قصہ قائد کے لباس کا
تصور کریں کہ قائد اعظم محمد علی جناح 2016 میں ہمارے درمیان موجود ہیں۔ اگر آپ اتنا تصور کر سکتے ہیں تو پھر آپ کے لیے یہ تصور کرنا بھی اتنا مشکل نہیں ہوگا، کہ سوشل میڈیا ویب سائٹس پر ایک مذہبی رہنما کی وڈیو گردش کر رہی ہے جس میں ایک پرہیزگار و نفیس شخص بانی پاکستان کے عشری شیعہ ہونے پر گہرے تحفظات کا اظہار کر رہا ہے۔ زیادہ لفاظی کرنے والے ٹی وی اینکرز قائد کے شراب پینے پر غم و ٖغصے پر پورے پورے شو کر رہے ہیں۔
ان شوز میں مدعو مہمان بھی جوش وجذبے کے ساتھ سر ہلا رہے ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ ہمارے آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت قائد اعظم کو سیاسی طور پر نااہل قرار دیا جائے۔ اور پھر کچھ ایسے بھی لوگ منظر عام پر آ جاتے جن کے نزدیک قائد اعظم لبرل- فاشسٹ یا شاید ایک مغربی/یہودی ایجنٹ ہیں۔
وہ انہیں بڑے شوق سے ہندوستانی ایجنٹ بھی پکارتے ہیں، مگر مجھے کم از کم یہ تو یقین ہے کہ اس الزام کے پیچھے کچھ خاص وجوہات بھی نہیں ہوں گی۔ یا پھر شاید ہوں بھی۔ کیونکہ ہم اس دور میں معصوم پاکستانیوں کو دھوکہ دینے اور یہ منوانے کے لیے کہ قائد اعظم ایسا پاکستان نہیں چاہتے تھے جیسا آہستہ آہستہ ان کے مرنے بعد بن گیا، منطق کو ایک اوزار کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
اگر قائد اعظم آج ہوتے تو مذکورہ مفروضہ قائم کرنا کسی کے لیے دشوار نہیں ہوگا۔ سچ یہ ہے کہ، ان کی موت کے بعد بھی، چند لوگ جو ان کی تعریف و ستائش کرتے نظر آتے ہیں، وہ بھی بلواسطہ طور پر ان کے ماڈرن مزاج اور ’مغربی’ طرز زندگی پر تنقید کر رہے ہوتے ہیں۔ 1973 میں جب ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں بانی پاکستان کی 25 ویں برسی پر ایک خاص ڈاک ٹکٹ جاری کیا گیا تھا، اس وقت کراچی کے ایک اسکول میں کلاس دوم کا طالب علم تھا۔
پڑھیے: قائد اعظم کا یوم پیدائش
حالانکہ تب میں بچہ تھا مگر یہ ضرور جانتا تھا کہ قائد اعظم کون تھے۔ ڈاک ٹکٹ پر قائد اعظم کے چہرے کا ایک خوبصورت سائیڈ پورٹیٹ چھپا تھا۔ اس تصویر میں انہوں نے دائیں آنکھ پر پرانے دور کا ایک شیشے والا عینک پہنا ہوا تھا۔ میری ایک ٹیچر اس تصویر سے خوش نہیں تھیں۔ یہ ڈاک ٹکٹس اسکول انتظامیہ کو طلبا کے درمیان تقسیم کرنے کے لیے دیے گئے تھے۔ وہ ٹیچر ایک نوجوان خاتون تھیں اور میرے خیال سے وہ ہمیں ریاضی پڑھاتی تھیں۔
مگر انہوں نے جو کہا تھا وہ مجھے اب بھی واضح طور پر یاد ہے، ’’بچوں یہ ہمارے قائد اعظم کی تصویر ہے۔ وہ ایک عظیم انسان تھے۔’’ پھر ڈاک ٹکٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، ہمیں مخاطب ہوئیں، ’’مگر وہ یہ نہیں ہیں۔ ایسی عینک صرف برطانیہ کے لوگ پہنتے ہیں۔ کیا قائد برطانوی تھے؟’’ ہم 6 برسوں کے ناقابل فہم بچوں نے یک آواز ہو کر جواب دیا، ’’نو ٹیچر"۔
بلاشبہ ہم اس ٹیچر کی اس اسکول میں ملازمت ہونے کی ستم ظریفی کو سمجھنے سے قاصر تھے، جس اسکول کو برطانیہ نے قائم کیا تھا اور جو کافی حد تک برطانوی نظام تعلیم کی پیروی کرتا تھا۔
جولائی 1976 میں حکومت پاکستان، ترکی اور ایران نے علاقائی تعاون برائے ترقی (آر سی ڈی) کی 12 ویں سالگرہ کے موقعے پر خصوصی ڈاک ٹکٹ جاری کیے، پاکستان، ایران اور ترکی کی حکومتیں اپنے اپنے ملکوں میں اقتصادی پیداوار کو فروغ دینے کے لیے 1964 میں آر سی ڈی کا قیام عمل میں لائی تھیں۔
تین مختلف ڈاک ٹکٹ جاری کیے گئے تھے۔ ایک پر سابق شاہ ایران رضا شاہ کی تصویر تھی، جو کہ اس وقت کے شاہ ایران کے والد تھے؛ ایک پر جدت پسند ترکی کے بانی کمال اتاترک کی تصویر تھی جبکہ ایک ڈاک ٹکٹ پر قائد اعظم کی تصویر تھی۔
کراچی اور لاہور میں اردو اخبارات کے کالم نگاروں نے شکایت کی کہ قائد اعظم کو سکیولر پسندوں (رضا شاہ اور اتاترک) کے گروہ میں ملا دیا گیا ہے۔ ڈاک ٹکٹ پر درج قائد اعظم کی تصویر میں وہ نفیس نیلا سوٹ پہنے ہوئے تھے۔ میرے والد، جنہوں نے (1974 میں) ہفتہ وار اردو اخبار کی اشاعت کا آغاز کیا تھا، نے ایک اداریہ لکھا جس میں انہوں نے اعتراض کرنے والوں سے پوچھا کہ وہ کیا سوچتے ہیں کہ قائد اعظم کیسے تھے۔
پڑھیے: قائداعظم: ہندو رہنما بھی ان سے متاثر تھے
دوسرے ہی روز (اس بار کسی دوسری اردو اخبار میں) ایک کالم نگار نے یہ لکھ کر جواب دیا کہ یہ ضروری نہیں کہ جناح کیسے تھے مگر ضروری یہ بات ہے کہ پاکستانیوں کے نزدیک ان کی کیا حیثیت ہونی چاہیے۔ انہوں نے لکھا، ’’پاکستانیوں کو ان کی توقعات کے مطابق قائد اعظم دکھانا ضروری ہے نہ کہ ان کے قائد بننے سے پہلے والے محمد علی جناح کو دکھانا۔’’
بلاشبہ پاکستانیوں سے ان کی مراد وہ لوگ تھے جو بانی پاکستان کی ماڈرن شخصیت کو مناسب تصور نہیں کرتے تھے اور پاکستان کے محدود فہم کے دائرے میں ان کی شخصیت کو دیکھنا چاہتے تھے۔ مگر چونکہ یہ واقعہ نام نہاد ’سوشلسٹ’ ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں ہوا تھا، اس لیے ان کی حکومت نے 1976 کی دسمبر میں بانی پاکستان کی 100 ویں سالگرہ کے موقع پر جاری ہونے والے خصوصی سکوں پر قائد اعظم کو دوبارہ شیروانی میں ملبوس کر دیا۔ اس کے ساتھ قائد اعظم کے سر پر ’جناح کیپ‘ تھی۔ سکے پر قائد کی تصویر کے نیچے ان کے سنہری اصول ’اتحاد، ایمان، تنظیم’ کنندہ کیے گئے تھے۔
میرے پاس بھی وہ سکے ہوا کرتے تھے جو کافی خوبصورت بھی تھے۔ اور قائد اعظم جناح کیپ اور شیروانی کے ساتھ زیادہ خوبصورت بھی نظر آ رہے تھے۔ مگر وہ لوگ جنہیں ماڈرن جناح کی شخصیت کسی حد تک ناگوار محسوس ہوتی تھی، انہیں یہ تصویر تنہا مطمئن نہیں کر پائی۔ اس لیے ایک دن، اپریل 1977 میں حکومت نے خاموشی کے ساتھ ان سنہری اصولوں کی ترتیب اتحاد، ایمان، تنظیم کو بدل کر ایمان، اتحاد، تنظیم کر دیا۔
ہم سے اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ چھوٹی مگر غیر معمولی تبدیلی جنرل ضیاء کے سخت آمرانہ دور میں ہوئی تھی۔ ایسا نہیں ہے۔ یہ تبدیلی 1977 میں اپریل کے مہینے میں اس وقت رونما ہوئی جب ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت مذہبی جماعتوں کے ایک اتحاد کی سربراہی میں ہونے والے شدید احتجاجی مظاہروں کا سامنا کر رہی تھی۔
ایک مشہور فوٹوگرافر زیغم زیدی کی کھینچی ہوئی ایک تصویر ہے جو 1977 کے اپریل مہینے میں پی پی پی حامی اخبار روزنامہ مساوات میں شایع ہوئی تھی، اس تصویر میں ذوالفقار علی بھٹو کراچی میں کسی جگہ جلسے سے خطاب کر رہے ہیں۔ ان کے پیچھے ایک بہت بڑے بورڈ پر قائد اعظم کے چہرے کی تصویر ہے۔ اس بورڈ کے ایک جانب موٹی تحریر میں ’ایمان، اتحاد، تنظیم‘ کنندہ ہے۔ زیدی میرے والد کے قریبی دوست تھے۔
1985 میں انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو لفظوں کی ہیر پھیر کا خیال ان کے فوجی چیف ضیاء الحق نے دیا تھا۔ تین ماہ بعد ضیا الحق نے فوجی بغاوت کر کے بھٹو کی حکومت گرا دی اور تب سے لے کر قائد کے سنہری اصولوں کی ترتیب ایمان، اتحاد، تنظیم ہی رہی۔ کسی کو بھی ان لفظوں کی ترتیب درست کرنے کی توفیق نہ ہوئی۔
ضیاء کی آمریت کے دوران (1977 سے 1988 تک) قائد اعظم کو کبھی بھی سوٹ میں نہیں دکھایا گیا تھا۔ انہیں ہمیشہ شیروانی کے ساتھ ایمان، اتحاد، تنظیم کے سنہری اصول سناتے ہوئے دکھایا جاتا۔ سرکاری چینل، پی ٹی وی کے سابق نیوز ڈائریکٹر برہان الدین اپنی کتاب ’سینسرڈ‘ میں رقم طراز ہیں کہ (ضیا حکومت کے دوران) احکامات کے مطابق چینل پر قائد اعظم کے صرف وہی اقوال نشر کرنے ہوتے تھے جن میں لفظ 'اسلام' شامل ہوتا۔ بانی پاکستان کی شخصیت سے ان تمام پہلوؤں کو مسخ کرنے کے لیے جامع اقدام اٹھائے گئے جو اس آمرانہ دور میں تشکیل کردہ سوچ کے منافی تھے۔
مگر گزشتہ 15 برسوں میں، پہلے سے کہیں زیادہ قائد کے پہلو دوبارہ ظاہر ہوئے۔ یہ مشہور ہے کہ جنرل مشرف نے دو پالتو کتوں کو تھامے ہوئے ایک تصویر کھینچوائی تھی، جس کی وجہ سے انہیں کافی تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا، مگر یہ تصویر اسی عرصے میں منظر عام پر آنے والی قائد کی اس تصویر جیسی تھی جس میں وہ اپنے دو کتوں کے ہمراہ موجود ہیں۔
شاید قائد اعظم کی ان کا تصاویر، جن میں ان کی حقیقی شخصیت نظر آتی ہے، کا دوبارہ سامنے آنا 1970 کے بعد سے ان کا حلیہ بگاڑنے والوں کے خلاف ایک رد عمل کا اشارہ ہو؟ چلیں یہی امید رکھتے ہیں۔
اور ہاں ایک بات تو بتانا ہی بھول گیا، میرے پرائمری اسکول کی ٹیچر 1976 میں اپنے شوہر کے ساتھ لندن میں منتقل ہو گئی تھیں اور اب ان کے تمام بچے برطانوی شہری ہیں۔ ٹیچر ایسا کیوں؟
یہ مضمون 25 دسمبر 2016 کو ڈان کے سنڈے میگزین میں شائع ہوا۔
تبصرے (2) بند ہیں