• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

سید علی رضا عابدی کی بنیادی پارٹی رکنیت ختم

شائع December 4, 2016 اپ ڈیٹ December 5, 2016

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان نے رکن قومی اسمبلی سید علی رضا عابدی کی بنیادی پارٹی رکنیت ختم کردی ہے اور انہیں قومی اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہونے کی ہدایت کی گئی ہے۔

ایم کیوایم پاکستان کے ترجمان کے جاری بیان کے مطابق علی رضا عابدی نے 23 اگست کو اختیار کی گئی واضح تنظیمی اور سیاسی پالیسوں کی مسلسل خلاف ورزیاں کیں۔

رابطہ کمیٹی کی جانب سے متعدد بار علی رضاعابدی کو متنبہ کیا گیا لیکن مسلسل پالیسیوں سے انحراف کرنے پر انہیں بنیادی رکنیت سے خارج کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

مزید پرھیں: ایم کیو ایم کے فیصلے اب پاکستان میں ہوں گے، فاروق ستار

ترجمان کے مطابق رابطہ کمیٹی علی رضا عابدی کو تنظیم سے خارج کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں بطور رکن قومی اسمبلی مستعفی ہونے کی ہدایت بھی کرتی ہے۔

بعد ازاں ایم کیو ایم لندن سیکریٹریٹ کے رہنما اور پارٹی کے بانی الطاف حسین کے ترجمان واسع جلیل نے سماجی رابطے کی سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ٹوئٹ میں ایم کیو ایم پاکستان کو بی آئی بی ٹولے کے نام سے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی کے آئین کے مطابق انھیں کسی کارکن کی بنیادی رکنیت ختم کرنے کا اختیار نہیں۔

انھوں نے مذکورہ ٹوئٹ میں ایک بیان بھی جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی نے رکن قومی اسمبلی علی رضا عابدی کے اخراجات کی اطلاعات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پی آئی بی ٹولے کی کوئی آئینی، قانونی اور اخلاقی حیثیت نہیں۔

ایک بیان میں رابطہ کمیٹی نے کہا کہ نہ تو خود ساختہ پی آئی بی ٹولہ کی کوئی آئینی، قانونی اور اخلاقی حیثیت ہے اور نہ ہی حق پرست عوام وکارکنان کی نظر میں ان ضمیر فروش عناصر کے کسی فیصلےکی کوئی اہمیت ہے۔

یاد رہے کہ ایم کیو ایم لندن نے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی رابطہ کمیٹی کو مسترد کرتے ہوئے ایک نئی رابطہ کمیٹی کا اعلان کیا تھا جس میں حسن ظفر عارف کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ایم کیو ایم پاکستان ایک ہی جماعت ہے،فاروق ستار

رواں سال اکتوبر میں ایم کیو ایم لندن کی اعلان کردہ رابطہ کمیٹی نے اپنی پہلی پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ مائنس ون نہ ہوسکتا ہے اور نہ ہی ممکن ہے۔

کراچی پریس کلب میں دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے رابطہ کمیٹی لندن کے رکن پروفیسر حسن ظفر عارف کا کہنا تھا کہ 'ایم کیو ایم پاکستان یا ایم کیو ایم لندن کوئی چیز نہیں، ایم کیو ایم صرف وہی ہے، جس کے قائد الطاف حسین ہیں'۔

اس سے قیک ہفتہ قبل ایم کیو ایم لندن کی جانب سے عبوری رابطہ کمیٹی میں کراچی سے پروفیسر ڈاکٹر حسن ظفر عارف، اسحاق ایڈووکیٹ، امجد اللہ خان، کنور خالد یونس، اشرف نور، اکرم راجپوت، اسمٰعیل ستارہ، ادریس علوی ایڈووکیٹ اور حیدر آباد سے مومن خان مومن کو شامل کیا گیا تھا۔

عبوری رابطہ کمیٹی میں اوورسیز سے سابق رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر ندیم احسان، ایم کیو ایم کے سینئر ارکان واسع جلیل اور مصطفیٰ عزیز آبادی شامل کیا گیا۔

یاد رہے کہ چند روز قبل ایم کیو ایم لندن نے ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں ڈاکٹر فاروق ستار، عامر خان، خواجہ اطہار الحسن، فیصل سبزواری اور کشور زُہرا کی پارٹی کی بنیادی رکنیت خارج کردی تھی۔

مزید پڑھیں: 'غدار فاروق ستار' پارٹی سے خارج، ایم کیو ایم لندن

یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہوئی تھی جب رواں برس 22 اگست 2016 کو بانی ایم کیو ایم الطاف حسین نے کراچی اور امریکا میں کارکنان سے ٹیلی فونک خطاب میں پاکستان مخالف نعرے لگائے تھے جبکہ پاک فوج سے خود لڑنے کا بھی اعلان کیا تھا، جس پر 23 اگست کو ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے اپنے ہی بانی اور قائد الطاف حسین سے اعلان لاتعلقی کر دیا تھا۔

لندن میں مقیم ندیم نصرت، واسع جلیل، مصطفیٰ عزیز آبادی سمیت دیگر نے ایم کیو ایم پاکستان کا فیصلہ ماننے سے انکار کیا اور الطاف حسین کو ہی ایم کیو ایم کا قائد قرار دیا تھا، جس پر ایم کیو ایم پاکستان نے ان افراد کو رابطہ کمیٹی سے نکالتے ہوئے ان کی بنیادی پارٹی رکنیت معطل کر دی تھی۔

دوسری جانب سوشل میڈیا پر جاری کیے گئے ایک آڈیو پیغام میں ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین نے ایم کیو ایم کے ارکان اسمبلی سے مبینہ طور پر مطالبہ کیا تھا کہ وہ استعفے دیں، کیوں کہ انھوں نے ان کے نام پر نشستیں حاصل کی تھیں، تاہم تاہم کسی بھی رکن نے اس مطالبے کو اہمیت نہیں دی تھی۔

بعدازاں الطاف حسین نے ویڈیو پیغام میں ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار پر دھوکہ دہی کا الزام عائد کرتے ہوئے اپنی پارٹی سے تعلق رکھنے والے قانون سازوں کو خبردار کیا تھا کہ اگر انہوں نے ان کی کال پر اسمبلیوں سے استعفے نہیں دیئے تو ووٹرز اپنے حلقوں میں ان استعفوں کو یقینی بنائیں گے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024