• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
شائع December 19, 2016

سندھ کے مائیکل اینجلو 'فقیرو فقیرا' سے ایک ملاقات

ابراہیم کنبھر

سقراط نے کہا تھا کہ "ہر پتھر میں ایک تصویر ہوتی ہے، پتھر کو تراش کر تصویر نکالنا مجسمہ ساز کا کام ہے۔" عظیم فلسفی کی اس بات کو دنیا بھر کے سنگ تراشوں اور مجسمہ سازوں نے گانٹھ کی طرح من کے پلو سے باندھ لیا۔

پتھروں کو کاٹتے، توڑتے، بناتے، بگاڑتے، چھیڑتے اور چھیدتے ایک بڑے اطالوی آرٹسٹ نے دو قدم آگے بڑھ کر یہ کہا کہ "فطرت کا ظلم یہ ہے کہ اس نے اعلیٰ شاہکاروں کو پتھروں میں قید کر دیا ہے۔ مجسمہ ساز کا کام ہے کہ ان پتھروں کو تراش کر مقید شاہکاروں کو رہائی دلائے۔"

پھر دنیا نے دیکھا کہ اس مجسہ ساز نے پتھروں میں مقید ایسے شاہکاروں کی جان چھڑوائی کہ صدیاں گزر چکیں لیکن وہ تراشے ہوئے بے جان مجسمے آج تک زندہ و تابندہ ہیں۔ دنیا اس عظیم آرٹسٹ کو مائیکل اینجلو کے نام سے جانتی ہے۔

یہ مجمسہ سازوں کا کمال ہے کہ وہ ایسے حسین شاہکار بناتے ہیں کہ یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ ابھی ہم کلام ہوں گے۔ کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مجسمہ بنانے کے بعد مائیکل اینجلو نے اسے دیکھا اور پھر غصے میں آکر اس کے گھٹنے پر ہتھوڑا دے مارا کہ "تم مجھ سے بات کیوں نہیں کرتے۔"

اسی مائیکل اینجلو کا ایک روحانی شاگرد ٹنڈوالہیار میں بھی رہتا ہے۔ نام ہے فقیرو میگھواڑ المعروف فقیرو فقیرا۔ فقیرو کے دادا برصغیر کے بٹوارے سے قبل گجرات ریاست کے ضلع بناس کانٹھا کے ایک گاؤں سے آ کر عمر کوٹ کے قریب شادی پلی میں آباد ہوئے، جس کے بعد روزگار اس خاندان کو ٹنڈوالھیار کھینچ لایا۔

فقیرو میگھواڑ۔— فوٹو ابراہیم کنبھر
فقیرو میگھواڑ۔— فوٹو ابراہیم کنبھر

فقیرو نے اپنا اسٹوڈیو گھر میں ہی قائم کر رکھا ہے۔— فوٹو ابراہیم کنبھر
فقیرو نے اپنا اسٹوڈیو گھر میں ہی قائم کر رکھا ہے۔— فوٹو ابراہیم کنبھر

آنکھ بند ہونے کے بعد مٹی سب کو گود میں لیتی ہے، مگر فقیرو ان لوگوں میں سے ہیں جن کی آنکھ ہی مٹی میں کُھلی، مٹی ہی ان کی پہلی ماں بنی، اس کو روند گوندھ کر، اس سے کھیل کر فقیرو بڑے ہوئے، پھر کمایا مٹی سے اور کھایا مٹی سے، اب تو فقیرو کا بڑا تعارف یہ مٹی ہی ہے۔

فقیرو کے والد گھر بنانے والے مستری، مزدور تھے۔ وہ مٹی سے کچے گھر، پکے گھر، پھر مندر، مندروں کی دیواروں پر نقش و نگار، رنگ برنگی ڈیزائن کا کام، مسجدوں کے میناروں کا کام، آگے چل کر مندروں میں رکھی مورتیوں کا کام کرتے رہے، جسے فقیرو اور ان کا بھائی بچپن سے دیکھ رہے تھے۔

دونوں بھائیوں نے سب سے پہلے گھر کے آنگن میں مٹی کے کھلونے بنائے۔ فقیرو اور بھائی مان سنگھ بڑے ہوئے تو پھر وہ کھلونے بھی بڑے ہو کر مجسمے اور مورتیاں بن گئیں، فقیرو کا بھائی مان سنگھ سرکاری ملازمت کی وجہ سے اس کام کو خیرآباد کہہ چکا، لیکن فقیرو فقیرا مٹی کا بن کر ایک مجسمہ ساز کے روپ میں سامنے آگئے۔

ہاتھ، ہتھوڑا، پتھر، چھینی، تیشی، مٹی، چونا، فائبر، سیمنٹ، پینسل، رنگ، ان سب چیزوں کا دکھ درد، غم خوشی، پریشانی، اُلجھن، مسکراہٹ، اطمینان، اضطراب، انتظار، سکھ یا ارمانوں سے بظاہر کیا تعلق؟

لیکن اگر کوئی ان سب کو آپس میں جوڑ کر زمانے کو کوئی تعلق دکھا بھی سکتا ہے تو وہ فقیرو جیسا ہی کوئی فنکار، مصور، مجسمہ ساز اور بت تراش ہوگا۔

وہ مٹی میں ہاتھ ڈالیں تو ہم کلام ہوتے مجسمے جنم لیتے ہیں۔ اگر ہاتھ میں پینسل اٹھائے تو وہ تصویر، تصویر نہیں ایک سچ ایک حقیقت ایک زندگی کو گمان دینے لگتی ہے۔

فقیرو کے پاس آرٹ، فنون لطیفہ، تعمیرات، مجسمہ سازی، اور ڈرائنگ کی کوئی ڈگری نہیں۔ غربت کی زنجیر نے ان کے پاؤں ایسے جکڑے کہ وہ صرف بارہ جماعتیں ہی پڑھ پائے۔ انہوں نے لاہور کے مشہور نیشنل کالج آف آرٹس میں داخلہ لینے کی خواہش تو کی پر ہوا کچھ یوں کہ ان ہی دنوں اس کے والد اور بھائی ایک حادثے میں زخمی ہو گئے۔

— فوٹو ابراہیم کنبھر
— فوٹو ابراہیم کنبھر

— فوٹو ابراہیم کنبھر
— فوٹو ابراہیم کنبھر

پھر گھر گرہستی کی تمام ذمہ داری فقیرو کے کاندھوں پر آ گئی۔ فقیرا یہ کر، فقیرا وہ کر، اس کام پر جا، اس کام سے واپس آ، مندر دیکھ، رنگ، چونے اور مٹی کے اس کام سے پیسے بھی آنے لگے، گھر کے خرچے پورے ہوئے، پر فقیرو کی تعلیم کا تسلسل منقطع ہو گیا۔ یہ زندگی کا ایک پہلو تھا، فقیرو کی پڑھائی تو چھوٹ گئی لیکن ان کے اندر فن انگڑائی لے چکا تھا۔ وہی فن آگے چل کر فقیرو کی پہچان بن گیا۔

فقیرو فقیرا نے مجسمہ سازی کی باضابطہ ابتدا 1990 سے تب کی جب ٹنڈوالہیار کے راما پیر مندر کے لیے ہنومان کی مورتی بنائی، لیکن ہندوستان میں بابری مسجد پر حملے کے بعد یہاں بھی اس کا رد عمل ہوا جس میں وہ مورتی بھی شرپسندوں کا نشانہ بنی۔

مذہبی احساسات مجروح ہونے اور اپنے ہاتھوں سے بنائی گئی پہلی مورتی کے ٹوٹنے کے دکھ کی دو دھاری تلوار نے فقیرو کو اندر تک زخمی کیا لیکن وہ جلد ہی سنبھل گئے۔ انہوں نے اسی مورتی کو مزید خوبصورت بنا کر وہیں پر رکھ دیا۔

مندروں میں کام کرتے فقیرو کو لگا کہ یہ فن مندروں سے باہر بھی ہو سکتا ہے۔ باہر فن کی ایک الگ ہی دنیا آباد ہے اور قدردانی بھی خوب ہے۔ اس سوچ کے ساتھ اب وہ اپنے اندر کے فنکار کو گلی کوچوں کے عام لوگوں کے مجسمے بنانے پر آمدہ کر چکا تھا۔

انہوں نے گھر کے اندر اسٹوڈیو بنایا، پھر عام لوگوں کے مجسمے بنائے، اپنے شھر کے لوگوں کو بلا کر ان کے سامنے ان کے لائیو مجسمے بنائے۔

فقیرو کا کہنا ہے کہ "1998 میں مجھے ضرورت محسوس ہوئی کہ براہ راست مجسمہ سازی کا کام بھی کرنا چاہیے۔ میں نے کچھ لوگ اپنے پاس بٹھا کر ان کے مجسمے بنائے، اس کام سے مجھے کافی کچھ سیکھنے کا موقع بھی ملا‘‘۔

— فوٹو ابراہیم کنبھر
— فوٹو ابراہیم کنبھر

— فوٹو ابراہیم کنبھر
— فوٹو ابراہیم کنبھر

فقیرو کا کام دو طرح کا ہے۔ ایک کام مندروں اور کلیساؤں کے لیے کمرشل یا پراجیکٹ کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ ان مورتیوں یا مجسمہ سازی سے فقیرو اپنے گھر کی روزی روٹی کا بندوبست کرتا ہے۔

دوسرا کام اس فنکار کا ہے جو وہ اپنی خوشی اور تسکین کی خاطر کرتا ہے، اپنی روح سے کرتا ہے، اس کے پیچھے کوئی کمرشلزم نہیں، پیسے کی کوئی چاہت نہیں۔ وہی فن فقیرو کی اصلی پہچان ہے۔

فقیرو نے پانی کی شدید قلت سے دوچار ایک کسان کا مجسمہ بنایا۔ ایک مقروض، پانی کی بوند بوند کو ترستا، فصلیں تباہ ہونے کے خطرے میں گھرا ایک کسان۔ فقیرو نے اس کسان کی غربت، تنگدستی اور پریشانی کو خود محسوس کیا پھر اپنے احساسات کو اس مٹی میں گوندھ دیا۔

پھر جب بے سہارا، عمر رسیدہ کسان کا مجسمہ مکمل ہو کر سامنے آیا تو ہر دیکھنے والے نے اس مٹی کی مورت کے درد کو سمجھ کر اسے دلداری دینا چاہی۔ اسی طرح ایک بوڑھے ضعیف جوڑے کا مجسمہ ہے جس میں فقیرو نے دونوں کو ایک لاٹھی کے سہارے چلتے ہوئے دکھایا ہے۔ یہ مجسمہ دیکھنے والوں کو وفا اور ایک دوسرے کا سہارا و ڈھارس ہونے کا مفہوم سمجھاتا ہے۔

سندھ میں مصوری، مجسمہ سازی، اور ڈرائنگ پر بڑا کام ہو رہا ہے، سندھ یونیورسٹی کا آرٹس اینڈ ڈیزائن کا شعبہ ہو یا مہران یونیورسٹی کا سینٹر آف ایکسیلینس ان آرٹ اینڈ ڈیزائن، یہاں کے فنکاروں کے کام کے کئی معترف ہیں۔

— فوٹو ابراہیم کنبھر
— فوٹو ابراہیم کنبھر

— فوٹو ابراہیم کنبھر
— فوٹو ابراہیم کنبھر

آج بھی سندھ میں فتاح ہالیپوٹو، نظام الدین ڈاہری، علی احمد منگنہار، محمد علی ٹالپر، جام ڈیپر، نادر علی جمالی، نصرت رضا منگی اور کئی بڑے نام اپنی فنکارانہ صلاحیتوں میں سے فن و درس دے رہے ہیں۔

فقیرو نے ان میں کچھ سے رفاقت جوڑ لی اور کچھ فنکاروں کے پاس شاگرد بن کر پہنچے، فتاح ہالیپوٹو کو فقیرو اپنا بڑا اور استاد مانتے ہیں۔ نظام الدین سے بھی انہوں نے کئی گُر سیکھے۔ اسی طرح فقیر طبع مصور محمد علی ٹالپر سے دوستی اور شاگردی دونوں کا رشتہ رہا۔

فقیرو سب استادوں کے لیے انتہائی عزت و احترام رکھتے ہیں مگر وہ اپنا روحانی استاد دو عظیم مجسمہ سازوں مائیکل اینجلو اور برنینی کو مانتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ’’میں نے ان دونوں کے کام کو دیکھ کر بہت کچھ سیکھا ہے اور جب ان کے شاہکار دیکھتا ہوں مجھ میں ایک طاقت پیدا ہو جاتی ہے‘‘۔

فقیرو نے مندروں کے لیے ہنومان، شیو شنکر، شیراں والی ماتا کے ساتھ ہندو عقیدے کے عین مطابق ان کی فرمائش پر کئی مورتیاں اور مجسمے بنائے۔ ان کی تعداد لگ بھگ 315 ہے، جبکہ سندھ کے مختلف شہروں میں جو کلیسا ہیں، ان میں حضرت عیسیٰ اور بی بی مریم کی کئی مورتیاں اور مجسمے فقیرو کے ہاتھوں سے بن کر ہی وہاں پہنچے ہیں۔

مندروں کی مورتیاں بنانے کے باوجود وہ فن کو مذاہب کی قید میں رکھنے کے قائل نہیں۔ فقیرو کا ماننا ہے کہ "فن کو کسی مذہب تک محدود نہیں رکھا جا سکتا۔ اسے مذہب میں مقید کرنا زیادتی ہے، فن کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، فن تو انسانیت سے پیار کا نام ہے۔"

— فوٹو ابراہیم کنبھر
— فوٹو ابراہیم کنبھر

— فوٹو ابراہیم کنبھر
— فوٹو ابراہیم کنبھر

ان کے بنائے ہوئے مجسموں کی کراچی اور حیدرآباد میں نمائش بھی ہو چکی ہے، وہ آرٹسٹ حمیرا عباس کے ساتھ استنبول میں کاما سُترا سیریز پر کام کر کے آئے ہیں۔ یہ الگ بات ہے ان کے اپنے نام کے ٹیگ ان مجسموں پر نہیں تھے۔ ایک نمائش نیپال میں بھی منعقد ہوئی۔

اب تک انہیں آسٹریلیا، ہندوستان، امریکا، لندن، کینیڈا اور مصر سے کئی پیشکشیں آ چکی ہیں لیکن فقیرو سے اپنا ٹنڈوالہیار نہیں چھوٹتا، شہر نہ چھوڑنے کے دو اسباب ہیں۔ ایک تو اپنے دیس اور اس کی مٹی سے محبت کا رشتہ ہے، دوسری وجہ بتاتے ہوئے فقیرو کہتے ہیں کہ "ہمارا خاندان بڑا ہے اور میری گھر والی بھی پڑھی لکھی نہیں، باہر رہنے میں مسائل ہوں گے۔‘‘

سندھ حکومت، اس کے محکمہء ثقافت یا وفاقی سرکار، کسی کی نظر اس فقیر منش اور مٹی جیسے فنکار پر نہیں پڑتی۔ ان سب کی نظروں سے دور فقیرو بھی اپنے فن میں مگن ہیں، بلکہ یہ فقیرو کی خودداری ہے کہ وہ نہ کبھی کسی کے پاس گئے، نہ کسی سے کچھ مانگا اور نہ ہی ان کا ایسا کوئی ارادہ ہے۔

انہیں نہ کسی سرکار سے اور نہ ہی کسی فرد سے کوئی شکایت ہے۔ ان کی نہ کوئی فرمائش اور نہ کوئی مطالبہ ہے: "مجھے کسی سے کچھ نہیں چاہیے، بس میں اپنے حصے کا کام کر رہا ہوں کافی ہے۔"


ابراہیم کنبھر اسلام آباد میں مقیم ہیں اور سندھی ٹی وی چینل کے ٹی این سے وابستہ ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

ابراہیم کنبھر

مصنف سچل آرٹس اینڈ کامرس کالج حیدرآباد میں لیکچرر ہیں، اسلام آباد میں صحافت کا پندرہ سالہ وسیع تجربہ رکھتے ہیں، سندھی اور اردو زبان میں ایک ہزار سے زائد مضامین تحریر کر چکے ہیں۔

ان سے ان کی ای میل پر رابطہ کیا جاسکتا ہے: [email protected]

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (34) بند ہیں

Akhtar Hafeez Dec 19, 2016 02:46pm
بہت ہی بہترین تحریر۔ میرے خیال میں فقیرو کے لیے اس بہترین خراج تحسین اور نہیں ہو سکتا۔
Raja Bilal Dec 19, 2016 03:56pm
Lajawaab maharat hai iss banday k hath main.
Aamir Gondal Dec 19, 2016 04:30pm
Mr. Ibrahim You are a great reporter and Fakiro is amazing artist. May Allah bless you. All regards Aamir from KSA
Ghulam shabir laghari Dec 19, 2016 06:06pm
lajwab blog hay..zabardast dear
بتول فاطمہ Dec 19, 2016 06:34pm
میں فقیرو کا کام دیکھ کر حیران ہوگئی ہوں۔ میرے اللہ یہ تو سندھ کا مائیکل اینجلو ہے۔ ابراہیم صاحب بہت بہت شکریہ۔ فقیرو کا کام بین الاقوامی طور پر پیش کرنے کی ضرورت ہے۔
Najeeb ahmed Dec 19, 2016 06:39pm
Wonderful. Is it good to find that so much talent is hidden in small cities as well. We need to promote to such talent as much as possible. I would like to contact the artist to make the sculpture. It would be nice if anyone can help to reach him.
Abid Ali Arain Dec 19, 2016 07:23pm
ہمت مرداں مدد خدا جس انسان کا نظریہ واضح ہو اسے کسی کی مد د کی ضرورت نہیں ہوتی،نہ وہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلاتا ہے اور نہ وہ کسی سے کوئی توقع رکھتا ہے بہترین تحریرپر ابراہیم کنبھر کو سلام
sky saif Dec 19, 2016 07:33pm
Endless art,,,we proud on him,,,hats off bro,,,ur work ur aim ur hard work ur natural skills its amazing
merullah talpur Dec 19, 2016 09:32pm
great dear sir, love Fakiro's work indeed
FIda BOZADAR-Khairpur Dec 19, 2016 10:03pm
Just amazing..i would like to request to media persons for promotion of Fakeera Fakeero work at international level.. A sign of love and beauty.
اجیت Dec 19, 2016 10:22pm
اگر آپ میڈیا والے ایسی پوسٹن بار بار شایہ کرتے رہیں تو یہ حکمران آنکھیں کھولیں گے،
ibrahim kumbhar Dec 20, 2016 12:40am
@بتول فاطمہ ہمارے ہاتھ میں قلم ہے ایک کوشش کی ہے تاکہ اس کو اس کے فن کو پذیرائی مل سکے۔۔۔۔ وہ بہت بڑا فنکار ہے۔۔۔ کچھ اور تصاویر بھی میرے پاس ہیں حیران رہ جاتا ہے بندہ اس کے کام کو دیکھ کر
AJ Jamali Dec 20, 2016 10:18am
Thanks for sharing a story of such a great artist.. Well written, Keep it up..
khalid hussain kolachi Dec 20, 2016 02:04pm
Faqeero Meghwar ko Allah Talla ne Khudadad Salahiyaton ka malik banaya hai. Faqeero k hunar k samny sarhaden be-mana ho gai hain. Apny hunar se pori dunia me Sindh / Pakistan ka nam roshan karega.
khalid hussain kolachi Dec 20, 2016 02:04pm
great work....
Adnan Dec 20, 2016 02:06pm
I have heard about him a lot, and now i finally see him, he is brilliant , he is a great artist... i'm happy to see a article about him.. thanks for sharing with us...
tilok Dec 20, 2016 02:27pm
Great history ada IBRAHIM KUMBHAR
Muhammad Imran Junejo Dec 20, 2016 03:03pm
Shandar, Jabarjast, Jindabad.
nabiha Dec 20, 2016 03:08pm
beautiful words that the writer has chosen ..... it was really pleasure to read this piece
Mahboob alam Dec 20, 2016 04:17pm
Awasome
شبیر رخشانی Dec 21, 2016 12:29am
میں سمجھتا ہوں ابراہیم کھمبر صاحب نے فقیرو کی زندگی کو لفظوں میں قید کیا ہے۔۔۔ کھمبر صاحب لکھتے رہیے قلم اور قلمکار سلامت رہیں
mansoorahmed Dec 21, 2016 01:53am
بہت ہی بہترین تحریر۔ میرے خیال میں فقیرو کے لیے اس بہترین خراج تحسین اور نہیں ہو سکتا
hASnain Dec 21, 2016 08:04am
@بتول فاطمہ waqi
NB Dec 21, 2016 09:10am
Excellent reporting with outstanding pictures. Well done Ibrahim Sahib.
عاطف Dec 21, 2016 11:42am
فقیرا میگھواڑ بلاشبہ خداداد صلاحیتوں کا مالک ہے۔۔فقیرو کے فن پارے داد کے مستحق ہیں۔۔لیکن ابراہیم کنبھر کی تحریراور لفاظی نے فقیرو کے تعارف میں چار چاند لگادیے۔۔بہت خوب لکھا اور ایک فنکار کو بہت خوب پیش کیا
عاطف Dec 21, 2016 11:41am
فقیرا میگھواڑ بلاشبہ خداداد صلاحیتوں کا مالک ہے۔۔فقیرو کے فن پارے داد کے مستحق ہیں۔۔لیکن ابراہیم کنبھر کی تحریراور لفاظی نے نے فقیرو کے تعارف میں چار چاند لگادیے۔۔بہت خوب لکھا اور ایک فنکار کو بہت خوب پیش کیا
عاطف Dec 21, 2016 11:41am
فقیرا میگھواڑ بلاشبہ خداداد صلاحیتوں کا مالک ہے۔۔فقیرو کے فن پارے داد کے مستحق ہیں۔۔لیکن ابراہیم کنبھر کی تحریراور لفاظی نے نے فقیرو کے تعارف میں چار چاند لگادیے۔۔بہت خوب لکھا اور ایک فنکار کو بہت خوب پیش کیا
Gul Hassan lakho Dec 21, 2016 12:42pm
ادا ابراہیم کنبھر بہت ہی اچھی پوسٹ ہے۔ آپ کی پوسٹ سے یہ اندازہ ہوا کہ ہمارع سندھ میں کیسے کیسے بندے بیٹھے ہیں، ہمیں ان کا پتہ تک نہیں۔ فقیرو کا کام واقعی بہت بڑہیا ہے۔ امید ہے کہ آپ آئندہ بھی اس طرح کی تحریریں لکھتے رہیں گے۔
ishrat jafri Dec 21, 2016 02:59pm
Bohat hi A'ala
sadaqat ali kaka Dec 21, 2016 07:26pm
allah humesha asy qamiyab kary aamin
Abdul Qayoom Dec 21, 2016 07:47pm
حیرت انگیز اور بہت خوبصورت، شکریہ ڈان
jami Dec 21, 2016 08:04pm
zindagi ki haqeeqat aur talkhiyan inhu ny apny mujasmu mein zahor kr di dein...such a nice art work...hats off
Sain sajid karach Mar 22, 2017 11:00pm
Faqiro sahib agar Tm Iran me hoty yakeen jano Tm KO dunya Salam krti Hamari bad kismati Hm Pakistani kabhi apny logo Ki na tareef krty he awr na support krty he God bless you sir
Sain sajid karach Mar 22, 2017 11:09pm
God bless you