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

KHAN Jan 04, 2017 07:45pm
السلام علیکم: ’’عدالت نے نواز شریف کے وکیل سے استفسار کیا کہ وہ دوبارہ وزیراعظم کب منتخب ہوئے، ملک بدر کب ہوئے، پنجاب کے وزیراعلیٰ کب بنے، اور پنجاب کے وزیر خزانہ کب رہے’’ یہ معلومات تو ویکیپیڈیا سے بھی مل سکتی ہے اور سی ایس ایس کے ذریعے بھرتی کسی بھی عام سے افسر سے بھی۔ خیرخواہ
MaLIK USA Jan 04, 2017 09:14pm
@KHAN - You are right. Surprisingly these questions were asking by the court, as if that these are the confidential matter?

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024