پی ٹی آئی کمیشن کے مطالبے سے دستبردار کیوں؟
اپریل میں پاناما لیکس سامنے آنے کے بعد تحقیقات کے لیے 20 اکتوبر سے شروع ہونے والی سپریم کورٹ کی کارروائی 9 دسمبر کو انجام پذیر ہوئی۔
فیصلے کے مطابق وزیرِ اعظم اور ان کے خاندان کے خلاف دائر کردہ درخواستوں کی سماعت کے لیے نیا بینچ تشکیل دیا جائے گا، جو کہ جنوری کے پہلے ہفتے میں نئے نامزد چیف جسٹس، جسٹس ثاقب نثار کے عہدہ سنبھالنے کے بعد کارروائی کا آغاز کرے گا۔
عدالت نے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ اس سماعت کو "پارٹ ہرڈ" یعنی "سنا ہوا مقدمہ" نا سمجھا جائے۔
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کی آٹھ سماعتوں کے بعد دیے جانے والے فیصلے کو اگر ایسے پڑھا جائے تو آسانی رہے گی کہ:
"عدالت کے فیصلے کے مطابق یکم نومبر سے 9 دسمبر تک کھیلے جانے والے 8 روزہ ٹیسٹ میچ (سماعتوں) کو پریکٹس میچ سمجھا جائے اور اس دوران جتنے ریکارڈ بھی بنے (پیش کئے گئے)، ان کی کوئی اہمیت نہیں۔ دونوں فریقین کے مابین نئے امپائر (چیف جسٹس) کی موجودگی میں غیر معینہ مدّت تک ایک اور ٹیسٹ میچ کھیلا جائے گا۔"
پڑھیے: پاناما لیکس کیس: ’فیصلہ کمیشن نہیں سپریم کورٹ کرے‘
سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اُس وقت سامنے آیا جب پانچ رکنی بینچ نے وکلا کو کمیشن سے متعلق فریقین کی رضامندی جاننے کے لیے وقت دیا تھا، جس کے جواب میں عمران خان نے کمیشن کی تشکیل کو رد کرتے ہوئے کمیشن کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا، جبکہ وزیرِ اعظم کی طرف سے کمیشن کی تشکیل پر رضامندی ظاہر کی گئی تھی۔
اگر سپریم کورٹ میں دائر کی جانے والی پانچ درخواستوں کو دیکھا جائے تو ان تمام درخواستوں میں وزیرِ اعظم اور ان کے خاندان پر کرپشن، منی لانڈرنگ، لندن میں فلیٹس اور ٹیکس چوری کے مبینہ الزامات لگاتے ہوئے کارروائی کا مطالبہ کیا گیا تھا، جس کے بعد شریف خاندان کے خلاف ثبوتوں کی فراہمی درخواست دہندگان کی زمہ داری تھی، جبکہ شریف خاندان کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے سرمائے کی منتقلی کی تفصیلات پیش کرنا تھیں۔
دوسرے الفاظ میں یہ تمام درخواستیں صرف اور صرف وزیرِ اعظم اور ان کے خاندان کے خلاف پاناما لیکس میں لگنے والے الزامات کی تحقیقات کرنے کے لیے تھیں۔ سپریم کورٹ کا مذکورہ بینچ شریف خاندان کے علاوہ کسی اور کے خلاف تحقیقات کرنے کا مجاز نہیں تھا، بھلے ہی ان کے نام بھی پاناما لیکس میں سامنے آئے تھے۔
عمران خان کی طرف سے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کو فیصلہ دینے کا مطالبہ اور کمیشن کو رد کرنے کی بنیادی وجہ بھی یہ ہے کہ اگر کمیشن بنتا ہے تو وزیراعظم اور ان کے خاندان کے علاوہ عمران خان اور جہانگیر ترین کو بھی اپنی اپنی آف شور کمپنیوں اور بنی گالہ میں خریدے جانے والے گھر کے لیے مطلوبہ رقم کی ادائیگی اور منتقلی کا حساب دینا پڑ سکتا ہے۔
اس کے علاوہ عمران خان کے نام پر رجسٹرڈ آف شور کمپنی کو الیکشن کمیشن میں جمع کروائے گئے گوشواروں میں ظاہر نا کرنے کا معاملہ بھی نواز لیگ کی طرف سے جوڈیشل کمیشن میں سامنے لایا جاسکتا ہے۔ عمران خان نے برطانیہ میں کمائے گئے پیسے پر ٹیکس سے بچنے کے لیے یہ آف شور کمپنی بنائی تھی، جس کے ذریعے لندن کا فلیٹ خریدا گیا۔
مزید پڑھیے: پی ٹی آئی کا پاناما کمیشن کے بائیکاٹ کا فیصلہ
سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ آنے کے بعد جہاں ایک طرف وزیرِ اعظم کے فوری احتساب کے لیے پرامید تحریکِ انصاف تلملا رہی ہے، تو وہیں دوسری طرف نواز لیگ پھولے نہیں سما رہی کیوں کہ نواز لیگ کے ہاتھ عمران خان پر کیچڑ اچھالنے کے لیے ایک اور 'یوٹرن' ہاتھ لگ گیا ہے۔
اس کے علاوہ سماعت مؤخر ہونے کی وجہ سے نواز لیگ کو ایسے وقت میں مہلت مل گئی جب لندن فلیٹس کی خریداری سے متعلق وزیرِ اعظم کے وکیل سلمان بٹ 40 سال پرانے بینکوں کے کھاتے پیش نہیں کرسکے تھے۔
ممکن ہے کہ اس مہلت کے دوران نواز لیگ اپنے وکیلوں کی مدد کے لیے ایسے ثبوتوں اور مزید عربی شہادتوں کا انتظام کر لے جس سے ثابت کیا جاسکے کہ لندن فلیٹس شریف خاندان کی جائز کمائی کے ذریعے خریدے گئے ہیں۔
تحریک انصاف ایک بار پھر دعووں کے باوجود سپریم کورٹ میں شریف خاندان کے خلاف ثبوت پیش نا کرسکی، بلکہ جن نکات پر تحریک انصاف کے وکلا نے دلائل دیے، وہ یا تو نواز لیگ کے جمع کروائے گئے ثبوتوں اور دلائل سے اخذ کیے گئے تھے، یا پھر نواز لیگ کی طرف سے وزیرِ اعظم کی پارلیمنٹ میں تقاریر، الیکشن کمیشن میں جمع کروائے گئے گوشواروں کی تفصیلات اور حسن نواز کے نیوز چینلز کو دیئے گئے انٹرویوز پر مشتمل تھے۔
دوسری طرف تحریک انصاف کے وکلا کی جانب سے پیش کئے گئے دلائل کی روشنی میں 6 دسمبر کو جسٹس آصف سعید کھوسہ کی طرف سے نواز لیگ کے وکلا سے تین سوالات پوچھے گئے۔
وزیرِ اعظم کے بچوں نے کمپنیاں کیسے بنائیں؟
مریم نواز کی زیرِ کفالت ہونے کا معاملہ.
وزیرِ اعظم کی تقریروں میں سچ بتایا گیا ہے یا نہیں؟
جانیے: پاناما لیکس پر سپریم کورٹ نے 3 سوالات اٹھا دیئے
سات دسمبر کو ہونے والی سماعت میں کمیشن کی تشکیل کے لیے مشاورت کا وقت دیتے ہوئے سماعت 9 دسمبر تک ملتوی کردی گئی تھی اور نو دسمبر کو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے آئینی درخواستوں پر ہونے والی اب تک کی تمام کارروائی پر مٹی ڈالتے ہوئے سارا ملبہ نئے چیف جسٹس پر ڈال دیا۔
اب ہوگا کیا؟
چیف جسٹس، جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں کارروائی کرنے والے پانچ رکنی بینچ نے قرار دیا ہے کہ اس کیس کو "پارٹ ہرڈ" یا "مقدمے کو سنا ہوا" مقدمہ نا سمجھا جائے۔ یعنی کہ سپریم کورٹ میں دائر وزیر اعظم اور شریف خاندان کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت دوبارہ سے نئے سرے سے ہوگی۔
اس مقصد کے لیے اس کیس کو سپریم کورٹ کے کسی بھی بینچ کے سامنے پیش کیا جاسکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ نئے بینچ میں ججز بھی نئے ہوں اور انہوں نے اس کیس کی کارروائی کو نا سنا ہو۔ علاوہ ازیں یہ بھی ممکن ہے کہ بینچ میں ججز کی تعداد بڑھا دی جائے یا پھر فل کورٹ بینچ اس کیس کی سماعت کرے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ عدالت فیصلہ کرے کہ مقدمے کی ازسر نو سماعت کے بجائے مقدمے کو یہاں سے ہی شروع کیاجائے۔ لیکن اس کے لیے تمام ججوں اور درخواست گزاروں کی آمادگی لازمی ہے۔
آسان الفاظ میں نئے چیف جسٹس کی موجودگی میں نواز لیگ اور تحریک انصاف کے درمیان سپریم کورٹ کے اسٹیڈیم میں دوبارہ سے غیر معینہ مدت کا ٹیسٹ میچ کھیلا جائے گا، جس کا فیصلہ آنے میں مزید کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔
ممکن ہے کہ کئی ماہ تک سماعتوں کے بعد بینچ کمیشن بنانے کا فیصلہ دے اور پھر سماعتوں کا ناختم ہونے والا سلسلہ کمیشن شروع کردے.
تبصرے (1) بند ہیں