• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm

چیئرمین نیب کی جانب سے 'پلی بارگین' قانون کا دفاع

شائع December 28, 2016

قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین قمر زمان چوہدری پلی بارگین قانون کے دفاع میں میدان میں آگئے اور ان کا کہنا ہے کہ نیب نے ہمیشہ آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں ادا کی ہیں۔

نیب کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ پلی بارگین کا قانون صرف پاکستان میں نہیں بلکہ کئی ملکوں کے قوانین میں موجود ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ اس قانون کی وجہ سے غبن اور لوٹ مار کرنے والوں سے بھاری مقدار میں رقوم برآمد ہوئیں اور انہیں قومی خزانے میں جمع کرایا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: نیب سے 'پلی بارگین' کا اختیار واپس لے لیا گیا

قمر زمان چوہدری نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ قومی احتساب آرڈیننس کے سیکشن 25 بی کے تحت 'ہر مجرم کو حق حاصل ہے کہ وہ پلی بارگین کی درخواست دائر کرسکے'۔

انہوں نے کہا کہ قانونی ماہرین اور کیس کو ذہن میں رکھتے ہوئے پلی بارگین کی درخواست پر کا تفصیلی جائزہ لیا جاتا ہے اور اس کے بعد منظوری کے لیے درخواست احتساب عدالت کو بھیج دی جاتی ہے۔

نیب کی جانب سے جاری بیان کے مطابق پلی بارگین قانون لاگو ہونے کے بعد سے نیب نے 285 ارب روپے وصول کیے جبکہ حالیہ دنوں میں نیب نے 45 ارب روپے بازیاب کیے۔

چیئرمین نیب نے یہ بھی کہا کہ پلی بارگین قانون کے تحت وصول ہونے والی رقم کا ایک ایک روپیہ قومی خزانے میں جمع کرایا جاتا ہے۔

مزید پڑھیں: ’6 ارب میں40 ارب روپے کی کرپشن نہیں ہوسکتی‘

انہوں نے کہا کہ پلی بارگین قانون کے تحت جو بھی شخص اعتراف جرم کرتا ہے وہ قومی سیاست میں 10 سال تک حصہ لینے کا اہل نہیں رہتا، وہ بینک یا کسی اور مالیاتی ادارے سے قرض لینے کے لیے بھی نا اہل ہوجاتا ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ 'اگر اعتراف جرم کرنے والا سرکاری ملازم ہو تو وہ ملازمت سے بھی برطرف ہوجاتا ہے'۔

چیئرمین نیب نے اس تاثر کو رد کیا گی پلی بارگین مکمل ہونے کے بعد نیب کو بھی اس کا حصہ ملتا ہے، انہوں نے کہا کہ جو بھی رقم برآمد ہوتی ہے وہ قومی خزانے میں چلی جاتی ہے۔

واضح رہے کہ 22 دسمبر کو ڈائریکٹر جنرل آپریشنز نیب نے سیکریٹری خزانہ مشتاق احمد رئیسانی کی جانب سے پلی بارگین کے بدلے حوالے کی جانے والی رقم اور جائیداد کی تفصیل بھی میڈیا کے سامنے پیش کی تھیں۔

ظاہر شاہ کا بتانا تھا کہ مشتاق احمد رئیسانی 65 کروڑ 32 لاکھ روپے کی رقم سمیت 3ہزار 300 گرام سونا نیب کے حوالے کرچکے ہیں، اس کے علاوہ کوئٹہ میں 6 کروڑ روپے مالیت کا شاندار گھر اور ڈی ایچ اے کراچی میں واقع 7 کروڑ روپے مالیت کا گھر بھی ان کی جانب سے نیب کے حوالے کیا جاچکا ہے۔

ڈی جی آپریشنز نیب کا بتانا تھا کہ یہ جائیداد مئی میں سامنے آنے والی 11 جائیدادوں کے علاوہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سیکریٹری خزانہ بلوچستان کے گھر سے 73 کروڑ روپے برآمد

یاد رہے کہ رواں سال مئی میں مشتاق احمد رئیسانی کے گھر سے 73 کروڑ روپے کی برآمدگی کے بعد کراچی کی ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی میں بھی ان کے نام پر خریدی گئی جائیدادوں کی موجودگی کا انکشاف ہوا تھا۔

ظاہر شاہ کا کہنا تھا کہ پہلے سے قبضے میں موجود ان 11 جائیدادوں کی قیمت خرید ایک ارب 25 کروڑ روپے کے قریب ہے اور فروخت سے 2 ارب روپے تک حاصل ہو جائیں گے۔

ڈی جی آپریشنز نیب کے مطابق ان جائیدادوں میں 2 کمرشل پلازہ، تین 500 مربع گز کے شاندار بنگلے، 3 ایک ہزار مربع گز کے بنگلے جبکہ 6 رہائشی پلاٹس شامل ہیں۔

قومی احتساب بیورو نے سیکریٹری خزانہ بلوچستان مشتاق احمد رئیسانی اور صوبائی مشیر خزانہ خالد لانگو کے فرنٹ مین سہیل مجید شاہ کی اربوں روپے کے کرپشن اسکینڈل میں پلی بارگین کی درخواست منظور کی تھی۔

چیئرمین قمر زمان چوہدری کے زیر صدارت ہونے والے نیب کے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں طے پایا تھا کہ پلی بارگین کے تحت مشتاق رئیسانی اور سہیل مجید شاہ 2 ارب روپے سے زائد نیب میں جمع کرائیں گے۔

ترجمان نیب کے مطابق پلی بارگین کے تحت یہ نیب کی تاریخ کی سب سے بڑی وصولی ہوگی۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024