فاٹا میں قدرتی گیس کے بڑے ذخائر موجود
پشاور: جیولوجیکل سیسمک سروے میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ عسکریت پسندوں سے متاثرہ وفاقی منتظم شدہ قبائلی علاقہ جات (فاٹا) کے مختلف علاقوں سے 20 ٹرلین مربع فٹ تک قدرتی گیس کے ذخائر حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
اس حوالے سے منعقدہ ایک ورکشاپ کے بعد فاٹا کے تیل اور قدرتی گیس کے سہولتی یونٹ کے ڈائریکٹر اظہر محبوب نے ڈان کو بتایا کہ قبائلی پٹی کے چند علاقوں میں جیولوجیکل سیسمک سروے مکمل ہوچکا ہے جس میں یہ بات سامنے آئی کہ فاٹا کے مختلف مقامات سے 20 ٹرلین کے قریب قدرتی گیس حاصل کی جاسکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کام کے آغاز کے لیے فاٹا ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایف ڈی اے) میں یونٹ قائم کردیا گیا ہے۔
ڈائریکٹر کا مزید بتانا تھا کہ وزارتِ پٹرولیم کی جانب سے مختلف کمپنیوں کو فاٹا کے 15 بلاکس میں تیل اور گیس کی تسخیر کے لیے لائسنس جاری کیے جاچکے ہیں جبکہ تیل اور گیس کی تلاش کا یہ سروے شمالی وزیرستان کے سرحدی علاقے بنوں میں مکمل ہوچکا ہے۔
اظہر محبوب کا مزید بتانا تھا کہ فرنٹیئر پشاور، کوہاٹ، ڈیرہ اسماعیل خان اور اورکزئی ایجنسی جیسے علاقوں میں سروے کا عمل جاری ہے شمالی وزیرستان ایجنسی میں تیل اور گیس کی تلاش کے لیے گریوٹی سروے کا آغاز کیا جاچکا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایم او ایل پاکستان کو شمالی وزیرستان ایجنسی میں سروے کا لائسنس دیا جاچکا ہے۔
ڈائریکٹر اظہر محبوب کا مزید کہنا تھا کہ قبائلی علاقوں میں تیل اور گیس کے شعبے کو گیم چینجر سمجھا جاتا ہے اورسروے کی تکمیل کے بعد فاٹا کے مختلف علاقوں میں ڈرلنگ کا آغاز کردیا جائے گا۔
ان کے مطابق سرمایہ کاروں کو بتایا جاچکا ہے کہ وہ 6 ماہ میں اپنی سرگرمیوں کا آغاز کردیں اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو وفاقی وزارت کو ان کے لائسنس معطل کرنے کا کہہ دیا جائے گا۔
’قبائلی علاقوں میں معاشی ترقی کے مواقع‘ نامی اس ورکشاپ کا انعقاد جامعہ پشاور کے فاٹا اسٹڈیز سیل کی جانب سے کیا گیا تھا جس میں جیولوجسٹس سمیت طلبہ کی بڑی تعداد شریک تھی۔
یہ بھی پڑھیں: ہنگو میں گیس اور تیل کے نئے ذخائر دریافت
اظہر محبوب کا کہنا تھا کہ گذشتہ 9 سے 10 ماہ کے عرصے میں 4.5 بلین سرمایہ کاری کے لیے سرمایہ کاروں کی توجہ اس جانب مبذول کرائی جاچکی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ فاٹا کے لیے تیل اور گیس کمپنی کے قیام کا خیال بھی پیش کیا جاچکا ہے۔
دوسری جانب گورنر کی جانب سے بھی فاٹا کو پٹرولیم پالیسیوں اور قوانین میں شامل کرنے کے لیے وفاقی حکومت کو سمری روانہ کی جاچکی ہے۔
فاٹا میں معدنیات کے منتظم ہمایوں خان نے ورکشاپ میں بتایا کہ فوج کی مشہور انجینئرنگ کمپنی فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) کو شمالی وزیرستان ایجنسی میں تانبے کی کانوں میں کام کا ٹھیکہ دیا جاچکا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ معاہدے کے تحت اس ذریعے حاصل ہونے والے ریونیو کا 50 فیصد حصہ ایف ڈبلیو او کو جائے گا، 18 فیصد مقامی قبائل کو، 10 فیصد فاٹا ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایف ڈی اے) جبکہ 22 فیصد ریونیو مقامی کارپوریٹ کو تاکہ اسے سماجی شعبے میں خرچ کیا جاسکے۔
ہمایوں خان کا کہنا تھا کہ ایف ڈبلیو او نے اپنے معاہدے کو اپنے ذیلی ادارے ڈی ای ڈبلیو کودیا ہے جس کے تحت وہ شمالی وزیرستان کے محمد خیل علاقے میں تانبے کی کانوں میں کام کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ علاقے میں 35 ملین ٹن تانبے کے ذخائر کا اندازہ لگایا گیا تھا جس میں سے 8 ملین ٹن کی موجودگی ثابت ہوچکی ہے۔
منتظم کا مزید کہنا تھا کہ فاٹا میں معدنیات کی تسخیر اور تیل اور قدرتی گیس کی تلاش کا آغاز یہاں امن و امان کے قیام کے بعد ممکن ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ قبائلی علاقوں میں معدنیات کی بڑی مقدار موجود ہے اور باجوڑ اور فاٹا کے مختلف علاقوں میں بہترین معیار کے ماربل کے کل ذخائر کی تعداد 7 بلین ٹن کے قریب ہے۔
ہمایوں خان کے مطابق فاٹا سے سالانہ 2 ملین ٹن ماربل برآمد کیا جاتا ہے اور حکومت ماربل کی تلاش کے غیر روایتی طریقوں پر پابندی عائد کردے گی۔
یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی پشاور کے پروفیسر صدیق اکبر نے بھی فاٹا اور خیبر پختونخوا میں جاری مائننگ کے شعبے میں غیرروایتی تکنیک کے استعمال پر تشویش کا اظہار کیا۔
مزید پڑھیں: ’پاکستان میں تیل، گیس کے ذخائر کئی گنا زیادہ‘
ان کا کہنا تھا کہ ماربل اور کرومائٹ کی کانوں میں بغیر تمیز کے بارود کے استعمال سے 70 سے 80 فیصد ماربل تباہ ہوجاتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ معدنیات کا جی ڈی پی کا صرف ایک حصہ ہے اور شعبے میں درست تکنیک کے استعمال سے اسے 20 فیصد تک بڑھایا جاسکتا ہے۔
پروفیسر صدیق کے مطابق مائننگ کے شعبے میں تربیت یافتہ وکرز کی کمی ہے، حکومت کو چاہیئے کہ وہ مقامی سرمایہ کاروں کو سہولیات فراہم کرے تاکہ وہ بین الاقوامی معیار کی مصنوعات تیار کرسکیں۔
یونیورسٹی آف پشاور میں شعبہ صحافت اور ابلاغ عامہ کے سربراہ ڈاکٹر الطاف اللہ خان اور فاٹا سیل کے سربراہ ڈاکٹر حسین شہید سہروردینے بھی ورکشاپ سے خطاب کیا جس کے بعد شرکاء میں سرٹیفکیٹس تقسیم کیے گئے۔
یہ خبر 22 دسمبر 2016 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔
تبصرے (1) بند ہیں