سال 2017 کی سیاسی پیشگوئیاں
سیاست
’سول ملٹری کشیدگی کم ہوگی‘
1۔ پاناما پیپرز جیسے مزید انکشافات سامنے آئیں گے
لیکن اس حوالے سے کچھ خاص نہیں ہوگا کیونکہ آف شور کمپنیوں رکھنا تکنیکی طور پر قانونی ہے، تاہم ایسے انکشافات سے میڈیا میں مزید ہنگامہ کھڑا ہوگا۔
2۔ نواز شریف مزید تنہا ہوجائیں گے
ایسا ہمیشہ اس وقت ہوتا ہے جب آپ پارلیمنٹ کی طرف پیٹھ کرلیتے ہیں، جو کہ اگر آپ منتخب سیاستدان ہیں تو آپ کی والدہ کی طرح ہوتی ہے۔
اپوزیشن بڑھے گی اور اس حقیقت کے باوجود کہ یہ حامیوں سے زیادہ رہنماؤں پر مشتمل ہے، اپوزیشن مخصوص معاملات پر متحد ہوگی۔
اپوزیشن کی قیادت کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کو عمران خان سے مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے اور ایسا ہوگا۔
3۔ سول ملٹری کشیدگی کم ہوگی
ملٹری کی جانب سے سول حکومت پر کڑی نظر جاری رہے گی، اور یہ وہ چیز ہے جس پر انہیں مصالحت کی ضرورت ہے، لیکن گزشتہ سال ہم نے بداعتمادی اور عداوت کی جو سطح دیکھی اس میں کمی آئے گی۔
میں دراصل نئے آرمی چیف کی بلوچستان میں کی گئی تقریر سے بہت متاثر ہوں، انہوں نے بلوچوں کی سطح پر آکر بات نہیں کی اور نہ ہی ان کی آواز میں سرپرستی کا عنصر تھا، لیکن ہر کسی کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ادارے لوگوں سے بڑے ہوتے ہیں اس لیے امیدوں کو ہمیشہ محتاط ہونا چاہیے۔
’مسلم لیگ (ن) کی حکومت مستحکم ہوجائے گی‘
1۔ شریف برادران کی حکومت مزید مستحکم ہوجائے گی
حکومت کو جہاں پاناما گیٹ کی تحقیقات کا کانٹا چُبھ رہا ہے، وہیں ملٹری قیادت کی تبدیلی نے اسے کچھ مہلت دی ہے۔
منقسم اپوزیشن کی جانب سے کوئی سنجیدہ چیلنج نہ ہونے کے باعث وزیر اعظم اس بحران سے نکلتے نظر آتے ہیں جو ان کی حکومت کے لیے خطرہ بنا ہوا ہے۔
لیکن پاکستانی سیاست کے اتار چڑھاؤ کو نظر میں رکھتے ہوئے یہ امید نورسیدہ بھی ثابت ہوسکتی ہے۔
2۔ پیپلز پارٹی میں جان ڈالنے کی بلاول کی کوشش رک جائے گی
بلاول کی پارلیمانی سیاست کے آغاز سے شاید سیاسی لہریں جنم لیں لیکن آصف علی زرداری کا ملک کی مرکزی سیاست میں واپسی کا اقدام ان کے بیٹے کو پس پشت ڈال دے گا۔
3۔ تحریک انصاف پنجاب میں اپنی کچھ حمایت کھو دے گی
عمران خان ہمیشہ کی طرح اپنی احتجاجی تحریک جاری رکھیں گے جس سے وقتاً فوقتاً شریف حکومت پر دباؤ بڑھے گا، لیکن وہ حکومت کو مستعفی ہونے اور نئے انتخابات کے انعقاد پر مجبور نہیں کرسکیں گے۔
اس بات کے امکانات کم ہیں کہ پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی ساتھ مل کر مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو چینلج کریں، جبکہ سیاسی جماعتوں کو انتخابات کے لیے 2018 کا انتظار کرنا پڑے گا۔
نئے سربراہ کے تحت آرمی پچھلی نشست پر چلی جائے گی۔
اس بات کا بھی امکان ہے کہ پی ٹی آئی کے چند اہم رہنما جماعت سے اپنی راہیں جدا کرلیں گے۔
’مودی پاکستان سے بات کرنے پر مجبور ہوجائیں گے‘
1۔ نریندر مودی پاکستان سے غیر مشروط مذاکرات پر مجبور ہوجائیں گے
چین کی حوصلہ افزائی، پاکستان کے خلاف زہریلی پالیسیاں اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کی پالیسی کے باعث نریندر مودی کے پاس انتخاب کے مواقع کم رہ جائیں گے۔
دونوں ممالک کے درمیان یہ قربت تجارتی تعلقات بہتر بنانے، اور چین ۔ پاک اقتصادی راہداری میں بھارت کی شمولیت سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل پر پیدا ہوگی، جس سے کشمیریوں سمیت پورے خطے کو فائدہ ہوگا۔
2۔ پیپلز پارٹی راکھ سے دوبارہ ابھرے گی
بلاول کی سڑکوں پر جارحانہ موجودگی اور آصف علی زرداری کی مفاہمتی سوچ کے باعث پارٹی کی تجدید حیات ہوگی۔
دوسری جانب پارلیمنٹ کو احتساب کا عمل اور نیب کو مضبوط بنانے پر مجبور کیے جانے کے باعث پاناما پیپرز کا معاملہ جلد بند ہوجائے گا۔
3۔ سوشل میڈیا پاکستان کے مرکزی میڈیا کو اہم معاملات پر توجہ دینے پر مجبور کردے گا
بڑھتے ہوئے زبانی اور اثر رکھنے والے سوشل میڈیا کے زیر دباؤ پاکستانی میڈیا ان مسائل و معاملات پر بھی توجہ دینے پر مجبور ہوجائے گا جو ایک عام آدمی کو متاثر کرتے ہیں، جن میں پینے کے صاف پانی، انسانی صحت کے لیے موزوں خوراک اور حکومت کی جانب سے عوام کی سماجی خدامت جیسے معاملات بھی شامل ہیں۔
خاکے بشکریہ فیکا
یہ رپورٹ یکم جنوری 2017 کو ڈان سنڈے میگزین میں شائع ہوئی۔