اے ٹی آر انجنوں کی جانچ ہمارے دائرہ کار میں نہیں:سی اے اے
پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی ( سی اے اے) نے کہا ہے کہ وہ اے ٹی آر طیاروں کی موجودہ حالت کو بہتربنانے لیے پاکستان انٹرنیشنل ائر (پی آئی اے) کی معاونت کررہی ہے جبکہ انجن اڑان بھرنے کے قابل ہیں یا نہیں اس کے حتمی فیصلے کا انحصار پی آئی اے اور مذکورہ طیارے بنانے والی کمپنی (او ای ایم) پر ہے۔
سی اے اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ندیم شریف پاشا نے پی آئی اے کو جاری ایک خط میں کہا ہے کہ گوکہ تمام اے ٹی آر طیاروں کی جانچ کا سلسلہ جاری ہے اور 'اے ٹی آر طیاروں کے انجن کی اندرونی جانچ کی صلاحیت ہمارے (سی اے اے) دائرہ کار سے بالاتر ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ جب تمام طیاروں کے ٹیکنیکل ریکارڈ کا جائزہ لیا گیا تھا تو 'خاص سفارشات' اخذ کی گئی تھیں۔
اپنے خط میں ندیم شریف پاشا نے تحریر کیا ہے کہ فیلڈ افسران کی جانب سے تیار کی گئی آڈٹ رپورٹ میں مینٹی نینس، کوالٹی ایشورنس اور پی آئی اے سی کے منیجمنٹ نظام میں کوتاہی کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے'۔
سی اے اے کی جانب سے تحریر کئے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ انجن کا تجزیہ اور انجن کی دیکھ بھال کی ذمہ داری پی آئی اے کی ہے اور سی اے اے، اے ٹی آر طیاروں کی شمولیت سے ہی تمام ناکام انجنوں کے اعداد وشمار جمع کر چکی ہے۔
مزید کہا گیا ہے کہ 'کاغذات کے جانچ کے مطابق طیاروں کے انجن کی خطرناک ناکامی کی وجوہات ایچ ٹی پی بلیڈز، بیرنگز، سرجنگ اور آئل سسٹم کے مسائل ہیں'۔
سی اے اے کا کہنا ہے کہ طیاروں کو 2007 میں متعارف کروایا گیا اور انجن کے ایچ ٹی پی بلیڈز کی ممکنہ لائف 15 ہزار سائیکلز تھی جو اوای ایم کے اعداد شمار کےمطابق ایک سائیکل، فلائٹ کے ایک گھنٹے کے برابر ہوتا ہے۔
چار سال کے عرصے میں چھ پروازوں کو معطل کرنا پڑیں، ای او ایم کی سفارش پر ہاٹ سیکشن کے اجزا کی لائف کو کم کرکے 5 ہزار ایف ایچ آر کردیا گیا۔
مزید کہا گیا ہے کہ '5ہزار ایف ایچ آر پر ایچ پی ٹی کے تبادلے کے پروگرام کو اپنانے کے بعد بھی پروازوں کو معطل کرنے کے مسائل پر قانو نہیں پایا جاسکا'۔
'پی ڈبلیو 127 کے انجن کی ناکامی کے غیر حتمی مواد کے مطابق پی آئی اے سی کو ایچ پی ٹی کی وجہ سے 20 پروازوں کو معطل کرنا پڑیں'۔
سی اے اے کی جانب سے بھیجے گئے خط کے مطابق شیڈول اور بغیر شیڈول پروازوں کے دوران انجنوں کی ناکامی کے 90 واقعات پیش آئے ہیں ان کے علاوہ اہم واقعات انجنوں سے منسلک اجزا کی ناکامی کے باعث پیش آئے۔