• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

شام کی جنگ میں کیا سچ کیا جھوٹ

شائع December 19, 2016

ویت نام کے زمانے کی شاید سب سے مشہور تصویر اس فوجی کرنل کی ہے جو ایک سویلین کو سڑک کے کنارے گولی مار رہا ہے۔

یہ تصویر ایڈی ایڈمز نامی ایک مشہور فوٹو گرافر نے کھینچی جسے بعد میں اس تصویر پر پولٹزر پرائز بھی ملا۔

تصویر ہے بھی ایسی۔ جنگ کی بربریت اور وحشت کا استعارہ۔ بہت سارے لوگوں نے اس تصویر کو ویت نام کی جنگ کے خلاف ایک احتجاجی علامت کے طور پر استعمال کیا۔ لیکن ایک بات شاید بہت کم لوگوں کو پتہ ہے۔ اس تصویر کے فوٹو گرافر نے کئی دفعہ اس افسوس کا اظہار کیا کہ اسے یہ تصویر نہیں کھینچنی چاہیے تھی، کیوں کہ اس کے بقول یہ تصویر پورا سچ نہیں بتا رہی، بلکہ ایک ظالم کو مظلوم ثابت کر رہی ہے۔

اس تصویر میں جس شخص کو گولی ماری گئی تھی وہ ویت کانگ گوریلا گروپ کا ایک قاتل تھا اور درجنوں لوگوں اور ان کے خاندانوں کو قتل کر چکا تھا۔

جس وقت اسے گرفتار کیا گیا، اس وقت بھی وہ ایک قتل کی واردات کے سلسلے میں ہی موجود تھا اور اپنا کام مکمل کرنے ہی والا تھا۔ اس گوریلے کو اس طرح سرسری گولی مارنا یقیناً غلط تھا اور انصاف کے تقاضے پورے ہونے چاہیے تھے، مگر تصویر کی دردناکی اس کی مظلومیت کی سند بھی نہیں ہے۔ یہ تصویر جو بظاہر ایک کھلی سچائی نظر آتی ہے، اس حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے کہ ہماری اس دنیا میں کھلی سچائیاں بہت ہی کم ہیں۔

پڑھیے: بچوں نے شامی جنگ کا سب سے زیادہ تاوان ادا کیا

سچ شاید ایک ایسے جگسا پزل کی طرح ہے جس کے ہزاروں ٹکڑے ہیں اور ہمارے ارد گرد ہر شخص کے پاس اس سچ کے صرف کچھ ہی حصے موجود ہیں۔ کچھ سچے اور زیادہ تر خود تراشے ہوئے۔ حقیقت کی جستجو اصل میں ان سچے حصوں کو ڈھونڈنے اور جعلی حصوں کو رد کرنے کا نام ہے۔

اگر آپ نے شام کے شہر حلب میں شامی فوج کی کامیابی کی خبریں ذرا توجہ سے دیکھی ہیں تو آپ کو متضاد خبریں ملیں گی۔ ٹوئٹر اور فیس بک پر کیے جانے والے یہ تبصرے اور اس سلسلے میں پوسٹ کی جانے والے تصویریں اتنی متصادم ہیں کہ آپ سر پکڑ کر بیٹھ جائیں گے کہ سچائی کس کی جانب ہے۔

ان پوسٹوں سے کچھ اور ملے نہ ملے آپ کو یہ ضرور پتہ چل جائے گا کہ کون نظریاتی، فرقہ وارانہ اور مذہبی بنیادوں پر کس مسلک یا طبقے سے تعلق رکھتا ہے۔ شیعہ ہے تو کس کی حمایت کرے گا، سنی ہے تو کس کی اور اگر لبرل ہے تو کس کی؟

حلب سے اچانک نشر ہوتے آخری پیغامات سے آپ بھی جذباتی ہو جائیں گے۔

ان بے شمار پیغامات میں آپ کو حلب میں پھنسا شہری ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے کئی ایسے افراد بھی نظر آئیں گے جن کی پرانی ٹوئیٹس ان کی فرقہ وارانہ نفرت، شدت پسندی اور القاعدہ و داعش سے منسلک گروہوں کی حمایت کی عکاسی کرتی ہیں۔

آپ کو شاید لگے کہ فرانس، ترکی اور شام سمیت کئی دیگر ملکوں ہونے والے بہت سارے دھماکوں کی شاخیں جن لوگوں سے ملتی ہیں، وہ یہیں کہیں ہیں۔ اپنی فیس بک کی دیواروں پر آپ کو ان کے حمایتی لوگوں میں بھی زیادہ تر وہ لوگ ملیں گے جو جہاد کے حوالے سے مخصوص فقہی نظریہ رکھتے ہیں۔

کچھ سچ تو یہ لوگ بول ہی رہے ہیں۔ بہت ساری بھوک اور افلاس۔ بہت ساری خاک اور خون۔ مگر یہ پورا سچ نہیں۔ اگر آپ ان لوگوں کے پاس داعش اور جبہت النصرہ فرنٹ کے جنگجوؤں کی بربریت کا سچ ڈھونڈیں گے تو شاید اپ کو نہیں ملے گا۔ اگر آپ سمجھدار ہیں تو اندازہ بھی کر لیں گے کہ یہ تصویریں اس تندور کی آگ کو گرم کرنے کے لیے پھینکا گیا تیل ہے جس میں کئی طاقتیں اپنے مطلب کی روٹیاں سینک رہی ہیں۔

مزید پڑھیے: شام کا حلب— کیا سے کیا ہوگیا

اگر آپ دیوار کی دوسری جانب دیکھیں گے تو آپ کو ایک اور منظر نظر آئے گا۔ آپ کو نظر آئے گا کہ بشارالاسد کی حمایت کرنے والوں کا ایک طبقہ اپنے اپنے فقہی رہنماؤں یا اپنے نظریاتی قطب نما ملکوں کی ریاستی پالیسی کی وجہ سے شام کی حمایت کر رہا ہے۔

ان لوگوں کو انسانی حقوق اور عالمی قوانین سے شاید اتنی دلچسپی نہیں۔ اگر دلچسپی ہے تو اس ملک سے جس کی حمایت کا درس انہیں کسی منبر سے ملا ہے۔ کچھ سچ ان کے پاس بھی ہے۔ دہشت گردی پھیلانے والی کہانی کا سچ۔ نفرتوں اور فرقہ واریت کے تاجروں کے حلب میں جمع ہونے کا سچ۔

مگر پورا سچ شایہ یہ بھی نہیں ہے۔

آپ ان کو لاکھ بتائیں کہ دنیا میں اور بہت سارے ممالک ہیں جن کی حدود پامال ہو رہی ہیں یا جہاں دوسرے ممالک اپنی پراکسی جنگیں لڑ رہے ہیں مگر ان کو اس سے دلچسپی نہیں ہوگی۔ اگر آپ ان کے پاس بشار الاسد کی آمریت یا بے گناہ شہریوں کی دردناک ہلاکت کا سچ تلاشیں گے تو ہو سکتا ہے کہ آپ کو خالی ہاتھ واپس آنا پڑے۔

ہو سکتا ہے کہ اس قضیے میں آپ کو بہت سارے سادہ لوح بھی نظر آئیں جو محض انسانی ہمدردی کے ناطے اپنی ذاتی رائے یا دلیل کے سہارے بات کر رہے ہوں گے۔ ان لوگوں کے پاس بھی اپنے حصے کا سچ ہوگا۔ دکھ اور ہمدردی کا سچ۔ سادگی اور کم علمی کا سچ۔ انسانی جان کی قیمت کا سچ۔ زمین کے ٹکڑے کے لیے انسانوں کے حیوان ہو جانے کا سچ۔

مگر ایسے لوگ ایک دو جملوں کے بعد چپ ہو جائیں گے۔ آپ ان کے اندر بحث کا جذبہ اور یقین کا وہ تسلسل نہیں دیکھیں گے جو دوسرے طبقوں میں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شام کی سرزمین افغانستان، پاکستان اور فلسطین کی طرح شطرنج کی وہ نئی بساط ہے جس میں عالمی، علاقائی، لسانی، مذہبی اور سیاسی ہر قسم کے طالع آزما اپنے اپنے معیار کی شطرنج کھیل رہے ہیں۔

پڑھیے: شام کے بارے میں امریکی بچے کا دل چھولینے والا خط

یہ جنگ ہماری امت کے تاریخی اختلافات اور ان کے تازہ ترین رجحانات کا ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ہم سب اپنا چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔ اس جنگ میں عام انسانوں کی حیثیت شاید ان پیادوں جیسی بھی نہیں جنہیں جیتا یا ہارا جا سکتا ہے۔

مگر بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ ہر زاویہ دیکھنے کے ساتھ ساتھ ان میں توازن قائم رکھنا بھی ضروری ہے۔ ہر جرم ایک جیسا نہیں ہوتا۔ شامی صدر بشار الاسد ایک ڈکٹیٹر ہیں اور انہوں نے اپنے ملک میں لاکھوں لوگوں کے حقوق غصب ضرور کیے ہیں۔ مگر کیا وہ دنیا میں موجود آخری ڈکٹیٹر ہیں؟

بشار الاسد ہمارے جدید عالمی سیاسی نظام میں اس زنگ کی طرح ہے جو کونے کونے میں پھیلا ہوا ہے۔ ایک ایسا نزلہ جس کو اگر طریقے سے سلجھایا جائے تو خود بخود ختم ہو جائے گا۔

اس کے مقابلے میں داعش اور ان کے حمایتی وہ بارود ہیں جو ہمارے نظام کی ہر بنیاد اکھاڑنے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ وہ کینسر ہے جس کا اگر وقت پر علاج نہ کیا جائے تو ہمارے وجود کے ہر حصے میں پھیل جائے گا۔ یہ وہ سوچ ہے جس نے آرمی پبلک اسکول پر حملہ کیا۔ یہ وہ طبقہ ہے جو ایسی ہی باتیں ہماری فوج کے آپریشن کے بارے میں بھی کرتا آیا ہے۔ ان کو سب سے زیادہ شکایت اپنی درندگی کے پابند ہو جانے کی ہے۔

اگر شام کے عوام کو یا کسی بھی ملک کے عوام کو اپنا نظام بدلنا ہے تو وہ عوامی استقامت اور پر امن جدوجہد کے ٖذریعے ہی ممکن ہے۔ ورنہ جارج اورول کے ناول اینیمل فارم کی طرح جو نئی بربریت آئے گی وہ پہلے سے زیادہ مفاد پرست اور ظالم ہوگی۔

اختر عباس

اختر عباس اس آخری نسل کے نمائندے ہیں جس نے لکھے ہوئے لفظوں سے دور افتادہ رشتوں کا لمس محسوس کیا۔ وہ اس پہلی نسل کا بھی حصہ ہیں جس نے الیکٹرانک میسیجنگ کی برق رفتاری سے دلوں کے رنگ بدلتے دیکھے۔ نابیناؤں کے شہر میں خواب تراشتے ہیں اور ٹویٹر پر Faded_Greens@ کے نام سے چہچہاتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (5) بند ہیں

WASEEM Dec 19, 2016 07:00pm
BHAI KUCH SAMAJH NAI A SAKI K IS KALAM KA MAQSAD KIA THA.. AP PLEASE BRIEF TAU KARTAY.. YE JO AP NE BATAYA HAI YE BI ALHAMDULILLAH AKSAR LOG JANTAY HON GEY...
khalil ullah Dec 19, 2016 08:26pm
Akhtar sb b poora sach smny nhi la rahy .Daish k bary likh ao saheeh likh lakin Asad ki berbariat k bary sirf halka sa ishara.. Asad sb ny dandi mari hy
Ak Dec 19, 2016 09:19pm
Darya ko koozay main band kr diya hay. . .
حسن اکبر Dec 20, 2016 12:53pm
سوشل میڈیا پر جو گروپ بیرونی مسائل کی بنیاد پر ہمارے معاشرہ میں نفرت پھیلا رہے ہیں۔ ان گروپس کا نام لے کر ان کی مذمت کرنی چاہے ۔ یقینا ان کو نفرت پھیلانے کے لئے غیر ملکی فنڈنگ بھی مل رہی ہوگی۔ ورنہ سوشل میڈیا پر مفت میں منظم کام کرنا خاصا مشکل ہے ۔
Faisal Hussain Dec 20, 2016 01:45pm
Agreed with Mr. Khalid Ullah. Show both sides of coin.

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024