لندن کی کمپنی کیلئے ایموجیز کا ترجمہ کون کرے گا؟
2015 میں آکسفورڈ کی جانب سے ’ایموجی‘ کو ورڈ آف دا ایئر قرار دینا ثابت کرچکا ہے کہ ہماری زندگی میں احساسات، خیالات اور جذبات کی ترجمانی کے لیے ’ایموجیز‘ کا استعمال اس قدر اہم ہے۔
برقی خطوط سے شارٹ میسجنگ سروس اور پھر سوشل میڈیا کی آمد کے بعد سے کہنے، بتانے اور جتانے کے انداز جدید ہوچکے ہیں، اسی لیے اب اشاروں کی زبان سے بھی جدید ’ایموجیز‘ کی زبان ہمارے معمول کا حصہ بن چکی ہے۔
ویسے تو یہ زبان بے حد آسان معلوم ہوتی ہے لیکن لندن کی ایک کمپنی کو اس تیزی سے مقبول ہوتی زبان کے لیے مترجم کی تلاش نے پریشان کر رکھا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک ترجمہ کرنے والے ادارے کی جانب سے ’ایموجی ٹرانسلیٹر‘ کی تلاش کا اشتہار سامنے آچکا ہے۔
لندن میں موجود اس کمپنی کا خیال ہے کہ اس منفرد نوعیت کے کام کی ضرورت اس لیے پیش آئی تاکہ تیزی سے مقبول ہونے والی ایموجیز کی زبان کی وجہ سے سامنے آنے والے چیلنجز سے نمٹا جاسکے۔

ادارے کی ویب سائٹ پر دیئے جانے والے اس اشتہار میں لکھا ہے کہ ٹرانسلیٹر کی ذمہ داریوں میں اسمارٹ فون صارفین کی جانب سے بے انتہا استعمال کی جانے والی ننھی منھی تصویروں کے آسان مطلب بتانا شامل ہے۔
اشتہار کے مطابق ایموجیز کا ترجمہ کرنے ایک پھلتا پھولتا کام ہے اور آخر کیوں نہ ہو دنیا بھر میں اسمارٹ فون صارفین کی بات چیت ان کے استعمال کے بغیر ادھوری ہے۔
کمپنی کی سی ای اوکہتی ہیں کہ ہم اس دور میں جی رہے ہیں جب فون میں موجود پیغامات کو بھی شواہد کے طور پر شمار کیا جاتا ہے۔
ان کے خیال سے ایموجیز کی زبان کو سمجھنا لفظوں کی زبان سمجھنے سے کہیں زیادہ پیچیدہ کام ہے۔
لندن کی اس کمپنی کے معیار پر پورا اترنے والا ایموجی ایکسپرٹ ان 300 زبان کے ماہر افراد کے ساتھ کام کرے گے جو دنیا بھر کی زبانوں کا ترجمہ کرتے ہیں۔