• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

کیا مسلح جدوجہد ہی مسئلہءِ کشمیر کا حل ہے؟

شائع December 21, 2016

کشمیر کی طرح اس کی آزادی کے ممکنہ راستے کا انتخاب بھی ہمیشہ سے زیر بحث رہا ہے۔ بعض افراد کے نزدیک آج بھی مسلح جدوجہد آزادی کا واحد راستہ ہے لیکن تاریخی طور پر کشمیری قوم غیر مسلح جدوجہد کے ذریعے قومی جمہوری انقلاب پر یقین رکھتی آئی ہے۔

لہٰذا جہاں پچھلی صدی گوریلا تحریکوں اور مسلح جدوجہد کی صدی تھی، اس کے باوجود کشمیری قوم پرست جماعتوں نے کشمیر کی آزادی کے لیے گوریلا جدوجہد کے راستے کو غیر مؤثر سمجھتے ہوئے ہمیشہ اس کی مخالفت کی۔

جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) وہ پہلی کشمیری قوم پرست جماعت تھی جس نے 80 کی دہائی میں مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کیا۔ سن 1989 میں پہلی دفعہ ایک خود مختار کشمیر کے حصول کے لیے مسلح جدوجہد کا راستہ اپنانے والی لبریشن فرنٹ بہت جلد کشمیر کی مقبول ترین سیاسی اور واحد عسکری قوت بن گئی۔

یہی وہ دور ہے جب کشمیر میں ہندوستان کی جانب سے یہاں کی تاریخ کا بدترین قتلِ عام شروع ہوا۔ عسکری راستے کو حل سمجھنے والوں سے جب ریاست سختی سے پیش آئی تو عسکریت پسندوں نے بھی اپنے پیر مزید مضبوط کرنے شروع کیے، اور عوام کو یہ باور کروانا شروع کیا کہ صرف یہی تنظیمیں اور ان کا طریقہءِ کار انہیں آزادی دلوا سکتا ہے۔

گو دیگر قوم پرست قوتیں جیسا کہ جموں و کشمیر نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (این ایس ایف)، جموں و کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی (جے پی این پی) اور یونائیٹڈ کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی (یو کے پی این پی) وغیرہ بھی اس وقت میدانِ عمل میں سرگرم تھیں، لیکن چوں کہ ان سیاسی جماعتوں کا یہ ماننا تھا کہ کشمیر مسلح جدوجہد کے ذریعے آزاد نہیں ہو سکتا، اس لیے یہ پسِ منظر میں چلی گئیں اور 90 کی دہائی میں کشمیری نوجوانوں کی اکثریت پر لبریشن فرنٹ کی گوریلا جنگ کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا۔

اگلے تین چار سال تک کشمیر کے آر پار سے نوجوان نیشنل لبریشن آرمی (جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کا مسلح ونگ) کو جوائن کرنے لگے۔ عام طور پر یہ ہوتا تھا کہ نوجوان کسی مقامی کیمپ میں بنیادی تربیت حاصل کرتے جس کے بعد انہیں کسی خفیہ کراسنگ پوائنٹ سے وادی میں بھیج دیا جاتا۔

لیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر نہ چل سکا۔ چند ہی سالوں بعد لبریشن فرنٹ کا سحر اس وقت ماند پڑ گیا جب حزب المجاہدین کشمیر کی مسلح جدوجہد میں ابھری۔ اس سے قبل لبریشن فرنٹ کی جدوجہد کا محور کشمیر کی آزادی اور خودمختاری رہا جب کہ حزب المجاہدین 'کشمیر بنے گا پاکستان' کا نعرہ لے کر آئی اور پورے منظر نامے پر چھا گئی۔

1995 تک لبریشن فرنٹ کی عددی و عسکری قوت نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھی اور کشمیر کی آزادی کی مسلح تحریک جو چھ سال پہلے 'کشمیر بنے گا خود مختار' کے نعرے سے شروع ہوئی تھی، اب 'کشمیر بنے گا پاکستان' کے نعرے سے جانی جانے لگی۔

لبریشن فرنٹ کی چلائی ہوئی سیکولر تحریک پر اب مذہبی رنگ غالب آ چکا تھا۔ سیکولر تحریکِ آزادی کو نئے جنگجوؤں نے ہتھیا کر اسے گوریلا جنگ میں بدل دیا۔ اسی سال لبریشن فرنٹ نے مسلح جدوجہد کا راستہ ترک کیا اور دیگر قوم پرست جماعتوں کی طرح غیر مسلح سیاست کرنے لگی۔

اگرچہ نائن الیون کے واقعے کے بعد کشمیر کی 'جہادی' تنظیموں کو کالعدم قرار دے دیا گیا، لیکن یہ تنظیمیں اپنی پوری قوت کے ساتھ موجود رہیں اور ایسے ہی ان کی اور قوم پرستوں کی دشمنی بھی موجود رہی۔

2005 میں کشمیر میں آنے والے تباہ کن زلزلے نے کالعدم تنظیموں کو کشمیر میں فلاحی کاموں کے ذریعے اثر و رسوخ مزید بڑھانے کا موقع فراہم کیا۔

کشمیر میں یہ تنظیمیں امدادی کاموں کے ذریعے دور دراز کے علاقوں تک جا پہنچی اور بڑی تعداد میں نوجوانوں کی ذہن سازی پر بھی کام کیا۔

کنٹرول لائن پر حالیہ گولہ باری نے انہیں پھر سے ’الجہاد الجہاد‘ کے نعرے لگانے کا جواز فراہم کر دیا ہے۔ 90 کی دہائی میں تو انہوں نے ڈھکے چھپے انداز میں قوم پرستوں کی مخالفت کی لیکن اب وہ بظاہر اعلانیہ طور پر ایسا کر رہے ہیں۔

اس کی واضح مثال چند ہفتے قبل راولاکوٹ میں این ایس ایف کی ریلی کے دوران کالعدم تنظیموں سے ان کا ٹکراؤ ہے، جس دوران ان تنظیموں کے کارکنان مسلسل "(کشمیری) قوم پرستوں کا ایک ہی علاج، الجہاد، الجہاد" کے نعرے بھی لگاتے رہے۔

این ایس ایف نے لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف ہونے والی گولہ باری کے خلاف ایک احتجاجی ریلی نکالی تھی جسے کالعدم تنظمیوں کے افراد نے روکا اور بعد ازاں 'سرخوں' (ترقی پسند قوم پرستوں) کو قتل کرنے کا فتویٰ صادر کر دیا۔

دو دسمبر بروز جمعہ راولاکوٹ، ہجرہ، کھائی گلہ اور ملحقہ علاقوں میں مختلف تنظیموں کی طرف سے پمفلٹ اور ہینڈ بلز تقسیم کیے گئے۔ ان پمفلٹس اور ہینڈ بلز میں قوم پرستوں کو 'دہریہ' اور 'واجب القتل' قرار دیا گیا تھا۔

ایسا لگتا ہے کہ تاریخ خود کو دہرا رہی ہے، اور کشمیر آج پھر اسی دو راہے پر کھڑا ہے جہاں وہ 90 کی دہائی کے اوائل میں تھا۔

سوال پھر وہی ہے کہ کشمیر کی آزادی کے لیے کس راستے کا انتخاب کیا جائے، کون سا طریقہءِ کار اختیار کیا جائے، کس حکمتِ عملی کو اپنایا جائے اور کس لائحہءِ عمل کو رد کیا جائے؟

مذہب کے نام پر قتال پر اکسانے والوں سے یہ پوچھا جانا چاہیے کہ کشمیر مختلف رنگوں، نسلوں، مذاہب اور سوچ کے ماننے والوں کا خطہ ہے اور اس کی آزادی کی تحریک میں کسی سوچ یا نظریے کے خلاف نفرت پیدا کرنے سے کسی طرح جدوجہد کامیاب ہوگی۔

آزادی کی اس تحریک کو کشمیریوں کو خود آگے بڑھانا چاہیے کیونکہ دوسرے علاقوں سے آنے والے جنگجوؤں اور ان کے انتہاپسند بیانیے نے کشمیر کی مقامی تحریکِ آزادی اور ان کی اخلاقی برتری کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔

عمران خوشحال راجہ

عمران خوشحال راجہ کشمیریکا بلاگ کے بانی اور آن کشمیر اینڈ ٹیررازم کے مصنف ہیں۔ ان کی دوسری تصنیف دریدہ دہن ہے۔ کبھی کبھار شاعری کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: imrankhushaal@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

Danish irshad Dec 21, 2016 05:35pm
درست کہا کہ مسلح جدوجہد مسئلہ کشمیر کا کوئی حل نہیں تاہم رائٹر کوئی معقول تجویز دینے میں ناکام رہا ۔لکھتے ہیں کشمیریوں کو خود تحریک کو آگے لے جانا چاہئیے ۔ اس کیلئے پہلے کشمیریوں کو با اختیار بنایا جائے اور عالمی سطح پر ان کی ہندوستان اور پاکستان سے ہٹ کر شناخت تسلیم کی جائے۔ اس کے بعد کشمیری اس قابل ہونگے کہ وہ اپنی تحریک کو خود آگے بڑھا سکیں ۔ صرف اسلام آباد اور دہلی میں مسئلہ کشمیر اجاگر نہیں ہوتا۔ جن تنظیموں کا موصوف نے ذکر کیا ہے ان کے آنرز بیرون ملک بیٹھ کر بیان بازی کے سوا کچھ نہیں کرتے۔
Rais Dec 22, 2016 02:43pm
@Danish irshad ap nay bohat sahi kaha hay jab tak kashmirion kay hath main koi power hi nahi hogi woh kuch kar nahi sakty

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024