جسٹس انور ظہیر جمالی کے دور کا تنقیدی جائزہ
ججوں، خاص طور پر چیف جسٹس آف پاکستان کے پاس اشرافیہ و عوام سمیت دیگر افراد کے بارے میں فیصلہ دینے کا آئینی اختیار اور ذمہ داری موجود ہے۔
تو اب جبکہ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی ریٹائر ہو رہے ہیں تو کوئی کیوں اور کیسے ان کے عدالتی دور کا جائزہ لے؟
'کیوں' کا جواب تو آسان ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ وکلاء/عدالتی تحریک کے تحفوں میں سے ایک تحفہ یہ بھی ہے کہ اب عدالتی رویے اور کارکردگی کا تنقیدی جائزہ لینا کوئی شجرِ ممنوعہ نہیں ہے، کیوں کہ ججز جانتے ہیں کہ عدالت کا جواز عوام کی قبولیت سے بنتا ہے، اور اگر جائز عوامی تنقید کو توہینِ عدالت کے زمرے میں لایا جائے، تو عوام کی قبولیت ختم ہوجاتی ہے۔
دوسری بات یہ کہ اگر وزیرِ اعظم اور مسلح افواج کے سربراہان پر بھی عوامی سطح پر تنقید کی جا سکتی ہے، تو ایسی تنقید سے چیف جسٹس آف پاکستان کو مبراء قرار دینا بہت مشکل ہوگا۔
مگر چیف جسٹس جمالی کی کارکردگی کا جائزہ لینا دو وجوہات کی بناء پر نہایت مشکل ہوگا۔ پہلی بات یہ کہ ان سے پہلے والے چار چیف جسٹس — افتخار محمد چوہدری، تصدق حسین جیلانی، ناصرالملک اور جواد ایس خواجہ — پاکستان کے پیدا کردہ بہترین چیف جسٹسوں میں شامل ہیں۔
یہ چاروں چیف جسٹس خامیوں سے پاک نہیں تھے، اور انہوں نے بھی غلطیاں کی ہیں، مگر انہیں جمہوریت، آئین، انصاف، اور عدالتی آزادی کے لیے مؤثر کردار ادا کرنے کے لیے جانا جاتا ہے۔ اس لیے چیف جسٹس جمالی کے سامنے ایک بہت مشکل راستہ تھا۔
دوسری بات یہ کہ وکلاء/عدالتی تحریک کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان کا عہدہ ایک نہایت طاقتور اور عوامی عہدے کی صورت میں سامنے آیا، اس لیے موجودہ چیف جسٹس سے زبردست توقعات وابستہ کر لینا اور اس عہدے پر ہونے کے دوران ان کی کارکردگی کا تنقیدی جائزہ لیا جانا قدرتی تھا۔
معمول کی عدالتی کارروائی
چیف جسٹس جمالی کا سپریم کورٹ میں تقرر 2009 میں کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ جج کی حیثیت سے جسٹس جمالی کے تحریر کردہ کئی فیصلوں کا جائزہ لینے پر معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے قوانین کی ترقی میں معاون شاید ہی کوئی اہم کام کیا ہو۔
پڑھیے: کون ہے مظہر حسین کا قاتل؟
حیران کن بات یہ ہے کہ ایک سال سے بھی زیادہ عرصے تک چیف جسٹس رہنے کے باوجود شاید ہی کوئی قانونی یا عوامی اہمیت کا حامل فیصلہ ہے جو انہوں نے تحریر کیا ہو، 'مردم شماری کیس' میں ایک مختصر فیصلے کے علاوہ۔
اس کے علاوہ انہوں نے عدالتی نظام میں موجود بڑے مسائل مثلاً مقدمات کے فیصلے میں تاخیر، یا غریبوں اور بے اختیار لوگوں کو انصاف کی عدم دستیابی جیسی خرابیوں کو دور کرنے لیے بمشکل کوئی اہم اقدامات کیے ہیں۔
جو چیز خاص طور پر مایوس کن تھی، وہ یہ کہ بطور چیف جسٹس انہوں نے جابجا عوامی تقریروں میں ججوں کے عدالتی احتساب پر زور دیا، مگر جب مفادِ عامہ کی ایک درخواست میں اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے خلاف درخواستوں کے بارے میں معلومات، اور ان کے فوری فیصلے کی استدعا کی گئی، تو انہوں نے یہ کہہ کر درخواست خارج کر دی کہ عدالتی احتساب مکمل طور پر خفیہ ہونا چاہیے۔
اس لیے یہ لگتا ہے کہ سپریم کورٹ میں ان کا دور 'معمول کی عدالتی کارروائی' تھا، جس دوران انہیں یہ اندازہ بالکل نہیں تھا کہ یہ عہدہ انہیں کس قدر طاقت و اختیارات دیتا ہے، اور لوگوں کی اس عہدے سے کیا توقعات وابستہ ہیں۔
عدالتی کمزوریاں
ان کے دور میں عدالتی نظام کی آزادی پر کئی حملے ہوئے۔ ماہِ اگست میں کوئٹہ کے وکلاء پر حملہ پاکستان کی تاریخ اور جدید قانونی تاریخ میں وکلاء کا سب سے بڑا قتلِ عام تھا۔ اس کے علاوہ صوبائی چیف جسٹس کے بیٹے کا اغوا، اور فوج کی سماجی اور قانون کے برعکس سیاسی قوت میں اضافہ بھی دیکھا گیا جس نے آئینی حکمرانی کو شدید نقصان پہنچایا۔
جہاں تک دوسری بات کا تعلق ہے، تو ان کے دور میں سپریم کورٹ نے فوج کی قانون کے برعکس قوت کو کم کرنے کے لیے کوئی خاص اقدامات نہیں اٹھائے۔ درحقیقت افسوسناک طور پر ان ہی کے دور میں فوجی عدالتوں کی دی گئی سزائے موت کو برقرار رکھنے کا فیصلہ دیا گیا۔
چیف جسٹس جمالی نے کئی 'سخت' تقریریں اور عدالتی ریمارکس دیے ہوں گے، مگر جسٹس چوہدری، جنہوں نے سیاسی اور فوجی اشرافیہ کو قابلِ احتساب ٹھہرایا، جسٹس تصدق، جنہوں نے اقلیتوں کے بارے میں ایک تاریخی فیصلہ دے کر مذہبی انتہاپسندوں کو نکیل ڈالنے کی کوشش کی، جسٹس ناصر الملک، جنہوں نے انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کی تاریخی رپورٹ لکھ کر سیاسی خانہ جنگی کو روکا، اور جسٹس جواد ایس خواجہ، جنہوں نے کرپٹ ترین اور طاقتور ترین کاروباری اشرافیہ کو قابلِ احتساب ٹھہرایا، کے برعکس جسٹس جمالی نے تھوڑے ہی عدالتی ایکشن لیے ہیں۔ یعنی خالی برتنوں کے کھنکھنانے جیسا معاملہ تھا۔
ذاتی تنازعات
قرآن خبردار کرتا ہے کہ "تمہاری دولت اور بچے تمہارے لیے آزمائش ہیں" (سورۃ التغابن، آیت 15)۔ اسی تناظر میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس خلجی عارف نے ارسلان افتخار کیس میں خبردار کیا تھا کہ ججوں کے گھرانے کے ارکان کو "اپنی ذاتی اور عوامی معاملات اور رویوں میں شدید احتیاط کرنے کی ضرورت ہے۔"
پڑھیے: انصاف کے استحصال کی کہانی، ایک وکیل کی زبانی
مجھے یہ کہتے ہوئے نہایت افسوس ہے کہ عدالت کی راہداریوں اور وکلاء کے درمیان چیف جسٹس کے گھرانے کے بارے میں اقرباء پروری کی داستانیں عام تھیں۔
یہ اہم نہیں ہے کہ آیا اقرباء پروری دانستہ تھی یا نہیں، مگر اقرباء پروری کے بارے میں عوامی تاثر، اور "ذاتی اور عوامی معاملات اور رویوں میں شدید احتیاط" کے ذریعے اس تاثر کو زائل کرنے میں ناکامی نے عدالتی ساکھ کو نقصان پہنچایا۔
شاید ان کی بالکل متضاد مثال، خود احتسابی کی مثال قائم کرنے والے جسٹس اقبال حمید الرحمان کی ہے جو ایمانداری کے لیے مشہور ہیں اور وکلاء/عدالتی تحریک میں نمایاں کردار ادا کر چکے ہیں۔
انہوں نے چیف جسٹس جمالی کے دور میں اس وقت استعفیٰ دے دیا تھا جب اس بارے میں صرف ہلکا سا اشارہ ہوا تھا کہ انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپنے وقت کے دوران غلط انتظامی تقرریاں کی تھیں۔
چیف جسٹس جمالی ایک ایسے ادارے کے سربراہ ہیں، جہاں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے زیادہ تر ججز ایمانداری اور عوامی خدمت کا احساس رکھتے ہیں۔ مگر پھر بھی وہ یہ محسوس کرنے میں ناکام رہے کہ وکلاء/عدالتی تحریک کے بعد جنم لینے والی 'نئی' اور کھلی عدالتی دنیا سیاسی، فوجی اور قانونی اشرافیہ کی پرانی اور بند عدالتی دنیا سے بے حد مختلف ہے۔
یہ نئی عدالتی دنیا ججوں کو بے پناہ اختیار دیتی ہے، مگر ساتھ ہی ساتھ ان کے کندھوں پر عدالتی اصلاحات اور معاشرتی تبدیلیوں کی عوامی امیدیں بھی ڈال دیتی ہے۔ نتیجتاً عوام نااہلی اور عدالتی کمزوریوں سے متعلق ججوں کا پہلے سے کہیں زیادہ تنقیدی جائزہ لیتے ہیں۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 26 دسمبر 2016 کو شائع ہوا۔
تبصرے (2) بند ہیں