ہزارہ کی لڑکیوں کا مقبول کھیل: مارشل آرٹس
ہزارہ کی نوجوان لڑکیوں کے اس گروہ کے لیے مارشل آرٹس ایک مقبول کھیل ہے۔
کوئٹہ کے مضافات میں ہزارہ کی لڑکیوں کا ایک گروہ وشو مارشل آرٹس کی صلاحیت کو بہتر کرنے کے لیے سردھڑ کی بازی لگارہا ہے۔ ہزارہ ٹاؤن میں واقع دی لائن آرٹس اکیڈمی مقامی لڑکے اور لڑکیوں کی تربیت کے لیے ایک سائبان ہے۔
کالی اور سبز قمیض زیب تن کیے ہزارہ کی 20 لڑکیاں اپنے استاد کی پیروی کرتے ہوئے کمپاؤنڈ کی دیوار کو اپنے گھونسوں کی آواز سے لبریز کرنے کے لیے پرجوش تھیں۔ چینی مارشل آرٹس کے اس طرز کو اپنے تحفظ، شکار کی تکنیک اور قدیم چین میں ملٹری ٹریننگ کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ بظاہر جارحانہ مارشل آرٹس کی یہ مشق ان لڑکیوں کے لیے خوشی کا ایک لمحہ ہے جو ایک ایسے شہر سے تعلق رکھتی ہیں جو ریاست اور کالعدم تنظیموں کے درمیان میدان جنگ بنا ہوا ہے۔
ہزارہ کی 22 سالہ لڑکی جمیلہ مرزا نے کہا کہ 'مجھے کراٹے سے محبت ہے اور اس کھیل کے ذریعے اپنے ملک کانام روشن کرنا چاہتی ہوں'۔
قبل ازیں جمیلہ نے ایران میں ہندوستان، افغانستان اور میزبان ٹیم کے علاوہ عرب ممالک کی کھلاڑیوں کو شکست دے کر پیس اینڈ فرینڈشپ کراٹے چمپیئن شپ جیت لیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ 'میرا خواب تھا کہ میں اپنے ملک کے لیے بیرونی سرزمین میں فائٹ کروں'۔جمیلہ مارشل آرٹس کو جاری رکھنے اور اپنی صلاحیتوں کو بہترکر کرنے کے لیے تیار ہے جبکہ انھوں نے کم عمری میں بہت کچھ حاصل کیا ہے۔
اکیڈمی میں موجود دوسری کراٹے فائٹر پریسا سلطان بھی اس کھیل سے گزشتہ تین برسوں سے منسلک ہیں۔وہ اب صرف 15 سال کی ہیں اور کئی چمپیئن شپ ٹائٹل اپنے نام کر چکی ہیں۔
وہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر مقابلوں میں حصہ لے چکی ہیں اور بلوچستان کراٹے چمپیئن شپ کی قابل فخر فاتح ہیں۔
پریسا سلطان کہتی ہیں کہ 'یہ اپنے دفاع کے ساتھ ساتھ ایک متحرک کھیل ہے'۔پریسا ان 20 لڑکیوں میں شامل ہیں جو زیر تربیت 200 لڑکوں کے مارشل آرٹس اسکول میں موجود ہیں۔
ووشو لائن آرٹس اکیڈمی کے ایک استاد ماسٹر نجیب پائندہ کا کہنا تھا کہ 'ہم اپنے شاگردوں سے ماہانہ 300 روپے فیس وصول کرتے ہیں'۔
اکیڈمی گزشتہ دس برسوں سے طلبا کی کراٹے کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں مصروف عمل ہے۔ تاہم ماسٹر نجیب نے انکشاف کیا کہ گزشتہ 5 سالوں کے دوران لڑکیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، وہ کوئٹہ کے نوجوانوں کو ایک نئی کھیل کی طرف راغب کرنے اور تربیت دینے کو فخر محسوس کرتے ہیں۔
ہزارہ پارکور گروپ نے ماضی میں ایڈونچر کے ساتھ سوشل میڈیا میں دھوم مچائی تھی جو اب کوئٹہ کے نوجوانوں کا حصہ بن رہا ہے۔
منگول شباہت کے حامل شیعہ ہزارہ بلوچستان کے مختلف حصوں میں مسلح دہشت گردوں کا مسلسل ہدف بنے رہے ہیں جس کے نتیجے میں یہ برادری شہر کے ایک مخصوص حصے تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ اکتوبر کے اوائل میں ایک بس پر حملے میں چار ہزارہ خواتین کو ہلاک کیا گیا تھا۔