• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

بچپن میں ہر جمعہ میرے لیے عذاب کا دن کیوں تھا؟

شائع January 6, 2017 اپ ڈیٹ January 7, 2017

مسلسل تین سالوں تک ہر جمعے کو یہی ماجرا ہوتا۔ مجھے یاد ہے کہ ان دنوں جب میں چوتھی جماعت کی طالبہ تھی تب میری کلاس کے دیگر طلبہ جمعہ کے دن ہفتے کی چھٹیوں کو لے کر خوشی سے سرشار ہوتے، مگر میرے لیے یہ دن عذاب کا دوسرا نام ہوتا۔

اس دن میں گھر دیر سے لوٹنے کی ہر ممکن کوشش کرتی۔ کبھی کبھار میں اسکول سے سب سے آخر میں گھر لوٹتی، یہاں تک کہ اسٹاف ممبران کے بعد گھر جاتی۔ گھر اپنے والدین کو فون کر کے کہتی کہ اسکول کا تھوڑا اضافی کام ہے تا کہ ابو دیر سے مجھے لینے آئیں۔

ہر جمعے کو اسکول سے گھر لوٹنے کے ساتھ ہی میرے ابو مجھے اپنے کمرے میں بند کر دیتے اور بیدردی سے مارا کرتے۔ وہ مجھے رونے بھی نہیں دیتے تھے۔ اگر روتی تو اور بھی زور سے مار پڑتی۔

میری امی اور بہنیں ابو کو یہ کہتے ہوئے قابو کرنے کی کوشش کرتیں کہ ’وہ ابھی چھوٹی بچی ہے‘، لیکن اس کا کوئی فائدہ نہ ہوتا۔ وہ جیسے ہی مجھے مارنے آتے، ویسے ہی بند دروازے کی دوسری جانب سے امی اور بہنیں زور زور سے دروازہ بجاتیں۔ شدید تشدد کر کے بس کرتے تو دروازہ کھول دیتے اور میری امی روتے ہوئے کمرے میں داخل ہوتیں اور مجھے زمین پر گرا پاتیں۔ ایسا لگتا کہ جیسے وہ بھی اسی کرب سے گزر رہی ہیں جس تکلیف سے میں گزر رہی تھی۔

وہ مجھے اپنی بانہوں میں بھرتیں۔ میں ان سے پوچھتی، ’وہ مجھے کیوں اتنی بے دردی سے مارتے ہیں؟’ ان کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہ ہوتا، مگر وہ بارہا مجھے یقین دلاتیں کہ اس میں میری کوئی غلطی نہیں۔

میں ارد گرد موجود ٹیبل، ریلنگ یا پھر کسی بھی چیز کا سہارے لے کر لڑکھڑاتے ہوئے دروازے تک پہنچتی۔

اس مار پیٹ کے بعد پیر کو اسکول واپس جانے سے پہلے میرے پاس اپنے زخموں کو بھرنے کے لیے صرف دو دن ہوتے۔

میں اپنے بستر پر گھنٹوں تک روتی رہتی، اور کسی سے بات نہ کرتی۔ میری امی جب مجھے دیکھنے میرے کمرے میں آتیں تو میں سونے کا بہانہ کر لیتی تا کہ ان سے بات نہ کرنی پڑے۔ وہ میرے بستر پر میرے پاس بیٹھ جاتیں اور میرے زخموں پر اپنا ہاتھ پھیرتی رہتیں کہ جیسے ان میں کوئی طلسماتی قوت ہو اور اس طرح میرے سارے زخم جادو سے ٹھیک ہو جائیں گے۔

اسکول میں میں ہنسی مذاق کرتی اور اپنے دوستوں کے ساتھ بالکل نارمل رہتی اور ایسا محسوس کرواتی کہ جیسے میرے ساتھ کچھ بھی نہیں ہوا۔

ایک بار میرے ابو نے اپنے کیے پرمجھ سے معافی مانگی۔ پہلے تو معاف کرنا نہ چاہا مگر پھر انہیں معاف کر دیا اور دل کو تسلی ملی کہ آخر کار اب وہ اس مار پیٹ کا سلسلہ بند کر دیں گے۔ مگر وحشیانہ تشدد کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ انہوں نے دوسری بار معافی مانگ لی اور میں نے انہیں دوسری بار بھی معاف کر دیا۔ مگر پھر میں جلد ہی سمجھ گئی تھی کہ ایسا کرنا ان کی محض ایک عادت بن گئی تھی۔

جلد ہی جو کچھ بھی ہو رہا تھا، انہوں نے اسے جھٹلانا شروع کر دیا۔ ہر بار ان سے مار کھانے کے بعد میں انہیں نظر انداز کرنے کی کوشش کرتی، جس پر وہ مجھ سے پوچھتے کہ میں ان سے بات کیوں نہیں کر رہی۔

مجھے بتایا گیا کہ ان کا بلڈ پریشر ہائی ہوتا ہے اور اسی لیے انہیں کسی نہ کسی پر اپنا غصہ نکالنا ہوتا ہے، مطلب یہ کہ اس طرح بچے پر تشدد کرنے میں وہ حق بجانب تھے۔ میں یہ بھی سوچتی کہ وہ دوسرے بہن بھائیوں کے ساتھ ایسا کیوں نہیں کرتے؟ میں ہی کیوں؟

ایک بار جب میں پانچویں کلاس میں تھی تب میرے زخم زیادہ گہرے تھے اور دو دن میں ٹھیک نہیں ہو پائے تھے۔ اگلی صبح میرا اسکول تھا اور اسی لیے میرے پاس 54 ڈگری گرمی میں بھی پوری آستینوں کی شرٹ پہننے کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا۔

میرے گھر والوں نے اس تشدد کے بارے میں کسی کو بھی بتانے سے خبردار کیا ہوا تھا۔ جب میری ایک کلاس فیلو نے میرے زخم دیکھے اور وجہ پوچھی تو میں نے اسے بتایا کہ میری گاڑی سے ٹکر ہوئی ہے۔

ایسا پہلی بار تھا کہ کسی نے میرے زخم دیکھے تھے، مگر چوں کہ مار پیٹ کا یہ سلسلہ جاری رہا، لہٰذا اپنے جسم پر زخموں کے نشانوں کو چھپانا بھی بہت مشکل ہو گیا تھا۔ میرے ہم جماعت ان زخموں کی وجہ پوچھتے رہے، میں نے ان میں سے ایک لڑکی کو سچ بتا دیا۔ اس لڑکی نے مجھے ٹیچر کے پاس جانے کا مشورہ دیا مگر میں بہت ڈری ہوئی تھی کہ اگر اس بات کا ابو کو پتہ چل گیا تو معاملات اور بھی بدتر ہو جائیں گے۔

چند ہفتوں کے بعد میرے اسکول کونسلر نے مجھ سے پوچھا کہ گھر میں سب ٹھیک ہے۔ میں نے سر ہلا کر ہاں میں جواب دیا، مگر وہ جان گئی تھیں کہ میں اپنے آنسوؤں کو بمشکل ضبط کر رہی تھی۔ میں نے حقیقت بیان کر دی مگر میں یہ بھی جانتی تھی کہ وہ اس بارے میں میری کوئی مدد نہیں کر پائیں گی۔

اسکول کے گزرتے ہر سال کے آخر میں بچے موسم سرما کی چھٹیوں کا بے قراری کے ساتھ دن گن گن کر انتظار کرتے اور دوسری طرف میں اپنی کرسی پر بیٹھ کر روتی رہتی۔

میری چھٹیوں کی شروعات کچھ الگ ہی انداز میں ہوا کرتی تھی۔ ہم جیسے ہی گھر پہنچتے تو میرے ابو مجھے سیدھا ان کے کمرے میں چلنے کا کہتے۔ کمرے میں جانے سے پہلے میں ان کی تین فٹ لمبی چھڑی جس سے وہ مجھے مارا پیٹا کرتے تھے، چھپانے کی کوشش کرتی تھی۔ مگر جب چھڑی نہیں مل پاتی تو وہ مجھے لوہے یا پلاسٹک کے ہینگر، یا امی کی سینڈل سے مارا کرتے۔ وہ ان چیزوں کو سیدھا میرے سر پر مارتے۔

تین سال بعد انہوں نے اچانک یہ سلسلہ بند کر دیا۔ مجھے نہیں معلوم کیوں۔ کیا وہ مجھے مار مار کر تھک چکے تھے یا کوئی اور بات تھی؟ مجھے اس کی وجہ کبھی معلوم نہ ہوئی۔

آخری بار مار کھائے اب 7 برس گزر چکے ہیں مگر اب میرا ابو کے ساتھ ہمیشہ کے لیے ایک خوف کا تعلق قائم رہے گا۔ مجھے اب بھی ان سے ڈر لگتا ہے اور جب بھی وہ میرے آس پاس ہوتے ہیں تو میں ان کے سامنے نہ کچھ ایسا کہتی ہوں نہ کوئی کام کرتی ہوں جو ان کے اندر وہی شدید جذبات ابھارنے کا باعث بنیں۔

زخم تو بھلے ہی بھر چکے ہوں مگر درد اب بھی باقی ہے۔ ابو نے کسی ایسے انسان پر ہاتھ اٹھایا تھا جو یہ سمجھتا تھا کہ وہ ان سے پیار کرتے ہیں۔ اور اسی وجہ سے مجھے دوبارہ کسی کی شفقت اور پیار ملنے سے بھی ڈر لگتا ہے۔

انگلش میں پڑھیں


کیا آپ بھی بچپن میں ایسی صورتحال سے گزر چکے ہیں، یا کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں جو یہ سب جھیل چکا ہو؟ اپنا مضمون ہمیں اسی فارمیٹ میں [email protected] پر ای میل کیجیے۔

بے نام
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (22) بند ہیں

jami Jan 06, 2017 10:39am
yeh aik muashrti aalmiyya hy aur is mein bht sy log apna bachpan kho dety hein
Taimoor Ahmed Siddiqui Jan 06, 2017 11:25am
kis Qism ki kahani hai? Writer kia kehna chah raha hai? Baap Jallad hota hai? Agar kisi ka Baap zehni mareez tha to is ka ye matlab nahi kay apni baat ko istarh generalize kar k paesh kardiya jae. Khuda k liye. Baap kay rishtay ki hurmat ka khayal rukhen . Sub baap ap k baap ki tarah nhi hotay.
Nuzhat Jan 06, 2017 11:26am
as tshdud ko ap ki wlada bhi rok sakti thi wo bhi m brabr ki sreek rhi han, Allah hr bchy ko mehfoz rkhy.
Nuzhat Jan 06, 2017 11:25am
as tashdud ko apki walda bhi rok sakti thi, maa hony m bht taqat hoti hi, maa to bchon ki dhall hoti hy. Allah bchon ko is trah m maa bap sy mehfooz rkhy.
Qureshi Jan 06, 2017 11:41am
WTH with your dad?
Qazi Jan 06, 2017 11:56am
Betia to khuda ki naimat hoti hain..kash parents in bato KO samjy ur Allah hadiyat ata farmay.
Rayyan Jan 06, 2017 12:05pm
Why the women is so helpless in our society.She is helpless as a daughter,as sister and as wife.No one can ever answer this question.
عائشہ Jan 06, 2017 12:19pm
ہمارے معاشرے میں نفسیاتی امراض میں مبتلا اشخاص کی کوئی کمی نہیں۔ یہ بلاگ حقیقت سے زیادہ ایک افسانہ معلوم ہوتی ہے ۔ پتہ نہیں کیونکہ ان کی بے نام کی غیر حقیقی فسانے کو شائع کیا گیا۔ مجھے کوئی بیان کرسکتا ہے ۔ اس کو پڑھ کر قاری کو کیا ملے گا۔ ؟ اس افسانے میں کون سا معاشرہ اصلاح کا پہلو ہے ۔ میری بات نہ مطلب نہیں کہ میں تشدد کی حامی ہوں ۔ تشدد کسی پر بھی نہیں کرنا خاص کر بچوں پر تو بالکل بھی نہیں۔ لیکن لکھنے والوں کو بھی قارئین پر رحم کرنا چاہے ۔ ایک خوش گوار دن میں دکھی افسانہ پڑھ کسی نارمل شخص کو اچھا نہیں لگتا۔ میں شوہر ڈاکٹر سرجن ہے اور وہ لاہور پورسٹ مارٹم بھی کرتے ہیں۔ تو کیا وہ بھی اپنی کہانی لکھ کر قارئین کو پریشان کرسکتے ہیں۔ کیا ان کو یہ حق حاصل ہے ۔؟
Kamran Yousuf Jan 06, 2017 12:19pm
میری ذاتی رائے ہے کہ ایسے باپ کا کھوج لگا کر اُسے سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے۔ نا کہ نا سمجھ آنے والی اسٹوری چھاپ کر اپنا فرض پورا سمجھ کر خاموش بیٹھا جائے۔ میں اس بچی کے والد کی کچھ خاطر مدارت کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے اِس کا پتہ دیا جائے۔
مسز ثاقب Jan 06, 2017 02:08pm
مبھے تو سمجھ نہیں آئی کہ اس کے والد کیوں مارتے تھے...کیا والد کو کوئی نفسیاتی مسلئہ تھا.یا اس بچی کے ساتھ کو ٹی مسلئہ تھا..واضع نییں کر سکی اپنی تحریر میں ...مبجھے تو کہانی لگی ہے...اگر باپ کو غصہ کرنے کی عادت تھی تو سب پر کرتا ..صرف ایک بچی کیوں...
Waseem Jan 06, 2017 02:19pm
اوہ میرے خدایا۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے پاس کہنے کو کچھ بھی نہیں
FARRUKH Jan 06, 2017 03:25pm
Shocking....it made me frightened, even though i am a man .....even though i am 37 years old strong human being....i blame myself as well.....i was living in a society where such cruelties were being exercised ... i think it all happened due to lack of any criteria to be eligible for marriage.....here , age is only criteria....if a girl attained certain age...it is considered she should made marriage....if a boy is old enough to earn adequate money, he is perfectly eligible to be made master of a family in the shape of husband and father....this is not all about to be considered. There is much more wisdom required to be eligible for marriage....is he or she is emotionally , physically and most importantly mentally capable to run a married life where he or she has to listen to other person point of view...has to interact with other person person personality...other person likes / dislikes.....
FARRUKH Jan 06, 2017 03:26pm
situation becomes even more worsen when we already knew about mental state of someone and thinks that MARRIAGE is the solution of all ills....and then that psycho person ruined the life of one thinkfull woman but also tenderness of many coming children... if someone has no control over emotions or is involved with psychological problems , it is much better to handle own life only rather than making it further complicated through marriage and then further disastrous with making a series of children.. i have personal experience that children with broken family or with cruel children could not get rid of bad memories. They always live a frightened life till their end of life...no institute or psychological treatment can heal wounds of childhood...
FARRUKH Jan 06, 2017 03:29pm
i am sure the mother might not have experience much different than this child... girl is physically abused.....wife perhaps have sexual abuse.... cant elaborate further....its beyond my human strength.. i would like to say SORRY to this child from my side...as i feel myself equal responsible to not participate in stopping what happened to him....a BIG HUGG on all the wounds she experienced....
FARRUKH Jan 06, 2017 04:22pm
we cant imagine the painful process through which the writer has to gone to gather courage to share feelings suffered from brutal act lasted over 3 long years....
Hashir Jan 06, 2017 06:29pm
Bakwaas!!! Ya to ye khanai ha.agr aesa nhi ha to aesy baap ka nam or adress bi show kia jaey.
SHAH JEE Jan 06, 2017 07:08pm
بچپن سے یہ محسوس کیا ہے کہ جمعہ کے دن تپش کچھ زیادہ ہوتی ہے دوسری بات یہ کہ ابو دکان بند کرکے گھر میں ہوتے تھے باہر کوئی مصروفیت نہیں ہوتی تھی لہٰذا دن کا وقت گھر پر گزرتا اور اکثر ہماری شامت بھی آتی۔ ہماری ایک چھوٹی بہن معمولی سی بات پر بلند آواز میں روتی تھی جس پر اسے تنگ کرنے والے کی شامت آجاتی تھی اور ساتھ میں والدہ محترمہ کی بھی اور ہمیں یوں لگتا جیسے وہ جان بوجھ کر ایسا کرتی ہے۔ بچپن میں ہم بھی یہی سمجھتے تھے کہ صرف ہماری شامت ہی کیوں آتی ہے پھر جب شرارتوں کی عمر گزر گئی تو ہم سے چھوٹوں کی باری آگئی اور ہماری جان چھوٹی۔ محترمہ کے ساتھ ہمدردی تو ہے لیکن انہوں نے اپنی کہانی میں یہ بات بیان نہیں کی۔
barkhaya Jan 06, 2017 10:27pm
confused writer ....
Neelofer aman Jan 07, 2017 12:47am
......... Why he was doing this all... ....
syed Jan 07, 2017 09:13am
wt was the reason ? why he was beating her ? why only her ? this man should be caught and receive the same treatment even more?
ساجد الرحمان Jan 07, 2017 06:41pm
’’اس مار پیٹ کے بعد پیر کو اسکول واپس جانے سے پہلے میرے پاس اپنے زخموں کو بھرنے کے لیے صرف دو دن ہوتے۔’’ رائٹر کے اسے فقرے کو پڑھا جائے تو کچھ کھٹکتا ہے کہ ہفتہ کی چھٹی تو شاید کچھ سال قبل ہی منظورہوئی تھی ۔ بہر حال اللہ بہتر جانتا ہے ۔ اگر ایسا ہوا تو یہ واقعی ہی قابل مذمت ہے ۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ کبھی بھی کسی بچے پر ظلم نہ ہو ۔۔۔ خصوصاً شامی ، برمی ، فلسطینی بچے نہ جانے کیسی کیسی اذیت سے گزر رہے ہیں ۔ اللہ سب پر رحم والا معاملہ فرمائے ۔
Engr Numan Ashraf Jan 07, 2017 10:26pm
@Taimoor Ahmed Siddiqui There is no father in this story.In this case there is (Moron) or 'Jallad' and such Person need acid bath ASAP. And if this would have the case in europr or USA he should have been in the jail for more than 14 years. And stop being k writer kya kahna chah raha ha.

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024