ہمارے ملک میں 5000 روپے کا نوٹ آخر ہے ہی کیوں؟
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ہمارے ملک میں 5000 روپے کا نوٹ آخر ہے ہی کیوں؟
اگر نہیں تو اب سوچیں، کیوں کہ اس نوٹ کے پیچھے ایک دلچسپ کہانی موجود ہے۔
یہ نوٹ 2006 میں متعارف کروایا گیا تھا، اور اگلے چند برسوں میں ملک میں زیرِ گردش کرنسی کا ایک بڑا حصہ اس نوٹ پر مشتمل ہوگیا۔ اس نوٹ کی چھپائی کے حامیوں کا مؤقف یہ تھا کہ اس طرح نقد رقم کی حرکت آسان ہو جائے گی۔ مثال کے طور پر جیسے ہر روز ملک کے بینکوں کی نقد کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے بڑی تعداد میں رقم کراچی سے دیگر شہروں تک ہوائی جہاز کے ذریعے منتقل کی جاتی ہے۔
مگر نقد کی ضرورت کا تعلق موسموں کے اعتبار سے ہے، مطلب یہ کہ سال در سال، نقد کی ضرورت چند ماہ کے لیے تو بڑھ جاتی ہے مگر دیگر مہینوں میں کم ہو جاتی ہے۔
جب بھی گندم کی کٹائی کا موسم آتا ہے تو جنوبی پنجاب اور بالائی سندھ کے علاقوں میں جہاں اناج کی پیداوار ہوتی ہے، وہاں نقد کی ضرورت کافی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
پھر چوں کہ کپاس کی بوائی کے لیے بیج اور دیگر ضروری سامان کی خریداری کے لیے نقد رقم استعمال کی جاتی ہے تو کیش پھر سے آہستہ آہستہ بینکاری نظام میں لوٹنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس طرح سال کے کچھ مہینوں میں بینکوں سے بڑی تعداد میں پیسہ باہر جاتا ہے، اور پھر واپس آجاتا ہے۔
بڑی مالیت کے نوٹ کی حمایت میں یہ مؤقف بھی دیا جاتا ہے کہ یہ نوٹ اس قسم کے آپریشنز کے لیے کارآمد ہیں، کیوں کہ اگر نقد کی ادائیگی 1000 روپے کے نوٹوں سے کی جائے، تو اس قدر کثیر تعداد میں نوٹوں کی فراہمی اور ترسیل ایک مشکل کام ثابت ہوگا، مگر یہ نوٹ رقم میں موجود نوٹوں کی تعداد کو پانچ گنا گھٹا دے گا۔
ٹھیک ہے۔ لیکن ایک مسئلہ ہے، اور وہ یہ کہ 5000 کا نوٹ ان آپریشنز کے لیے استعمال ہی نہیں کیا جاتا اور کئی سالوں پہلے اسٹیٹ بینک میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق (جو کہ باضابطہ طور پر جاری نہیں کی گئی، اس لیے میں یہاں وہی تفصیلات دے رہا ہوں جو میں نے غیر رسمی طور پر ان لوگوں سے حاصل کی ہیں جنہوں نے وہ تحقیق دیکھی ہے)، اس نوٹ کی گردش میں موسم کے حساب سے مطابقت نظر نہیں آتی۔ اسی تحقیق کے مطابق زیرِ گردش کرنسی میں ایک بار شامل ہونے کے بعد یہ نوٹ کبھی کبھار ہی بینکاری نظام میں واپس آتا ہے۔
2006 تک ملک میں بینکوں کے پاس موجود ڈپازٹس کے مقابلے میں زیرِ گردش کرنسی میں کمی واقع ہو رہی تھی، یعنی بینکوں میں ڈپازٹس بڑھ رہے تھے۔ پھر یہ نوٹ متعارف کروایا گیا اور یہ رجحان مکمل طور پر بدل گیا۔ چنانچہ 2006 کے بعد سے زیرِ گردش کرنسی میں بینکوں میں موجود ڈپازٹس کے مقابلے میں اضافہ ہوا ہے۔
مگر حیران کن طور پر ریٹیل خرید و فروخت میں اس نوٹ کا بہت زیادہ استعمال نہیں ہو رہا تھا۔ تو اگر موسموں سے مطابقت نہ ہونے کے باوجود نوٹ کی طلب میں بے پناہ اضافہ ہو رہا تھا، اور یہ نوٹ دیگر نوٹوں کی طرح باقاعدگی کے ساتھ بینکاری نظام میں واپس داخل بھی نہیں ہو رہا، تو پھر اس نوٹ کا استعمال آخر کہاں ہو رہا ہے؟
تو جناب بات یہ ہے کہ یہ نوٹ ذخیرہ اندوزی اور صرف کیش کی صورت میں بڑی رقم کی منتقلی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اور یہی ہے اس کی کامیابی کا راز اور وہ وجہ کہ طاقتور لابیاں اس نوٹ کو ختم کرنے کی کسی بھی کوشش کو ناکام بنا دیتی ہیں۔
سننے میں تو یہ بھی آیا ہے کہ ان مقاصد میں یہ نوٹ اس قدر کامیاب رہا کہ اسٹیٹ بینک 10,000 روپے کا بھی نوٹ جاری کرنے پر بھی غور کر رہا تھا۔ آپ گوگل پر 'دس ہزار روپے کا پاکستانی نوٹ' لکھیں گے تو آپ کے سامنے ایسی کئی مشکوک ویب سائٹس آ جائیں گی جو یا تو جوش و جذبے کے ساتھ دس ہزار روپے کا نوٹ متعارف کروانے پر زور دے رہی ہیں یا پھر جن پر یہ اعلان کیا جا رہا ہے کہ حکومت نے اس نوٹ کی چھپائی کا فیصلہ کر لیا ہے اور جلد ہی یہ نوٹ آنے کو ہے۔
2013 کی دوسری شش ماہی میں بھی کچھ ایسی خبریں سننے کو مل رہی تھیں جس سے اشارہ ملتا ہے کہ طاقتور حلقے اپنے مفاد کے لیے نئی حکومت پر اس کے دورِ حکومت کے آغاز سے ہی اس نوٹ کی چھپائی کے لیے زور ڈال رہے تھے۔
تو جب سینیٹ نے 5000 کے نوٹ کو بند کرنے کی قرارداد منظور کی تو یہ بہت بڑی بات تھی۔
سینیٹ نے ایسے مسئلے کو چھیڑا ہے جس کا تعلق طاقور لوگوں کے ذاتی مفادات سے ہے، اس لیے سینیٹرز کو بڑے دھیان سے یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ انہیں ان کی کوششوں سے دستبردار کرنے کے لیے کوششیں کون کرتا ہے۔
ایک سینیٹر کی جانب سے پیش کردہ اعداد و شمار، جن کے مطابق پورے ملک میں زیرِ گردش کرنسی کا تقریباً 30 فیصد حصہ 5000 ہزار کے نوٹوں پر مشتمل ہے، سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان بڑے نوٹوں کو استعمال کرتے ہوئے جو سرگرمیاں کی جا رہی ہیں، ان کا حجم بھی ریٹیل خرید و فروخت کی سرگرمیوں میں استعمال ہونے والے نوٹوں، خاص طور پر 1000 کے نوٹ، کے حجم کے برابر ہی آ پہنچا ہے۔
بڑے نوٹوں کو اگر اچانک ختم کر دیا جائے تو اس میں کافی خطرات موجود ہیں، جس کا مظاہرہ ہمیں ہندوستان میں بھی دیکھنے کو ملا۔ اور خاص طور پر اگر بات ان نوٹوں کو ختم کر دینے کی ہو جو بڑی سطح پر غریب لوگوں کے، اور ریٹیل خرید و فروخت کے لیے استعمال کیے جاتے ہوں۔ مگر جہاں تک بات 5000 کے نوٹ کی ہے تو اس نوٹ کو باآسانی زیرِ گردش کرنسی سے خارج کیا جا سکتا ہے۔
پہلے تو آپ کو نئے نوٹوں کی چھپائی روکنی ہوگی، اور زیرِ گردش کرنسی میں موجود نوٹوں کو جاری رہنے دیا جائے۔ نوٹ مسلسل گردش میں رہنے کے باعث بوسیدہ ہوجانے یا پھٹ جانے کی وجہ سے ایک بار پھر اسٹیٹ بینک لوٹ آئیں گے۔ اور نوٹوں کی تھوڑی تعداد مسلسل استعمال سے قدرتاً گھس کر ختم ہوجانے کی وجہ سے مارکیٹ سے خود بخود ہی خارج ہو جائے گی۔
پھر حکومت ایک طویل مدت، تقریباً پورا سال، دے کر اعلان کر سکتی ہے کہ اس کے بعد بڑے نوٹ ختم کر دیے جائیں گے۔ اس عمل کے لیے چند سال درکار ہو سکتے ہیں مگر یہ ہندوستان میں راتوں رات بڑے نوٹوں کے خاتمے کی طرح اقتصادی سرگرمی کے لیے نقصان دہ ثابت نہیں ہوگا، کیوں کہ اس دوران 1000 روپے کے نوٹوں کی زیادہ چھپائی کے ذریعے ختم ہونے والے بڑے نوٹوں کا ازالہ کر پانا ممکن ہوگا۔
ہاں وہ اکثریت جو اربوں کھربوں کی نقد منتقلی کے لیے بڑے نوٹوں کو استعمال کرتی ہے، ان کے لیے یہ مرحلہ مشکل ثابت ہوگا۔ ان میں جائیداد کا کاروبار کرنے والے، اسٹاک بروکرز، اسمگلرز اور دیگر غیر قانونی دھندوں کے لیے بڑے نوٹ استعمال کرنے والے کئی افراد شامل ہیں۔
غریب اور ریٹیل خرید و فروخت کا طبقہ، اور اس کے ساتھ ساتھ جائز کاروباری طبقہ جو بڑی رقوم کی منتقلی کے لیے چیکس یا آن لائن بینکنگ استعمال کرتا ہے، وہ اس سے متاثر نہیں ہوں گے۔
سینیٹ کی قرارداد کو سنجیدگی سے لینا چاہیے، اور جو تجاویز پیش کی گئی ہیں ان پر ہندوستان کی طرح ملک کے عام آدمی کے لیے پریشانی کا باعث بنے بغیر آسانی سے عمل کیا جاسکتا ہے۔
دوسری صورت میں آپ خود سے ایک بار پوچھیں کہ: آخر ہمارے ملک میں 5000 کا نوٹ ہے ہی کیوں؟
یہ مضمون ڈان اخبار میں 22 دسمبر 2016 کو شائع ہوا۔
تبصرے (2) بند ہیں