طیارہ حادثہ: میتوں کی شناخت میں کچھ دن لگ سکتے ہیں
اسلام آباد: حویلیاں میں گر کر تباہ ہونے والی پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کی پرواز پی کے 661 میں ہلاک 48 افراد کے ورثاء کو شناخت کی تصدیق کے لیے والدین یا قریبی خونی رشتے داروں کے ڈین این اے سیمپل فراہم کرنے کے لیے بلا لیا گیا۔
ہلاک شدگان کے والدین کے سیمپل نہ ملنے کی صورت میں شناخت کے لیے بچوں کے سیمپل استعمال کیے جاسکتے ہیں جبکہ تیسرے آپشن کے طور پر بہن بھائیوں کا ڈی این اے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے، دور کے رشتے دار جیسے کہ کزنز وغیرہ کے ڈی این اے سیمپل کو آخری آپشن کی صورت قبول کیا جائے گا۔
مالیکیولر بائیولوجسٹ پروفیسر ڈاکٹر ریاض الدین بتاتے ہیں کہ کہ فرانزک ڈی این اے سیمپلنگ ایک پیچیدہ عمل ہے اور ایک ڈی این اے سیمپل کی شناخت میں تقریباً 10 دن کا وقت لگتا ہے۔
ڈاکٹر ریاض الدین کا کہنا تھا کہ لاش کے جل جانے کی صورت میں ڈی این اے سیمپل ہڈیوں کے گودے سے حاصل کیا جاتا ہے، انسان کے ڈی این اے میں 13 مقام ایسے ہوتے ہیں جو اسے وراثت میں اپنے والدین سے حاصل ہوئے ہوتے ہیں اور ان مقامات کی جانچ پڑتال سے لاش کے والدین کی شناخت کی جاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: طیارے کا بایاں انجن فیل ہوگیا تھا، ابتدائی رپورٹ
انھوں نے مزید بتایا کہ دوسرا راستہ بچوں کے ڈی این اے سیمپل لینا ہے کیونکہ ان کے ڈی این ای کی مدد سے بھی وراثتی مقامات کی تصدیق کی جاسکتی ہے، تیسرا آپشن بہن بھائیوں کے ڈی این اے سیمپل لینا ہے, چونکہ بہن بھائیوں کے ڈی این اے کے چند مقامات مختلف ہوسکتے ہیں لہذا ٹیسٹ کے دوران قیاس آرائی کی ضرورت پیش آتی ہے، صرف جڑواں افراد کے ڈی این اے میں شناختی مقامات ہو بہو ایک ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر ریاض کا کہنا تھا کہ فرانزک ڈی این اے ٹیسٹنگ کی سہولت اسلام آباد میں پولیس فرانزک لیب اور خان ریسرچ لیبارٹریز میں موجود ہے لیکن زیادہ بہتر ہوگا کہ ان سیمپلز کو لاہور میں پنجاب یونیورسٹی کے سینٹر آف ایکسی لینس ان مالیکیولر بائیولوجی میں بھیجا جائے جو ملک کی سب سے بہترین لیبارٹری ہے۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اکرم نے ڈان کو بتایا کہ امریکی ایف بی آئی کے طے شدہ معیار کے مطابق ڈی این اے سیمپلنگ کا عمل مکمل کیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چونکہ لاشیں مکمل سلامت نہیں اس لیے پہلے مرحلے میں 44 سیمپلز کا انتخاب کیا گیا ہے تاکہ ان حصوں کی آپس میں شناخت کی جاسکے۔
مزید پڑھیں: طیارہ حادثہ: میتیں ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے پمز ہسپتال منتقل
ڈاکٹر جاوید کا کہنا تھا کہ 5 لاشیں، جن میں ایئر ہوسٹس، 2 ایئرپورٹ سیکیورٹی فورس کے افسران اور چترال کے 2 افراد موجود ہیں، کی شناخت کی جاچکی ہے، خاتون کی شناخت ان کی پہنی ہوئی انگوٹھیوں کی وجہ سے ممکن ہوئی۔
ان کے مطابق اب تک 35 افراد کے لواحقین سے خون کے نمونے حاصل کیے جاچکے ہیں اور سیمپلز کے حصول کے لیے مزید ورثاء سے رابطوں کا عمل جاری ہے۔
انہوں نے بتایا کہ لاشوں کے ڈی این اے سیمپلز ایبٹ آباد کے ایوب میڈیکل ٹیچنگ ہسپتال اور پمز سے حاصل کیے جارہے ہیں اور ڈی این اے ٹیسٹ اسلام آباد کے خان ریسرچ لیبارٹریز اور پولیس فرانزک لیب میں کیے جائیں گے، اگر بہت ضروری ہوا تب ہی ان سیمپلز کو لاہور روانہ کیا جائے گا۔
حادثے میں جاں بحق ہونے والے ایک مسافر سلمان زین العابدین کے رشتے دار ولی خان کا کہنا تھا کہ پمز ہسپتال کی جانب سے کسی قریبی رشتےدار کے سیمپل کا تقاضا کیا جارہا ہے، کئی مسافروں کے دور کے رشتےدار، قریبی رشتےداروں سے رابطے کی کوشش کررہے ہیں۔
چترال کے شاہی خاندان کی 20 سالہ طیبہ عزیز بھی اپنے والد فرہاد عزیز کے ہمراہ نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے داخلی امتحان میں شرکت کے لیے اس طیارے سے سفر کررہی تھیں، ان کے والد کی لاش کی شناخت ہوچکی ہے مگر طیبہ عزیز کی لاش قابلِ شناخت نہیں۔
فرہاد عزیز کے رشتے دار خوش وقت نے ڈان کو بتایا کہ وہ صبح 9 بجے سے پمز میں موجود تھے اور انہوں نے دوپہر تک لاشوں کے ہسپتال پہنچے کا انتظار کیا، ان کا کہنا تھا کہ میں طیبہ کے بھائی کو خون کے نمونے فراہم کرنے کے لیے بلا چکا ہوں، ہم فرہاد عزیز کی لاش کو لے جائیں گے اور طیبہ کی شناخت کا انتظار کریں گے۔
ولی خان کا کہنا تھا کہ وہ پمز میں حکومتی محکموں کی جانب سے کیے جانے والے انتظامات سے مطمئن ہیں لیکن وہ اور دیگر افراد کے ورثاء طیارے کو پیش آںے والے حادثے کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم قائم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم ایسا سن رہے ہیں کہ طیارہ آؤٹ آف آرڈر تھا، اگر یہ درست ہے تو میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ ایک حادثہ نہیں، یہ 48 افراد کا قتل ہے اور اس کے ذمہ داران کو سزا ملنی چاہیے۔
معروف شخصیت جنید جمشید کے بھائی اور ساس بھی پمز ہسپتال پہنچے، جہاں ان کے بھائی ہمایوں جمشید نے ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے سیمپل جمع کرایا، پمز کے وایس چانسلر کے مطابق جب انہیں بتایا گیا کہ لاشوں کی شناخت میں کچھ دن لگیں گے تو وہ واپس چلے گئے۔
پمز ہسپتال میں لگائے گئے کیمپ میں موجود پی آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل مجتبیٰ نقوی کا کہنا تھا کہ میتوں کی شناخت اور ورثاء کو حوالگی میں چند دن لگ سکتے ہیں۔
ڈاکٹر جاوید اکرم کے مطابق ورثا کو میتوں کی شناخت کے بعد آگاہ کردیا جائے گا کہ وہ آکر میتوں کو لے جائیں۔
یہ خبر 9 دسمبر 2016 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی