• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
شائع December 12, 2016 اپ ڈیٹ December 14, 2016

اکثر لوگ اس طرح کے جذبات کا اظہار کرتے ہیں کہ 'یہ خداداد صلاحیتوں کا حامل بچہ ہے، یہ بیٹنگ کرنے کیلئے ہی پیدا ہوا ہے'۔ اور ہاں، ان میں کچھ پہلے ہی دن سے کچھ خاص ہوتے ہیں۔ آپ انہیں دیکھتے ہیں اور جان جاتے ہیں کہ ان میں اپنے ہم عصروں سے زیادہ صلاحیت ہے اور انہیں دوسروں سے زیادہ عطا کیا گیا ہے۔

اکثر پاکستانی نوجوانوں کی طرح میں نے بھی بہت زیادہ کرکٹ کھیلی۔ گھر کے پیچھے، پارکنگ ایریا، گلی، اسکول کی تنگ راہداریوں اور پتھریلی و ناہموار زمین کے حامل گراؤنڈ میں سیمنٹ کی پچ پر جہاں گراؤنڈ کے کونے پر کچرا پھینکا جاتا ہے۔

حسن رضا نے 14 سال کی عمر میں ڈیبیو کیا۔ فائل فوٹو اے ایف پی
حسن رضا نے 14 سال کی عمر میں ڈیبیو کیا۔ فائل فوٹو اے ایف پی

کرکٹ کے دلدادہ میرے والد کے چار بیٹے تھے اور ان سب کو کرکٹ سے جنون کی حد تک لگاؤ تھا۔ اس میں چچا، ماموؤں اور بھتیجے بھانجوں کو شامل کر لیں اور یہ کرکٹ ماہرین سے بھرپور خاندان بن جاتا تھا۔

ہم میں سے تقریباً سب ہی نے کلب کرکٹ کھیلی لیکن میرے بھائی شاہ پور آغا خاندان میں سب سے زیادہ باصلاحیت تھے۔ وہ ہمیشہ دوسرے بچوں سے زیادہ رنز بناتے اور زیادہ وکٹیں لیتے۔

احمد مصطفیٰ گارڈن روڈ پر کراچی کی مقبول کرکٹ اکیڈمی 'کرکٹ کوچنگ سینٹر' چلاتے تھے۔ 90 کی دہائی کے اوائل میں شاہ سمیت شہر کے دیگر باصلاحیت نوجوانوں کے ساتھ ساتھ فیصل اقبال اور اویس شاہ کے کھیل کو بھی یہیں نکھارا گیا۔

یہ انتہائی باصلاحیت لڑکوں کا بہترین گروہ تھا جو کئی کئی گھنٹوں تک لگاتار کرکٹ کوچنگ سینٹر کے نیٹ میں پریکٹس کرتا تھا۔ لیکن اس جتھے میں حسن رضا نامی انتہائی غیرمعمولی نوجوان تھا۔ وہ 12 سال کی عمر میں بھی ہمیشہ ہجوم سے نمایاں نظر آتا تھا اور اس وقت بھی اس کے کھیل کا معیار کچھ اور ہی تھا۔

حسن ایک انتہائی دبلا پتلا سا نوجوان تھا جس کے ہاتھوں کے مسل وغیرہ بھی نہیں بنے ہوئے تھے لیکن وہ باآسانی گیند کو باؤنڈری کی راہ دکھا دیتا تھا۔ حسن کرکٹ کوچنگ سینٹر میں بالکل اسی طرح ممتاز نظر آتا تھا جیسے شاہ پور ہمارے گھر میں۔ وہ واضح طور پر بقیہ سب لوگوں سے بہتر تھا۔ یہ سب پر عیاں ہو چکا تھا کہ حسن کی قسمت میں عظیم کھلاڑی بننا لکھا ہے، وہ خداداد صلاحیتوں سے مالا مال تھا اور بیٹنگ کرنے کیلئے پیدا ہوا تھا۔

حسن نے 1996 میں 14 سال کی عمر میں ڈیبیو کر کے عالمی ریکارڈ بنایا (تاہم بعد میں پاکستان کرکٹ بورڈ اس ریکارڈ سے دستبردار ہو گیا کیوں کہ حسن رضا کی درست عمر کے بارے میں کچھ واضح نہیں تھا)۔ عالمی منظر نامے کے حوالے سے ان کی کمسنی کو دیکھتے ہوئے اگلے دو سال تک انہیں دوبارہ ٹیم کی نمائندگی کا موقع فراہم نہیں کیا گیا۔

حسن نے ڈومیسٹک کرکٹ میں عمدہ کھیل پیش کیا اور 1998 میں پھر پاکستانی ٹیسٹ ٹیم میں جگہ بنائی جہاں وہ 40 منٹ کریز پر گزارنے کے بعد صرف تین رنز پر محیط اننگز کھیل پائے۔ پاکستان نے اس میچ میں ایک ہی مرتبہ بیٹنگ کی کیوں کہ شدید دھند کی وجہ سے میچ کو منسوخ کردیا گیا تھا۔ اور پھر حسن کا کریئر مزید چار سال کیلئے کہیں گم ہو گیا۔ وہ اپنے انٹرنیشنل کیریئر کے ابتدائی چھے سال کے دوران صرف ڈیڑھ ٹیسٹ میچ کھیل سکے۔

2002 میں میک گرا، جیسن گلیسپی، بریٹ لی اور شین وارن جیسے باؤلرز کے خلاف شارجہ میں پاکستانی ٹیم دونوں اننگز میں بالترتیب 59 اور 53 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی۔ فرسٹ کلاس میں رنز کے انبار اور بہترین فارم کی بدولت پہلے سے ہاری سیریز کے تیسرے ٹیسٹ میچ میں حسن رضا کی ٹیسٹ ٹیم میں ایک بار پھر واپسی ہوئی۔

وہ پہلی اننگز میں 54 رنز بنا کر ناقابل شکست رہے اور دوسری اننگز میں 68 رنز بنانے کے بعد آؤٹ ہونے والے نویں بلے باز تھے جہاں پاکستان کو لگاتار دوسری اننگز کی شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ حسن نے دونوں اننگز میں نصف سنچریاں بنائیں جبکہ اس میچ میں کوئی دوسرا پاکستانی بلے باز 50 کا ہندسہ بھی عبور نہ کر سکا۔ اس سال انہیں مزید دو ٹیسٹ میچوں میں موقع دیا گیا (جس میں کُل تین اننگز شامل تھیں) اور حسن کو مزید تین سال کیلئے ڈراپ کردیا گیا۔

حسن بیٹنگ کی قدرت صلاحیتوں سے مالا مال تھے لیکن انہیں صحیح طریقے سے پروان نہیں چڑھایا گیا جس کے سبب وہ مزید نہ نکھر سکے۔ انہیں ان کے صحیح وقت سے قبل ہی میدان میں اتار دیا گیا۔ پاکستان میں ڈیبیو کرنے والے دیگر نوجوان کھلاڑیوں کی طرح انہیں بھی اس ماحول میں پھلنے پھولنے اور عالمی کرکٹ کے مطلوبہ معیار پر پورا اترنے کا موقع نہیں ملا۔

ڈومیسٹک اور انٹرنیشنل کرکٹ میں سب سے بڑا فرق دباؤ کا ہے اور ممکنہ طور پر حسن کا کیریئر توقعات کے بوجھ تلے دفن ہو گیا۔ ٹیسٹ کرکٹ میں کھیلی گئی 608 گیندوں میں انہوں نے 38.65 کی اسٹرائیک ریٹ سے 235 رنز بنائے۔

انہوں نے دس سال پر محیط اپنے کیریئر میں چار مختلف کپتانوں کی زیر قیادت سات ٹیسٹ میچز کھیلے۔

رواں سال 30 دسمبر کو 35 برس کے ہونے والے فیصل اقبال نے 2001 میں ٹیسٹ ڈیبیو کیا— فائل فوٹو: اے ایف پی
رواں سال 30 دسمبر کو 35 برس کے ہونے والے فیصل اقبال نے 2001 میں ٹیسٹ ڈیبیو کیا— فائل فوٹو: اے ایف پی

دسمبر 2004 میں ہاشم آملا نے 21 سال کی عمر میں جنوبی افریقہ کیلئے ڈیبیو کیا اور انہیں سب سے باصلاحیت جنوبی افریقی نوجوان کھلاڑی قرار دیا گیا۔ ٹیسٹ میں اپنے ابتدائی تین سال میں کھیلئ گئی 17 اننگز میں ان کی اوسط 22 کی تھی جس میں صرف ایک نصف سنچری شامل تھی۔ جب کوچ مکی آرتھر نے 2005 میں رے جیننگز سے ٹیم کی کمان لی تو انہوں نے آملا کو ٹیم میں جگہ کی یقین دہانی کرائی۔ بقیہ تمام باتیں تاریخ کا حصہ ہیں۔

آرتھر نے اب اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ پاکستان کی ناکامیوں کی اصل وجہ یہ ہے کہ اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع نہ ملنے کے سبب اکثر کرکٹرز ٹیم میں اپنی جگہ کیلئے کھیلتے ہیں۔ مطلوبہ نتائج کیلئے ایسا کلچر ہونا چاہیے جہاں کھلاڑیوں کی صلاحیتوں کو جانچ کر ان کی مکمل سپورٹ فراہم کیا جائے اور ان پر مکمل یقین کیا جائے۔

پاکستان میں 223 کھلاڑیوں کو ٹیسٹ کیپ دی گئی جن میں سے حیران کن طور پر 41 کھلاڑی دوسرا ٹیسٹ میچ کبھی نہ کھیل سکے۔

جدید دور میں اعداد و شمار اور سلو موشن کیمروں کی دستیابی کی بدولت عالمی سطح پر کھلاڑی کی خامی گزشتہ وقتوں کی نسبت کہیں زیادہ جلدی پکڑ میں آ جاتی ہے۔ کسی بھی قسم کی تکنیکی خامی فوری طور پر عیاں ہو جاتی ہے اور آسانی سے اس کا شکار کر لیا جاتا ہے۔

نچلی سطح سے ابھر کر سامنے آنے والے خام نگینوں کو کرکٹ کی نرسریز میں تراش خراش کر ان کی صلاحیتوں کو نکھارا جاتا ہے۔ نفسیاتی ماہرین کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں اور ہر اس چیز کا استعمال کیا جاتا ہے جس سے اس کی صلاحیتیں بہتر ہو سکیں۔ اس سے کرکٹ کی ہر سطح پر اچھے کوچزاور اکیڈمیز کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔

اکثر پاکستانی بلے باز کھیل کی اچھی سمجھ کے ساتھ منظر نامے پر آتے ہیں تاہم اکثر ہمارا سسٹم ان کی صلاحیتوں کو نکھارنے اور انسانی وسائل بڑھانے میں ناکام رہتا ہے جس کی وجہ سے عالمی سطح پر ان کی تکنیکی یا ذہنی ناپختگی فوری واضح ہو جاتی ہے۔

دوسری جانب باؤلرز کو نسبتاً زیادہ تبدیلیاں نہیں لانی پڑتیں اور وہ اپنی صلاحیتوں کے مطابق کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔ بلے بازوں کے برعکس باؤلرز کے پاس قدرتی طور پر غلطی کے بعد سنبھلنے اور ازالہ کرنے کا موقع ہے، کبھی کبھار تو وہ اگلی ہی گیند پر ایسا کر گزرتے ہیں۔ اسی طرح باؤلنگ میں پاکستان کے پاس مستقل اچھے باؤلرز رہے ہیں؛ یہ بیٹنگ ہی ہے جو ہمیشہ ہی مسئلہ رہی ہے۔

پاکستان میں جونیئر اور ڈومیسٹک کرکٹ میں انفرااسٹریکچرکبھی بھی عالمی معیار کے مطابق نہیں رہا۔ مزید یہ کہ حالیہ دور میں دیگر ممالک بہتر معاشی حالات اور گورننگ باڈیز کی بدولت اپنی جڑوں کو مضبوط کرنے کیلئے بڑے بڑے اقدامات کر رہے ہیں جس سے پاکستان کھیل میں مزید پیچھے رہ گیا ہے۔

شاہ پور نے بہت پہلے ہی پاکستان کیلئے کھیلنے کا خواب دیکھنا چھوڑ دیا تھا اور نوجوانی میں ہی اعلیٰ تعلیم کیلئے بیرون ملک چلے گئے۔

فیصل اقبال نے پاکستان کیلئے 26 ٹیسٹ اور 18 ایک روزہ میچز کھیلے۔ وہ ہمیشہ نوحہ کناں رہے کہ پاکستان کرکٹ میں کچھ طاقتیں انہیں ہمیشہ ناکام ہوتے دیکھنا چاہتی ہیں۔

کرکٹ کوچنگ سینٹر میں دیگر بچوں کی طرح اویس شاہ کی صلاحیتوں کو بھی نہیں پرکھا جا سکا تاہم حیران کن طور پر وہ انگلینڈ کیلئے تینوں فارمیٹس میں 94 ایک روزہ میچ کھیلنے میں کامیاب رہے، یہ تعداد فیصل اقبال اور حسن رضا کی جانب سے مجموعی طور پر کھیلے گئے میچوں سے زیادہ ہے۔

حسن رضا اب بھی ٹی ٹوئنٹی اور اے کرکٹ کھیلتے ہیں اور لیکن اب ان کے کھیل میں وہ بات نہیں رہی جو کرکٹ کوچنگ سینٹر کے بچے کے کھیل میں ہوا کرتی تھی۔ وہ انٹرنیشنل کرکٹ میں بری طرح ناکام ہوئے۔ اور ان کے معاملے میں پاکستان کرکٹ بھی۔

حسن رضا بیٹنگ کیلئے پیدا ہوئے تھے لیکن ان کی قسمت نے ساتھ نہیں دیا۔

شان آغا

شان آغا بچپن سے ہی کھیلوں سے عقیدت کی حد تک دلچسپی رکھتے ہیں اس قدر کہ ’’دی کرکٹر’’ میگزین کے اوراق کو نہایت مقدس مانتے ہیں۔

ان سے فیس بک پر رابطہ کیا جا سکتا ہے: گیم آن

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔