سندھ میں پانی کے معیار کی جانچ کا حکم
کراچی: صوبہ سندھ میں پینے کے پانی اور صحت و صفائی کی صورت حال کے معاملات کو دیکھنے کیلئے بنائے گئے عدالتی کمیشن نے پاکستان کونسل آف ریسرچ واٹر ریسورس (پی سی آر ڈبلیو آر) کو صوبے کے عوام کو فراہم کیے جانے والے پانی کی حیاتیاتی اور کیمیائی جانچ کی ہدایت کردی ہے۔
کمیشن کے سربراہ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس محمد اقبال کلہورو کے مشاہدے میں یہ بات آئی کہ درست نتائج کو ریکارڈ کرنے کیلئے یہ ضروری ہے اور عوام کو فراہم کیے جانے والی پانی کے معیار (زمین کی سطح پر اور سطح کے نیچے موجود پانی) کے نمونوں کی جانچ کا فیصلہ کیا جائے۔
کمیشن نے کونسل کو کراچی، حیدرآباد، سکھر، بدین، ڈنڈوجام اور دیگر علاقوں میں پانی کے نمونوں کی جانچ پڑتال کا حکم دیا، ان علاقوں میں کمیشن کی لیبارٹریز موجود ہیں اور انھیں 10 یوم میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
انکوئری کمیشن نے یہ ہدایات بھی جاری کیں ہیں کہ پانی کے نمونے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اور متعلقہ ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) کی موجودگی میں حاصل کیے جائیں۔
اس کے علاوہ کمیشن نے حکام کو ہدایات کی کہ کونسل کے اسٹاف کی مدد اور حمایت کیلئے تمام ضروری سہولیات فراہم کی جائیں۔
اس سے قبل اس حوالے سے کام کرنے والی آرگنائزیشنز اور عوامناس کو کمیشن کی مدد کیلئے اپنے بیانات حلف نامے کے ساتھ جمع کرانے کی دعوت بھی دی گئی تھی۔
سماعت کے آغاز میں کمیشن کے سامنے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سلمان طالبِ دین نے پی سی آر ڈبلیو آر کے سینئر ریسرچر ڈاکٹر غلام مرتضیٰ آرائیں جبکہ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل محمد سرور خان نے سابق آبپاشی کے سیکریٹری ادریس راجپوت، ٹھٹہ میں چیلیا لیبارٹری کے انچارج ڈاکٹر احسن صدیقی، بشیر احمد داھار اور ڈاکٹر سمیع الزماں کے نام پیش کیے تھے۔
اس حوالے سے کیسز کے درخواست گزار شہاب اوستو نے این ای ڈی یونیورسٹی کے شعبہ آبپاشی کے سربراہ ڈاکٹر نعمان احمد کا نام تجویز کیا۔
کمیشن نے تمام فریقین کی رضامندی کے ساتھ، عدالتی معاونین کے طور پر ادریس راجپوت، ڈاکٹر نعمان احمد اور ڈاکٹر غلام مرتضی کو مقرر کردیا۔
جس کے بعد کیس کی سماعت 9 جنوری تک کیلئے ملتوی کردی گئی۔
خیال رہے کہ مذکورہ کمیشن سپریم کورٹ کی ہدایت پر مقرر کیا گیا تھا، جس کا مقصد ایک درخواست گزار کی جانب سے سندھ میں پینے کے صاف پانی، صحت و صفائی کی صورت حال اور صحت مند ماحول کے حوالے سے انتظامیہ کی ناکامی پر کیے گئے خدشات کی تحقیقات کرنا تھا۔
تبصرے (1) بند ہیں