تارکینِ وطن کب تک 'خود غرض' کہلائیں گے
جس طرح مہاجر پرندے موسم بدلتے ہی واپس اپنے دیس کی راہ لیتے ہیں، اسی طرح پردیس میں تارکین وطن سال یا دو سال کی مشقت اور بھاگتی دوڑتی زندگی سے تھک کر ہانپنے لگتے ہیں تو دُکھتے جسموں کو آرام دینے کی غرض سے چند دنوں کے لیے وطن لوٹ آتے ہیں۔
واپس آنے پر 24 گھنٹوں کی فرصت، سات دنوں کے فراغت بھرے ہفتے، دوست احباب کی اطمینان بھری فرصتیں، اور اپنوں عزیزوں کی صحبتوں سے بھری ایک نرم اور ٹھنڈی زندگی پردیسیوں کے حواسوں کو میٹھی میٹھی تھپکیاں دیتی اگلے سال کی مشقت کے لیے تیار کرتی ہے۔
کوئی مزدور ہو یا بیوی بچوں کے ساتھ مقیم سفید پوش ملازمت پیشہ شخص، یا کوئی ڈاکٹر انجینئر، وطن لوٹنا اور بھاگتے آنا ان کی صرف جسمانی تھکن کی طلب ہی نہیں بلکہ ذہنی اور جذباتی ضرورت بھی ہے۔
پردیس میں کسی دیہاڑی دار مزدور کو اپنی بیوی اور چھوٹے چھوٹے راہ تکتے بچوں کی یادیں ستاتی ہیں، کسی ملازمت پیشہ کے بیوی بچوں کے ساتھ رہائش پذیر بوڑھے والدین کا رہ رہ کر خیال آتا، کسی کو دوستوں کی دوستی تو کسی کو بھائی بہن کا پیار بھلائے نہیں بھول پاتا۔
کوئی ساگ اور بیسن کی روٹی کے ذائقے کو ترستا ہے تو کسی کو ماں کے ہاتھ کے سالن کی طلب نے بے چین کیا ہوتا ہے۔ کوئی دھنک رنگ کپڑوں کی فراوانی کے لیے اداس ہے تو کوئی گلی کی رونقیں اور ہر مشکل میں حوصلہ بڑھاتے اہل محلہ کی یاد میں گم ہے۔ طلب جدا جدا ہے مگر مطمع ایک ہی ہے، وطن جو بھول کر بھولتا نہیں، اس دیس میں جو اپنا ہو کر بھی اپنا نہیں۔
یہ بھی تو ایک سچ ہے کہ پاکستان میں تین ہزار کمانے والا مزدور پردیس میں تیس ہزار تک کمائے گا۔ تیس ہزار کمانے والے کا بھاؤ تین لاکھ بھی لگ جائے گا اور تین لاکھ والا تیرہ سے تیس لاکھ تک بھی کما سکتا ہے۔
پیسوں کے صفر میں اضافہ کرنے کی قیمت کا احاطہ چند الفاظ میں یا ایک مضمون میں نامکن ہے۔ مگر کبھی کسی نے یہ سوچا ہے کہ سو گنا زیادہ پیسہ کمانے والے بھاگ بھاگ کر پاکستان کیا کرنے آتے ہیں؟
پاکستان میں بہت سے سکہ بند لکھاری اور لفظوں کے جادوگر اکثر بیرون ملک جانے والوں کو کوستے اور برا بھلا کہتے دکھائی دیتے ہیں۔
کسی کو یہ بے وفا اولادیں دکھائی دیتی ہیں جن کی بے وفائی ہی پاکستان کے تمام تر زوال کا سبب ہے تو کوئی انہیں اپنے وطن کی مٹی کو چھوڑ کر جانے والا خود غرض اور بے حس گردانتا ہے۔
پڑھیے: یورپ کی میٹھی جیل
ماں جیسی دھرتی تو اولاد کو پھلتا پھولتا دیکھ کر ان کی جدائی میں بھی خوش رہتی ہے مگر حاسد بہن بھائی امپورٹڈ کپڑے اور جوتے دیکھ کر اپنی توپوں کا رخ پردیسی بھائیوں اور بہنوں کی طرف کیے رکھتے ہیں۔
پردیس کی چکی میں گھن کی طرح پس کر درہم ریال اور ڈالر کمانے والے محنت پیشہ تارکین وطن اپنے ملک میں ہوتے تو روزگار کی تلاش میں جوتیاں چٹخاتے، کسی سیاسی جماعت کا حصہ بن کر نعرے لگاتے، خون بہاتے، کسی پُل سے چھلانگ لگا دیتے یا نہر میں کود جاتے، لیکن اس ترقی کا باعث نہ بن پاتے جو ان کے کوچ کر جانے سے ناپید ہو چکی کہ ترقی کرنے اور کروانے کے لیے مواقع، ملازمتوں، میرٹ اور انصاف کی ضرورت ہے، صرف افراد کی نہیں۔
پاکستان میں اچھی اور نیک نیتی کی برکات ہوتیں تو کروڑوں لوگ ترقی حاصل کرنے کے لیے کم نہ پڑتے۔ پھر شاید کسی دانشور کو اس پر اعتراض نہ ہوتا لیکن پردیسی مزدور، ملازمت پیشہ یا صاحب روزگار اگر ہڈیوں کا بھی خون نچوڑ کر حق حلال کے درہم ریال اور ڈالروں کی قیمت ادا کر کے اپنے خاندان کے لیے رزق کماتا ہے تو اس رزق سے کئی آنکھیں خیرہ ہونے لگتی ہیں۔ مگر کتنے لوگ جانتے ہیں کہ ہڈیوں سے خون کیسے نکالا جاتا ہے۔
پاکستان کی معشیت میں چھے فی صد تارکین وطن پاکستانیوں کا حصہ، پاکستان کے اندر رہنے والی اکثریت سے زیادہ ہے، اس کے باوجود صرف صفحات سیاہ کرنے، خوبصورت باتیں بنانے اور عوام الناس کے دل کی آواز بننے کے شوقین حضرات پردیس جانے والوں کو لتاڑتے اور پچھاڑتے رہتے ہیں۔
پاکستان میں پڑھے لکھے ڈاکٹرز اور انجینئرز کو باعزت روزگار اور مناسب مواقع اور معاوضہ ملے، ہنر مندوں اور محنت کش کو روزی وقت پر حاصل ہو تو کوئی اپنی جنم بھومی، عزیز و اقارب اور دل کے قریب بستیوں، اپنے ملک کی آسانیوں کو ترک کر کے پردیس کی دھول مٹی کیوں کر چاٹے۔
اگر کوئی ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر، اپنی غلطیاں دوسروں کے گلے ڈال کر اور اپنی بقا کی کوشش کرنے والوں کو گالیاں نکالنے کے بجائے چار گنا زیادہ محنت مشقت اور سختی کاٹنا گوارہ کرتا ہے تو ان کی ہمت کو داد بھلے نہ دیں، مگر کم سے کم انہیں خود غرض اور بے وفا کہہ کر رسوا تو نہ کریں۔
پڑھیے: "واپس بھیجے جانے سے مر جانا بہتر ہے"
مشرق وسطیٰ، یورپ، امریکا، کینیڈا اور آسٹریلیا ہجرت کر جانے سے پہلے یہ لوگ قابل لوگ تھے جو وطن کی گلیوں میں جوتے چٹخاتے اور والدین اور بچوں کی آنکھوں کے سوال پڑھتے تھے۔
قلیل روزگار کے مواقع اور ناکافی اجرت تھی کہ زندگی کو دشوار بنا رہی تھی، کاروبار کا بھی کیا کوئی سوچے، اکثر والدین تو اپنا تمام تر سرمایہ اپنے بچوں کو ڈاکٹرز اور انجینئرز بنانے پر اس امید پر لگا دیتے ہیں کہ کل کو یہ اولاد بڑھاپے کا سہارا بنے گی۔
ڈگری یافتہ ہوتے ہی یہ خواب کھوٹے سکے کی مانند، ہر موقع سے خالی ہاتھ گھر کو لوٹنے لگتے ہیں، تو کیا یہ ہنر مند اور پڑھا لکھا دو ٹکے کی ڈگری یافتہ بیروزگار طبقہ کاغذ نما ڈگریاں سنبھالے دھرتی کا بوجھ بنا رہے یا سرحدیں پار کرے اور اللہ کی بنائی وسیع زمین پر رزق تلاش کرے یا پھر نام نہاد دانشوروں کے منہ سے باوفا کہلانے کی خواہش میں دھرتی کے سینے پر گردن میں پھندا ڈال کر لٹک جائے تاکہ کوئی انہیں بے وفا اور خود غرض کے نام سے نہ پکارے۔
صحراؤں کی تپتی لو، برف کے تودوں، دنیا کے جاڑوں اور برفیلے طوفانوں میں 24 میں سے 18 گھنٹے کام کرنے والے لوگ اپنی ہی دھرتی پر گھر بار بیوی بچوں کے ساتھ یہاں رہ کر 24 گھنٹے کام کر سکتے ہیں بشرط یہ کہ اس کے بعد انہیں وہ تحفظ، عزت اور حلال رزق مہیا ہو سکے جس کی خاطر سمندر پار کے سفر اختیار کرنے پڑتے ہیں۔
پردیس کی سختیاں کلف زدہ چمکتے، استری شدہ ملبوسات اور رنگ برنگی برانڈز میں چھپا کر جہاز سے اترنے والے مسائل اور مشکلات کی بوریاں بھر بھر سرحد کے اس پار چھوڑ آتے ہیں، اس لیے بھی کہ چند دن خود کو نوابی آرام اور سکون میں محو کر لیں، اور اس لیے بھی دیس میں ان کے منتظر محبوب رشتے ان کی مشکلات کا سن کر مضطرب اور بے چین نہ ہو جائیں۔
اپنے آبائی گھروں کی ٹھہری ہوئی سست رو زندگی میں پیاروں کے ساتھ جب کچھ پل گزار کر واپسی کے سفر میں ایئرپورٹ سے نکلتے ہی ان وزنی بوریوں کو پھر اپنے کاندھے پر لاد کر کبڑے کندھوں اور جھکے سروں کے ساتھ یہ بے وفا پردیسی غم روزگار کے اوقات میں کم سے کم اگلے بارہ ماہ کے لیے گمشدہ ہو جاتے ہیں۔
پردیس کی چکی میں پھلجھڑیاں نہیں کھلتی؛ یہ نہ پھولوں کا بستر ہے نہ کوہ قاف کی دنیا، پرانے سستے کپڑے کلف زدہ کاٹن میں بدل جائیں یا کلف زدہ برانڈڈ ہو جائیں، سانولے چہرے گورے اور گورے چمکنے لگیں تو یہ نیاز صرف ریال درہموں اور ڈالر پاؤنڈز کے ساتھ نہیں آتی بلکہ اس خون پسینے کی بدولت آتی ہے جسے کم سے کم بھی سال کے گیارہ ماہ تمام تر طاقت کے ساتھ بہایا جاتا ہے۔
جہازوں سے اتر کے آنے والوں کے رنگ برنگے ملبوسات چمکتے رنگین لوازمات آپ کو وہ سب کہانیاں نہیں سنا سکتے جنہیں ان لوازمات کے میک اپ میں ایک بدصورت چہرے کے طرح چھپا دیا جاتا ہے۔
پڑھیے: قرضوں میں ڈوبے پاکستانی تارکِ وطن کی کہانی
پردیس میں سماجی تنہائیاں ہیں، اکیلاپن ہے اور مشینی رفتار کے ساتھ بھاگتے مزدوری کے اوقات ہیں۔ آپ کے پاس ہنسنے، رونے، بیٹھنے، سانسیں بحال کرنے، روٹھنے اور منانے کا وقت نہیں۔
تارکین وقت کی اکثریت چھوٹی بڑی ملازمت کرتی ہے اور ملازمت پیشہ طبقہ چاہے ڈاکٹر ہو یا انجینئر، بینک میں ملازم ہوں یا ہوٹلز میں یا سڑکیں صاف کرتا باغوں میں گوڈی دیتا مزدور، ہر کوئی اپنی مزدوری اور کام کا پابند ہے۔
یہاں آپ کے پاس تاخیر سے آنے، کام نہ کرنے، دفتر سے جلدی اٹھ جانے، بات بے بات چھٹی کر لینے اور سال بھر آتی رہنے والی سرکاری تعطیلات کی عیاشی موجود نہیں۔
خوشحال زندگی گزارنے والے یہ تارکین وطن دو سے پانچ سال میں بلڈ پریشر اور ذیابیطس کا شکار ہونے لگتے ہیں اور ان کی آنکھوں کا اجالا مدھم اور گھٹنوں کی طاقت گھٹنے لگتی ہے۔ گرتے ہوئے بالوں کو جیل لگا کر سفید پوش عزت کی طرح بچانا پڑتا ہے۔ کیا پردیس کی بھٹی میں اپنے خاندانوں کی زندگی کے لیے خود کو جھونک دینے والوں کو اپنی عزت کا بھرم رکھنے کا حق نہیں؟
کیا تارکین وطن وطن میں آ کر آہ وفغاں کریں، گریہ زاری کریں تب ملک کے دانشور سکہ بند لکھاریوں کو سکون ملے گا؟
پردیسی اپنی قمیضیں اٹھا کر پیٹ پر بندھے پتھر نہ دکھائیں تو ماں جیسی دھرتی کے بیٹے بیٹیاں انہیں بے وفا اور خود غرض کہہ کر بلاتے رہیں گے؟
کب تک سب لوگ پردیسیوں جوتوں اور کپڑوں میں الجھ کر ان کے مسائل سے نظر چراتے رہیں گے؟
تبصرے (5) بند ہیں