• KHI: Fajr 5:51am Sunrise 7:12am
  • LHR: Fajr 5:31am Sunrise 6:58am
  • ISB: Fajr 5:39am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:51am Sunrise 7:12am
  • LHR: Fajr 5:31am Sunrise 6:58am
  • ISB: Fajr 5:39am Sunrise 7:09am

قومی اسمبلی کی 374 نشستیں: کون کتنا حاضر رہا؟

شائع December 23, 2016

اسلام آباد: موجودہ حکومت کے دور میں اراکین قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں حاضری کا ریکارڈ سامنے آگیا۔

جون 2013 سے دسمبر 2016 تک ارکان قومی اسمبلی کی حاضریوں کے حوالے سے ڈان نیوز کو موصول ہونے والے ریکارڈ کے مطابق پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس اور قومی اسمبلی کی مجموعی طور پر 374 نشستیں ہوئیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے علی محمد خان مہر غیر حاضریوں میں سب پر بازی لے گئے اور ان کی حاضری 3 فیصد رہی اور وہ صرف 12 دن اجلاسوں میں شریک ہوئے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین غیر حاضریوں میں دوسری پوزیشن پر رہے، ان کی حاضری 6 فیصد رہی یعنی انہوں نے صرف 22 دن اجلاسوں میں شرکت کی۔

یہ بھی پڑھیں: پارلیمنٹ سے غیر حاضری کا نقصان

وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز غیر حاضریوں میں تیسرے نمبر پر رہے، ان کی حاضری کا تناسب صرف 8 فیصد رہا اور 344 دن غیر حاضر رہے۔

قائد ایوان نواز شریف کی حاضری 16 فیصد رہی، وزیر اعظم 374 میں سے صرف 61 دن اجلاسوں میں شریک ہوئے۔

سابق صدر آصف زرداری کی بہن فریال تالپور کی حاضری کا تناسب 10 فیصد رہا، وہ صرف 36 دن اجلاسوں میں شریک ہوئیں۔

مسلم لیگ (ق) کے پارلیمانی لیڈر پرویز الہٰی بھی بیشتر اجلاسوں میں غائب رہے اور ان کی حاضری 14 فیصد رہی۔

مزید پڑھیں: اسمبلی اراکین کی ’حاضری‘ تک رسائی کی اجازت

آزاد رکن جمشید احمد دستی کی حاضری کا تناسب 48 فیصد،عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کا 62 فیصد، جبکہ قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کا 75 فیصد رہا۔

وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب کی حاضری 89 فیصد، وفاقی وزیر ریاض پیرزادہ کی حاضری کا تناسب 88 فیصد رہا۔

وفاقی وزیر شیخ آفتاب قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں سب سے زیادہ حاضر رہنے والے رکن رہے۔

شیخ آفتاب کی حاضری کا تناسب 98 فیصد رہا اور وہ 374 میں سے صرف 7 اجلاسوں میں غیر حاضر رہے۔

اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق 374 میں سے 320 دن اجلاسوں میں شریک ہوئے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Ravi shankar Dec 24, 2016 12:19am
ان کی حاضری کے ریکارڈ کے ساتھ انہیں ملنے والے فنڈز کی تفصیلات بھی جاری ہونا چاہئے تاکہ عوام کو معلوم ہو سکے کہ ان کے حلقے سے منتخب ہونے والے نمائندے کو ان کیلئے کتنا پیسہ ملا اور وہ کھا گیا۔ مڈل کلاس طبقے کی جماعت ہونے کی دعویدار ایک مقامی پارٹی کے اکثر رہنما بھی ککھ پتی سے لکھ پتی بنے، ففٹی موٹر سائیکلوں سے لینڈ کروزر کا سفر ایسے ہی نہیں کیا، عوامی ترقیاتی فنڈز کے نام پر ملنے والے کروڑوں روپے کھا کر کیا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 20 دسمبر 2024
کارٹون : 19 دسمبر 2024