شیخ ایاز: مرنا ہے ہر انسان کو پر یوں نہ مریں گے ہم
شاعری کیا ہے؟ اسے کسی ایک تعریف میں مقید نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کہیں یہ انسانی جذبات و احساسات کی عکاسی کرتی ہے تو کہیں اسے الفاظ کی جادوگری بھی کہا جاتا ہے، یا پھر بقول غالب "آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں." ارسطو نے تو شاعری کے حوالے سے یہ تک کہا ہے کہ "شاعری تاریخ سے زیادہ فلسفیانہ ہے۔"
مشرق اور مغرب کے ادب کے حوالے سے ایک واضح فرق دیکھا جاسکتا ہے۔ مشرق نے ہمیشہ شاعری اور افسانے پر زیادہ زور دیا ہے، جبکہ مغرب نے نثر کی جانب زیادہ توجہ دی ہے۔
اور اگر پاک و ہند کی بات کی جائے تو ہمیں شاعری کے آکاش پر گراں قدر نام جھلملاتے ستاروں کی مانند نظر آتے ہیں۔ کبھی کبھی ذہن اس کشمکش میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ کس شاعر کے شعر پر داد دی جائے اور کس پر قربان ہوا جائے۔
ہندی-اردو، پنجابی اور سرائیکی شاعری کی طرح سندھی شاعری بھی ادب کی دنیا میں ایک الگ شناخت اور مقام رکھتی ہے۔ میوں شاہ عنایت سے لے کر شاہ لطیف، سچل، سامی، بیدل بیکس اور کشنچند بیوس تک ان تمام شعراء کی ایک لمبی فہرست ہے، جنہوں نے اپنے کلام سے سندھی شاعری کو تازگی بخشی ہے۔
جدید سندھی شاعری میں ایک نام ایسا بھی ہے جس کے بنا سندھی شاعری کا وجود کوئی معنی نہیں رکھتا بلکہ سندھی شاعری کا کلام نامکمل سا لگتا ہے۔ اسی شاعر نے اپنے کلام سے ایسا جادو جگایا جوکہ آج بھی پڑھنے والوں کو اپنے بس میں کر دیتا ہے۔ وہ نام ہے شیخ ایاز کا۔ ان کے بنا سندھی شاعری ایسے ہے جیسے میر تقی میر اور غالب کے بنا اردو شاعری، جیسے نزار قبانی کے بنا عربی شاعری یا پھر جیسے حافظ کے بنا فارسی کلام۔ جس طرح ان شاعر کا ایک تعارف سندھی ادب ہے، اسی طرح سندھ کا ایک تعارف شیخ ایاز ہیں۔
شیخ ایاز کو اپنی شاعری پر ملکہ حاصل تھا۔ انہوں نے سندھی شاعری میں جو تجربات کیے وہ بے حد کامیاب بھی رہے۔ اس کی اہم ترین وجہ یہ بھی تھی کہ انہوں نے خود کو ہمیشہ شاعر کے روپ میں ہی دیکھنا چاہا تھا۔ شاعری سے ان کا رشتہ بچپن سے ہی قائم ہو چکا تھا۔
ان کے بچپن کے دنوں میں جب ان کے اشعار ’سندھو‘ میگزین میں چھپنے لگے اور ایک مرتبہ ان کی ملاقات میگزین کے ایڈیٹر سے ہوئی تو انہوں نے یہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کہ جو اشعار وہ اپنے میگزین میں شیخ ایاز کے نام چھاپ رہے ہیں، وہ اسی نوجوان کے ہیں۔
اس کے بعد اس میگزین میں تین برس تک ان کی کوئی تخلیق نہیں شایع ہوسکی۔ مگر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ کسی بھی میگزین اور اخبارات کے ادبی صفحات ان کے اشعار کے بنا نامکمل سے سمجھے جاتے تھے۔
شیخ ایاز نے اپنے شعر کی ابتدا اردو میں شعر کہنے سے کی۔ ان کے اردو کلام میں "حلقہ میری زنجیر کا"، "نیل کنٹھ اور نیم کے پتے" اور "بوئے گل نالہء دل" کتابیں شامل ہیں۔ چوں کہ سندھی ان کی مادری زبان تھی لہٰذا ان کے لیے سندھی میں شعر کہنا قدرے آسان تھا، مگر ان کی اردو شاعری پڑھنے پر بھی یہ گمان تک نہیں ہوتا کہ وہ سندھی کے بے مثال شاعر ہیں۔
ان کی اردو میں لکھی گئی نظم ’میرے دیدہ ورو میرے دانشورو‘ پڑھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اردو میں کس انداز سے شاعری کی ہے:
میرے دیدہ ورو
میرے دانشورو
پاؤں زخمی سہی
ڈگمگاتے چلو
راہ میں سنگ و آہن
کے ٹکراؤ سے
اپنی زنجیر کو
جگمگاتے چلو
رود کش نیک و بد
کتنے کوتاہ قد
سر میں بادل لیے
ﮨﯿں ﺗﮩﯿﮧ کیے
بارش زہر کا
اک نئے قہر کا
میرے دیدہ ورو
میرے دانشورو
اپنی تحریر سے
اپنی تقدیر سے
نقش کرتے چلو
تھام لو ایک دم
یہ عصائے قلم
ایک فرعون کیا
لاکھ فرعون ہوں
ڈوب ہی جائیں گے
اس بات کا اعتراف انہوں نے خود بھی کیا ہے کہ "میں نے محسوس کیا کہ ہر لفظ کی ایک روح ہوتی ہے جو کہ برسوں کی ارتقا سے گزرتی ہے۔ اور یہ روح فقط مادری زبان میں ہی گرفت میں آسکتی ہے۔ اس لیے میں نے اردو شاعری ترک کردی۔ کیوں کہ اردو میری مادری زبان نہیں تھی۔ مین اپنے فن کو مادری زبان میں ہی منطقی انجام تک پہنچا سکتا تھا۔"
سندھی میں نظم کی روایت کو اپنانے والے شاعر کشنچند بیوس نے جب مغربی صنف کو سندھی زبان کے سانچے میں ڈھالا تو وہ سندھی ادب اور ادبی روایت کا حصہ بن گئی۔ اسی تسلسل کو شیخ ایاز نے قائم رکھا۔
اس سے قبل جو سندھی شاعری تخلیق ہو رہی تھی وہ فارسی کے زیر اثر تھی۔ الفاظ سے لے کر فنی ترکیبات بھی فارسی زدہ تھیں، مگر ایاز نے ماضی کی تمام شاعری پر ضرب لگا کر اسے سندھی روپ دیا، اور یہ ثابت کر دیکھایا کہ سندھی زبان میں شاعری کی جائے تو وہ کسی بھی لحاظ سے عالمی معیار سے کم نہیں ہے۔ پھر ایک ایسا وقت بھی آیا کہ سندھ کے لوگوں کی زبانوں پر ان کے لکھے ہوئے گیت ہی تیرنے لگے۔
ون یونٹ کا زمانہ سندھ پر پر قہر بن کر ٹوٹا، اسی زمانے میں سندھ کے کئی شعراء محمد خان مجیدی، نیاز ہمایونی، ابراہیم منشی، تنویر عباسی، سرویچ سجاولی اور شیخ ایاز سمیت کئی اسے نام ہیں جنہوں نے اپنے کلام سے ون یونٹ کی دیوار میں دراڑیں ڈالنا شروع کیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب خط کے پتے پر بھی سندھ لفظ لکھنا ممنوع تھا، مگر سندھ میں اس زمانے میں بھی شیخ ایاز کے اشعار ایک ہتھیار کا کام کرتے رہے۔
جب سندھی شاعری محبوب کی زلف اور اس کی ابرو کی جنبش کے حصار میں پھنسی ہوئی تھی، تو 60 اور 70 کی دہائیاں ایسی تھیں کہ سندھی شاعری میں مزاحمتی و ترقی پسندی کا عنصر شامل ہو گیا۔ یہ مزاحمت اتنی شدید تھی کہ اب سندھی میں مزاحمتی شاعری کا ایک الگ حصہ ہے۔ اسی زمانے میں افسانہ بھی مزاحمتی طرز پر لکھا جانے لگا۔ اس حوالے سے شیخ ایاز نے خود کہا کہ سندھ میں جو ترقی پسند ادب اس وقت لکھا جا رہا ہے وہ برصغیر کے تمام ادب سے جاندار ہے۔
دھو دھڑام
اُف غلام
سیج پر غریب کی
آنکھ لگ گئی کہیں
آہ بد نصیب کو
کچھ خبر نہیں ہوئی
بادشاہ کا پلنگ
نرم نرم رنگ رنگ
چیخ کر گئی کنیز
پاندان۔۔۔۔۔ پاندان
نیند ہے عجیب چیز
خواب میں رہا جوان
چوبدار پل پڑا
تب کہیں غلام اٹھا
آسمان اور زمین
جیسے گھومنے لگے
کس طرح کرے یقین
خواب سا اسے لگے
ایک شور ہر طرف
نامراد یہ مجال
شاہ اس پلنگ پر
سو چکا ہے ماہ و سال
آہ نفس سگ مثال
لعنتیں کرے ضمیر
لات مارتا وزیر
دھو دھڑام
اُف غلام
جب کسی شاعر کا کلام عام لوگوں کی زبان بن جائے تو اس کی سوچ بندوق کی گولی سے بھی زیادہ خطرناک ہو جاتی ہے۔ شیخ ایاز اپنے گیتوں اور نظموں سے ذہنوں کی آبیاری کر رہے تھے چنانچہ یہ لازمی ہو گیا تھا کہ وہ پابند سلاسل کیے جائیں۔ قید کے ایام میں انہوں نے "ساہیوال جیل کی ڈائری" کے عنوان سے ایک کتاب تحریر کی، جس میں ایک جگہ انہوں نے لکھا ہے۔
"روز جمعدار مجھے ایک بلیڈ داڑھی بنانے کے لیے صبح کو دے جاتا ہے اور پھر بار بار پوچھنے آتا ہے کہ میں نے داڑھی بنائی ہے یا نہیں۔ آخرکار اس سے تنگ آکر داڑھی بنا لیتا ہوں اور بلیڈ اسے واپس کر دیتا ہوں۔ شاید اسے یہ خوف ہے کہ میں بلیڈ سے اپنا گلا نہ کاٹ لوں۔ اسے کیا پتہ کہ اس گلے میں ابھی ہزاروں گیت ہیں، جو کہ کسی زندان کی دیوار کو لرزا کر ڈھیر کرسکتے ہیں۔ میں اسے کاٹنے کو تیار نہیں ہوں۔"
جب کراچی سے کشمور تک لوگ گہری نیند میں سوئے ہوئے ہوتے تھے، وہ اس وقت ساری رات سندھ کے لوگوں کو جگانے کے لیے اپنے قلم کی دوات ختم کرتے رہتے تھے۔ کئی گیت، نظمیں اور غزل ہرن کی مانند چھلانگ مار کر ان کے ذہن کی زمین پر دوڑے چلے آتے تھے۔ ان کے لیے شاعری محض شاعری نہیں تھی بلکہ تمام عالم کے مظلوم طبقات کی آواز تھی۔ جس میں ان کے اپنے رت جگے بھی شامل تھے۔
سندھ کے کئی سیاسی کارکنان اور سیاسی قائدین ان کے اشعار قید خانوں میں پڑھا کرتے تھے۔ کون سا ایسا جلسہ یا پروگرام ہوگا جس میں ان کے لکھے ہوئے گیت نہ پڑھے جاتے ہوں۔
ان کی شاعری کے جتنے بھی مجموعے شایع ہوئے ان پر نظرثانی کے فرائض سندھ کے نامور دانشور اور ماہر تعلیم محمد ابراہیم جویو کے سپرد ہوا کرتی تھی۔ انہیں اپنی مادری زبان میں شاہکار اشعار لکھنے کے لیے بھی ابراہیم جویو نے ہی آمادہ کیا تھا۔
ان کی کتاب "وجون وسن آئیوں" کے پیش لفظ میں محمد ابراہیم جویو لکھتے ہیں کہ "قومیں جب خود کو پہچاننا اور سمجھنا چاہتی ہیں، تب سب سے پہلے وہ اپنی زبان کو جانتی اور سمجھتی ہیں، کیوں کہ زبان ہی ان کی شناخت کا حقیقی نشان ہے۔ ہر قوم کی اپنی پہلی زبان ہوتی ہے۔ ادھار میں لی گئی زبان اور یا ملی جلی زبان پر چلنے والی قوم کی زندگی بھی جگاڑی اور کھوکھلی ہوتی ہے۔ زبان جتنی خالص ہو، اس قوم کے لیے خود کو پہچاننا اور اپنی آزادی حاصل کرنا آسان ہو جاتا ہے۔
اگر ادب کو قومی ادب ہونا ہے اور قومی ادب کو آگے بڑھ کر صحیح معنی میں عوامی ادب ہونا ہے، تو اس کے لیے ادب کی زبان کو چھان کر قومی زبان یا عوامی زبان بننا پڑے گا۔ قومی ادب کی راہ میں دیگر عناصر کے ساتھ ایاز نے اپنی شعری زبان کو جو قومی اور عوامی رنگ دیا ہے، وہ سندھی قوم اور اس کے مستقبل کے لیے آب حیات سے کم نہیں ہے۔"
ان کی کتابیں ’کپر تھو کُن کری‘، ’بھونئر بھری آکاس‘، ’وجون وسن آئیوں‘، ’جے کاک ککوریا کاپڑی‘، اور ’کلھے پاتم کینرو‘ ضبط کر لی گئیں تھیں۔ مگر جب طویل عرصے بعد وہ کتابیں منظرِ عام پر آئیں تو انہوں نے پڑھنے والوں کی دلوں کو ایک بار پھر آگ لگا دی۔
جس زمانے میں شیخ ایاز پر رجعت پسندوں نے دشنام اور فتوؤں کی سنگ باری کی تو اس وقت سندھ کے نامور قانون دان، سیاستدان و دانشور رسول بخش پلیجو نے ان کے دفاع میں ایک کتاب "اندھا اوندھا ویج" کے نام سے لکھی۔ یہ کتاب ایک طرف تو ایاز کے کلام کے دفاع میں تھی تو دوسری جانب ان رجعت پسندوں کے لیے ایک ایسا طمانچہ ثابت ہوئی کہ اس کے بعد ایاز پر انگلی اٹھانے کی کسی کی ہمت تک نہیں ہوئی۔
اسی کتاب میں رسول بخش پلیجو لکھتے ہیں کہ "ایاز کی شاعری کسی فرد کی خالص ذاتی کرامت نہیں، یہ سندھ بلکہ دنیا کے اندر شعر کی صدیوں کی ارتقا کی خاص منزل کا ایک خوبصورت اور شاندار نشان ہے۔ مشرق و مغرب کے قدیم اور جدید شعری ورثے شیکسپیئر، بائرن، شیلے، کیٹس، بودلیئر، میران، خیام، رومی، حافظ لطیف، سامی، سچل، بیوس کی شاعری کے پسمنظر کی غیر موجودگی میں ایاز کی شاعری کا وجود میں آنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
"اسی طرح اگر انہیں شاہ عنایت، لطیف، سچل، سامی اور بیدل کی سنواری اور سجائی ہوئی سندھی زبان اور انداز بیاں ورثے میں ملتے تو اس میں وہ دلربائی، وہ گہری کشش اور نفاست ہرگز نہ ملتی۔ ایسے ہی مشرق اور خاص طور پر سندھ میں مخصوص سماجی اور تاریخی حالت اور موجودہ سماجی، فکری ماحول کے سوائے بھی یہ شاعری نہ ہوتی جو ہے۔
مگر ان تمام عناصر کے باوجود بلکہ کسی حد تک ان تمام باتوں کی وجہ سے ایاز کی شاعری سندھ میں موجودہ دور، اس صدی کی عظیم ترین واحد ادبی حقیقت ہے"۔
ایاز کے دیگر تخلیقی کمالات میں سے ایک کمال سندھی شاعری کے عظیم کلاسیکی شاعر شاھ عبداللطیف بھٹائی کے کلام کو اردو میں ترجمہ کرنا تھا۔ کسی بھی شاعر کے کلام کو منظوم ترجمہ کرنا قدر مشکل کام ہے یہ شیخ ایاز کی شاعرانہ بصیرت تھی کہ وہ اس کام کو بھی بخوبی نبھا پائے۔ ان کا ارادہ شاہ لطیف کی حیات و افکار پر ناول لکھنے کا بھی تھا مگر یہ کام ان کی زندگی میں تکمیل نہ پا سکا۔
مست و بیخود بنا گیا کوئی
دام ایسا بچھا گیا کوئی
بزم گیتی پہ چھا گیا کوئی
کتنے جلوے دکھا گیا کوئی
گنج عرفان لٹا گیا کوئی
**
نہ کانوں میں صدائے کن فکان تھی
عدم کے بطن میں کب سے نہاں تھی
کسی حسن ازل کی راز دان تھی
نگاہ محرمانہ میں عیاں تھی
**
لبوں پہ نالہائے جانستاں ہیں
نہ جانے کیوں تصور گراں ہیں
محبت کے انوکھے امتحاں ہیں
(شاہ لطیف کا کلام)
ان کا سندھی زبان میں ایک اور بہتریں کام یہ بھی رہا کہ انہوں نے منظوم ڈرامے بھی تخلیق کیے، جن میں "رنی کوٹ جا دھاڑیل"، "بھگت سنگھ کھے پھاسی"، اور "کے جو بیجل بولیو" جیسے منظوم ڈرامے شامل ہیں۔
یہ صرف منظوم ڈرامے ہی نہیں بلکہ ایک ایسی تاریخ ہے جسے شیخ ایاز نے جلا بخشی ہے۔ ان کا کلام اردو میں الیاس عشقی اور فہمیدہ ریاض نے ترجمہ کیا ہے جبکہ پنجابی میں شیخ ایاز کے کلام کا منظوم ترجمہ پنجابی کے مشہور و معروف ادیب احمد سلیم نے کیا ہے۔
مگر آج بھی ان کی شاعری کے حوالے سے اس بات پر افسوس کیا جاسکتا ہے کہ ان کو مترجم بہتر نہ ملنے کی وجہ سے ان کے کلام کا دنیا کی دیگر عالمی سطح کی زبانوں میں ترجمہ نہیں ہو پایا ہے۔

انہوں نے ہی کہیں اس بات کا اظہار کیا ہے کہ میں نے زبان میں مصوری کی ہے۔ میری شاعری میں جتنی بھی تصاویر ہیں، اتنی کسی مصور کی مصوری میں بھی نہیں ہوتی ہیں۔ میں تو سفر میں شاعروں کو بھی ساتھ لے کر چلنا چاہتا ہوں۔ کون سے شاعر ہوں؟ ایک برونو، جو کہ اطالوی شاعر تھا اور جسے زندہ جلایا گیا تھا۔ اس کی آگ کے شعلوں نے مجھے بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ دوسرے بھٹائی۔ وہ مجھ سے لاڑ اور تھر کے سفر میں ساتھ تھے۔ میں نہ صرف انہیں دیکھتا رہا تھا بلکہ گفتگو بھی کر رہا تھا۔
سندھی کے رومانوی اور مزاحمتی شاعر ہم سے 28 دسمبر 1997 کو بچھڑ گئے، مگر ان کا کلام ہمیشہ ہمیں یہ یاد دلاتا رہتا ہے کہ پھر کسی ایاز کو جنم لینے کے لیے صدیاں درکار ہیں۔
اس دریا میں جو دہشت ہے
اک دن محشر بن جائے گی
تو اور میں تو بس سندھو میں
اک لہر ابھارے جائیں گے
مرنا ہے ہر اک انسان کو
پر یوں نہ مریں گے ہم
ساتھی کوئی آگ لگا، شعلے بھڑکا
اک نئے کنارے جائیں گے
(شیخ ایاز)
تبصرے (3) بند ہیں