• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
شائع December 5, 2016 اپ ڈیٹ December 6, 2016

مغلبھیں مزار: صدیوں کے تقدس کا امین

ابوبکر شیخ

زندگی کی خوبصورتی بھی فقط اس وجہ سے ہے کہ یہ تغیر کے عمل سے گذرتی رہتی ہے اور ٹھہرتی نہیں۔ دراصل اگر زندگی کی لازوالیت ہے تو وہ بھی اس لیے کہ یہ گذرے ہوئے پلوں کو چھوڑتی نہیں ہے بلکہ اپنے ساتھ جوڑ کر رکھتی ہے۔

آپ اگر ننگر ٹھٹھہ سے دریائے سندھ پار کر کے سجاول کے چھوٹے سے شہر میں آئیں تو جنوبی سندھ کی ڈیلٹائی پٹی کا اپنا منفرد رنگ نظر آنا شروع ہو جاتا ہے، اور اس طرح آپ جب اس شہر سے گزر کر ساحلی پٹی کے آخری چھوٹے سے شہر ’جاتی‘ روانہ ہوتے ہیں تو ان 35 کلومیٹرز کی دوری سات صدیوں تک پھیل سی جاتی ہے۔

تاریخ کی اس راہ گزر کے ایک سرے پر میں کھڑا ہوں اور دوسرا سرا سات صدیوں کے اُن گزرے ہوئے عرصے میں دفن ہے جسے ہم ماضی کے مزار کہتے ہیں۔ گزرے وقت کے دیپک کی روشنی میں ڈھونڈنے کی تلاش کریں تو تاریخ کے اوراق پر کئی تحریریں پڑھنے کو مل جائیں گی۔

جاتی کے پرانے شہر کے شمال میں ایک قدیم درگاہ ہے جسے عرف عام میں ’’مگر بھیں‘‘، ’’مغلبھیں‘‘ اور ’’بھیانی‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہ درگاہ ’’شیخ سلامت‘‘ نامی بزرگ کی ہے۔

مغلبھیں مزار — تصویر ابوبکر شیخ
مغلبھیں مزار — تصویر ابوبکر شیخ

مغلبھیں مزار — تصویر ابوبکر شیخ
مغلبھیں مزار — تصویر ابوبکر شیخ

ان کے بڑے عربستان سے ہجرت کر کے سندھ آئے اور ’شاہ کپور‘ میں آ کر بسے جو سومروں کی قدیم بستی تھی۔ پھر سومرا سرداروں نے دریائے سندھ کے بدلتے بہاؤ کی وجہ سے مرکزی شہر شاہ کپور (جس کے آثار جاتی سے مشرق شمال میں 12 کلومیٹر پر دریائے سندھ کے قدیم بہاؤ گونگڑو کے کنارے پر دیکھے جا سکتے ہیں) کو تعمیر کیا۔ (سومرا دور حکومت کا عرصہ 1300 عیسوی سے 1440 عیسوی تک ہے۔)

شیخ سلامت ’مقصود العارفین‘ کتاب کے مصنف تھے، ان کی ولادت 1128 میں شاہ کپور میں ہوئی، مگر لوگوں کی بھیڑ بھاڑ کی وجہ سے وہ شاہ کپور سے اس جگہ (جاتی) میں آ کر رہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ’گونگڑو‘ کا بہاؤ اس طرف کی اراضی کو آباد کرتا تھا۔ مطالعے کا شوق، شفقت اور صوفیانہ طبیعت کی وجہ سے اس بزرگ کا نام دور دور تک پھیل گیا۔ پانی کا شیریں چشمہ پھوٹے گا تو پیاسے وجود اُس کو ڈھونڈ ہی لیں گے۔

اس حوالے سے محقق رسول بخش تمیمی لکھتے ہیں، ’’شیخ سلامت نے علم کی تشنگی دور کرنے کے لیے دور دراز شہروں کا سفر کیا۔ بغداد شریف میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کی خدمت میں حاضر ہو کر مُرید ہوئے اور کچھ برس وہیں بغداد میں رہے، پھر مرشد کی اجازت سے واپس جاتی میں آ کر آستانہ بسایا اور صوفی القادری طریقے سے تبلیغ کی۔‘‘

مغلبھیں مزار — تصویر ابوبکر شیخ
مغلبھیں مزار — تصویر ابوبکر شیخ

مغلبھیں مزار — تصویر ابوبکر شیخ
مغلبھیں مزار — تصویر ابوبکر شیخ

آخری ایام کے متعلق محقق رقم طراز ہیں کہ، ’’روایت ہے کہ ہالار کے بادشاہ ’رائے قنوج‘ کے ظلم و ستم سے تنگ ہو کر کچھ سید خاندانوں نے شیخ سلامت کے ہاں پناہ لی۔ بادشاہ نے ان سے خاندانوں کی واپسی کا مطالبہ کیا مگر شیخ سلامت نے کہا کہ جو پناہ میں ہے اُس کو تحفظ دیا جاتا ہے۔ اس بات پر جنگ ہوئی اور بڑا قتال ہوا۔ جنگ میں شیخ سلامت سمیت ان کا سارا خاندان اور نوے سے زائد مرید شہید ہوئے۔ شیخ سلامت اور ان کے اہل و عیال کو ایک اجتماعی قبر میں دفن کر دیا گیا۔‘‘

اس خطے میں شاید یہ واحد درگاہ ہے جہاں آپ اندر نہیں جا سکتے۔ روشنی کرنے اور لوبان جلانے کے لیے فقط ایک مقرر کردہ آدمی اندر جا سکتا ہے۔ حتیٰ کہ یہاں کا گادی نشین بھی اندر نہیں آ سکتا۔

کل جب اس مقرر کردہ شخص کے سانس کی ڈوری ٹوٹے گی تو اس کے خاندان سے کوئی آ کر اس کی جگہ لے گا اور سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا، جبکہ یہاں جتنی بھی رسومات ہیں وہ مقرر خاندانوں کے لوگوں کے سپرد ہیں۔

بہت ساری باتیں تھیں جو میں نے کتابوں میں پڑھی تھیں اور لوگوں سے سُنی ہوئی تھیں کہ مغلبھیں کے اس آستانے پر کچھ رسمیں روز بڑی پابندی سے ہوتی ہیں۔

موسم کیسا بھی ہو، چاہے بارش کی جھڑی ہو یا پارہ جما دینے والی سردی، یہ رسمیں روز ہوتی ہیں اور ان کا یہ سلسلہ صدیوں سے قائم ہے اور خاندان در خاندان لوگ اسے بڑے احترام سے سنبھالتے آئے ہیں۔

درگاہ کے آنگن میں آگ کا الاؤ ہر وقت جلتا رہتا ہے اور نقارے دن کے 24 گھنٹوں میں دو بار بجائے جاتے ہیں: پہلے شام کے وقت اور پھر رات کے دو بجے۔

نقارے بجانے کی جگہ — تصویر ابوبکر شیخ
نقارے بجانے کی جگہ — تصویر ابوبکر شیخ

درگاہ پر دن میں دو بار نقارے بجائے جاتے ہیں — تصویر ابوبکر شیخ
درگاہ پر دن میں دو بار نقارے بجائے جاتے ہیں — تصویر ابوبکر شیخ

درگاہ پر موجود نقارے — تصویر ابوبکر شیخ
درگاہ پر موجود نقارے — تصویر ابوبکر شیخ

درگاہ پر موجود نقارے — تصویر ابوبکر شیخ
درگاہ پر موجود نقارے — تصویر ابوبکر شیخ

دروازے مقررہ وقت یعنی رات دو بجے کُھلتے ہیں اور مغرب کے وقت بند کر دیے جاتے ہیں۔ درگاہ کے اندر دیا جلانے یا اُس میں تیل ڈالنے کی رسم روز شام کے وقت ہوتی ہے۔

درگاہ پر آئے ہوئے مہمانوں کے لیے جاتی شہر کے گھروں سے کھانا لینے کے لیے مقرر خاندان کا آدمی اپنے مقررہ کام پر نکل جاتا ہے۔ خیرات میں جو کھانا ملتا ہے اسے یہاں لا کر پہلے مہمانوں کو کھلایا جاتا ہے، بچ جائے تو بلیوں کو دیا جاتا ہے۔

مغلبھیں کا یہ آستان اُن بلیوں کی وجہ سے بہت مشہور ہے، جسے مقامی لوگ شیخ سلامت کے شیر کہتے ہیں۔ ان کے لیے بھی ایک خادم مقرر ہے جو صبح کو ان بلیوں کے لیے مچھلیاں لینے جاتا ہے۔

مچھلیوں کی دکانوں کے مالک ماہی گیر بڑی خوشی سے اس خادم کو مفت مچھلیاں دیتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ کئی معتقد اور شہری بلیوں کے لیے دودھ بھی دے جاتے ہیں۔

مغلبھیں مزار — تصویر ابوبکر شیخ
مغلبھیں مزار — تصویر ابوبکر شیخ

مزار کے آنگن میں موجود قدیم قبریں — تصویر ابوبکر شیخ
مزار کے آنگن میں موجود قدیم قبریں — تصویر ابوبکر شیخ

میں جب جاتی کے چھوٹے شہر میں پہنچا تب گرمیوں کے دن تھے۔ مرکزی راستے پر نئی دکانیں آباد ہو چکی ہیں مگر پرانے بازار اور کچھ گلیوں میں ابھی ماضی بستا ہے۔ یہاں سے مشہور ’سنڈو بندر‘ تو پانچ کلومیٹر جنوب میں تھا مگر کسی زمانے میں یہاں ایک گھاٹ تھا جہاں بڑی اور چھوٹی کشتیاں لنگر انداز ہوتی تھیں۔

1931 میں جنرل ایڈورڈ ڈلہائوسی کی سربراہی میں سندھ سروے مشن پر آیا تھا۔ وہ 6 مئی کو یہاں پہنچے تھے۔ وہ رپورٹ میں لکھتے ہیں:

’’مغلبھیں ایک بڑی جگہ ہے۔ یہاں تین ہزار کے قریب لوگ رہتے ہیں، یہ گونگڑو بہاؤ کے کنارے آباد ہے۔ اس بہاؤ کی چوڑائی 6 سو فٹ اور گہرائی 18 فٹ ہے، یہاں کشتیوں کے ذریعے آمد و رفت جاری رہتی ہے۔ ہم نے اس گھاٹ پر پچیس بڑی اور چار چھوٹی کشتیاں دیکھیں۔

"بڑی کشتیوں میں ڈھائی سو سے تین سو من تک اناج آسکتا ہے۔ چوں کہ یہ ایک گرم خطہ ہے تو یہاں جانوروں میں اونٹ سب سے زیادہ اور ہزاروں کی تعداد میں پائے جاتے ہیں، اگر سندھ پر قبضہ کرنا ہو تو جنوب کی طرف سے مغلبھیں سب سے زیادہ مناسب جگہ ہے۔‘‘

جین مندر — تصویر ابوبکر شیخ
جین مندر — تصویر ابوبکر شیخ

جین مندر پر موجود نقش و نگار کا ایک نمونہ — تصویر ابوبکر شیخ
جین مندر پر موجود نقش و نگار کا ایک نمونہ — تصویر ابوبکر شیخ

جین مندر — تصویر ابوبکر شیخ
جین مندر — تصویر ابوبکر شیخ

یہ وہی جاتی ہے جہاں اناج، گنے اور تمباکو کی اچھی فصلیں ہوتی تھیں۔ 1929 کے ماہ دسمبر میں یہاں دو روزہ تعلیمی کانفرنس ہوئی اور پہلی جنگ عظیم کے خاتمے اور صلح کے امن معاہدے کی خوشی میں یہاں 19 جولائی 1919 کو ایک بڑا جلسہ منعقد ہوا۔

پڑھنے کو یہ بھی ملتا ہے کہ 1953 میں اس علاقے کی زرخیزی کو دیکھ کر ٹنڈو محمد خان سے یہاں تک ریلوے ٹریک بچھانے کا منصوبہ منظور کیا گیا تھا، مگر منصوبہ صرف منظور ہی ہوا، آگے نہ بڑھ سکا۔

میں گلیوں سے گھومتا جین دھرم کے اُس مندر کو دیکھنے گیا جس کی چوٹی مجھے دور سے ہی نظر آ رہی تھی، مگر باہر سے خاردار جھاڑیوں کی ایک دیوار بنی تھی۔

مقامی صحافی زاہد اسحاق سومرو کی بڑی کوششوں کے بعد اندر جانے کا موقع ملا تو وہاں ایک خستہ حال مندر موجود تھا۔ وہاں بسے ایک ہندو خاندان کی وجہ سے اس جینی مندر کو جیون دان مل گیا ہے۔

1888 کی ایک رپورٹ کے مطابق اُس وقت جاتی میں 1706 مسلمان اور 537 غیر مسلم رہتے تھے۔ اُن میں یقیناً جینی بھی رہتے ہوں گے جو یہاں سے کوچ کر گئے مگر مندر کا وجود باقی رہا، اب اس جینی مندر میں کبھی کبھار شیو شنکر کی پوجا ہوتی ہے۔

شام کے وقت جب میں پھر سے مغلبھیں کی درگاہ پر پہنچا تو الاؤ پر نقاروں کو گرمی دی جا رہی تھی تا کہ وہ ایک کھنک کے ساتھ بجیں۔ بلیاں تھیں کہ جن پر شام کی کاہلی غالب تھی، دودھ برتن میں دستیاب تھا مگر کوئی بلی دودھ نہیں پی رہی تھی۔

ایک دو بلیاں اس دودھ کے برتن کے قریب لیٹی تھیں۔ میرے پیروں کی آہٹ سنی تو غنودگی کے عالم میں آنکھیں کھول کر مجھے دیکھا اور پھر دھیرے سے بند کردیں۔

مزار پر موجود بلیاں یا چھوٹے شیر — تصویر ابوبکر شیخ
مزار پر موجود بلیاں یا چھوٹے شیر — تصویر ابوبکر شیخ

مزار پر موجود بلیوں کے دودھ کا برتن — تصویر ابوبکر شیخ
مزار پر موجود بلیوں کے دودھ کا برتن — تصویر ابوبکر شیخ

ایک آدمی عقیدمندوں کو خاک کے ٹکڑے دے رہا ہے — تصویر ابوبکر شیخ
ایک آدمی عقیدمندوں کو خاک کے ٹکڑے دے رہا ہے — تصویر ابوبکر شیخ

اس ساحلی پٹی کے مقامی کچھ عورتیں اور بچے درگاہ کے آگے بیٹھے تھے۔ کچھ اُمیدیں تھیں جن کے پورا ہونے کی اُمید اُن کے چہروں پر جھلک رہی تھی، تو کہیں چند پریشانیاں تھیں جن سے ہر کوئی چھٹکارہ چاہتا۔ پھر درگاہ کے آنگن میں بیٹھا آدمی خاک کا ٹکڑا اُن کو دیتا اور وہ بڑے احترام سے اُس خاک کو اپنے پلوُ میں باندھ لیتیں کہ عقیدت اور ایمان ہی سب کچھ ٹھہرا۔ گھاس تھی کی ہر طرف بچھی تھی جس پر پاؤں پڑتا تو شام کی ٹھنڈک اور گھاس کی نرمی پیروں کے تلووں کو آرام دیتی۔

میں درگاہ کے مشرق میں بنی لکڑی کی اُس مسجد میں گیا جس پر لکڑی پر بڑے خوبصورتی سے نقش و نگاری کا کام کیا گیا ہے۔ اب بار بار رنگ کر کے اُس کی اصل خوبصورتی ان رنگوں کی تہوں کے نیچے کہیں گم ہو گئی ہے۔

لکڑی کی بنی ہوئی مسجد — تصویر ابوبکر شیخ
لکڑی کی بنی ہوئی مسجد — تصویر ابوبکر شیخ

لکڑی کی بنی ہوئی مسجد — تصویر ابوبکر شیخ
لکڑی کی بنی ہوئی مسجد — تصویر ابوبکر شیخ

لکڑی کی بنی ہوئی مسجد — تصویر ابوبکر شیخ
لکڑی کی بنی ہوئی مسجد — تصویر ابوبکر شیخ

لکڑی کی بنی ہوئی مسجد — تصویر ابوبکر شیخ
لکڑی کی بنی ہوئی مسجد — تصویر ابوبکر شیخ

مگر لکڑی پر یہ نفیس کام دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ میں جہاں جہاں بھی گیا بلیاں میرے ساتھ ساتھ چلیں۔ کسی نے بتایا کہ یہاں دو سو سے بھی زائد بلیاں ہیں، ان کو کوئی کچھ اس لیے نہیں کہتا کیوں کہ یہ شیخ سلامت عرف مغلبھیں کے ننھے منھے شیر ہیں۔

مغلبھیں کے سالانہ میلے کی رسومات کے متعلق جب میں نے زاہد اسحاق سے پوچھا تو جواب آیا ''یہاں کی روزانہ کی رسومات دیکھ کر آپ کو جس طرح کو حیرانی ہوئی ویسے سالانہ میلہ بھی ایسی حیرت انگیز رسموں کے ساتھ منعقد ہوتا ہے۔ درگاہ کو دودھ سے نہلایا جاتا ہے، پھر سفید رنگ سے درگاہ کو آراستہ کیا جاتا ہے۔ درگاہ کے آنگن میں نئی گھاس بچھائی جاتی ہے، نقاروں کے ساتھ سارے شہر میں جلوس نکلتا ہے اور وہ چادریں دھوئی جاتی ہیں جو تمام برس مُرید اور معتقدین درگاہوں پر چڑھاتے ہیں۔ اس کے بعد، ساحلی پٹی کے ماہی گیر ہاتھوں سے بنی کشتیوں کا ایک جلوس نکالتے ہیں اور ناچتے گاتے درگاہ پر آتے ہیں۔ ان تمام رسومات میں ایک تقدس اور احترام شامل رہتا ہے۔ جو آپ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے۔‘‘

مزار کے داخلی راستے پر موجود ایک بڑا گھنٹہ — تصویر ابوبکر شیخ
مزار کے داخلی راستے پر موجود ایک بڑا گھنٹہ — تصویر ابوبکر شیخ

مزار پر موجود ایک عقیدمند خاتون — تصویر ابوبکر شیخ
مزار پر موجود ایک عقیدمند خاتون — تصویر ابوبکر شیخ

زاہد اسحاق کی بات ابھی جاری تھی کہ اتنے میں نقارے پر چوٹ پڑی۔ خاموشی اور گہری ہو گئی۔ نقارہ مسلسل بج رہا تھا۔ یہ کتنی صحیح بات ہے کہ، جن عوامل میں احترام اور تقدس شامل نہ ہو، وقت اُن کو دوام نہیں بخشتا۔ احترام اور تقدس کے لیے ضروری ہے کہ ہماری اُن عوامل سے جذباتی وابستگی ہو تب ہی جا کر وہ ہماری ثقافت کا جُز بنتے ہیں۔

نقارے بجنا بند ہوئے۔ مغرب کی اذان ہونے لگی۔ مہمانوں کے لیے گھروں سے کھانا لینے کے کام پر مقرر آدمی جا چکا تھا۔ جب ایک آدھ گھنٹے میں وہ واپس آجائے گا، تو درگاہ کے مرکزی راستے کی ابتدا میں لگے ایک بڑے گھنٹے کو بجائے گا۔

گھنٹے کی ترنگ جیسے ہی پھیلے گی، ویسے ہی وہاں آئے مہمانوں کو اطلاع ہوجائے گی کہ ان کے لیے کھانا آ چکا ہے، ساتھ میں بلیاں بھی اپنے کان کھڑی کریں گی اور پھر رات کے دو بجے نقاروں پر پھر چوٹ پڑے گی اور صدیوں کی یہ رسومات ایک نئے دن میں داخل ہو جائیں گی۔


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

ابوبکر شیخ

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (33) بند ہیں

rais Muhammad Dec 05, 2016 12:52pm
app nay bohat acha mazmoon likha hay. kia ham bhi wahan per ja saktay hain
rais Muhammad Dec 05, 2016 12:53pm
nice
میر الطاف حسین تالپور Dec 05, 2016 02:38pm
آپ کے انداز بیاں کا سحر ایسا ہے کہ تحریر پڑھتے ہوئے خود کو منظر نامے کا حصہ سمجھنے لگا. ... جیسے یہ سب میں خود دیکھ رہا ہوں.. اپنی آنکھوں سے. ایک چھوٹی سی تجویز دینے کی جسارت کرتا ہوں کہ آرٹیکل میں تاریخی مقامات کی لوکیشن لکھنے کے ساتھ اگر اس مقام کی نشاندہی گوگل میپ کے اسکرین شاٹ کے ساتھ کریں تو یہ کئی آوارہ گردی کے شوقین سیاحوں اور محققین کے لئے فائدہ مند ہوگا. شکریہ
RIZ Dec 05, 2016 03:23pm
wah saeen wah,, Jati ka naam bohat suna hai bas jany ka itefaq nahi hua hai abhi tak,,, agar moqa mila tu zaroor jain gy,,
KHAN Dec 05, 2016 06:23pm
السلام علیکم: میری طرح سندھ سے محبت کرنے والوں کو سلام، پاکستان سے محبت کرنے والوں کو سلام، اللہ ہمارے سندھ کو ، ہمارے پاکستان کو پھر سے گل و گلزار کردے، سندھ کے حکمرانوں صرف اور صرف کسی ایک شہر میں پیرس کی کوئی گلی بنادو۔ خیرخواہ
Noshin Dec 05, 2016 07:24pm
Awesome
Noshin Dec 05, 2016 07:24pm
Nice
Noshin Dec 05, 2016 07:22pm
Good
Noshin Dec 05, 2016 07:24pm
I love to the historical pieces like that
Naeem pitafi Dec 05, 2016 07:59pm
Talpur sb ki tajveez solid hy..
Naeem pitafi Dec 05, 2016 08:00pm
Talpur sb ki tajveez solid hy
رضاساگر Dec 05, 2016 07:59pm
بہت خوب زبردست
گامن سچار Dec 05, 2016 09:18pm
ساییں الطاف کی تجویز تو ٹھیک ہے۔ گوگل میپ والی۔ باقی لکھنے کے آپ جادوگر ہیں۔ سارا منظر کھل کر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔
jamal jalalani Dec 05, 2016 11:01pm
bohat umda research dear
عاطف بلوچ Dec 06, 2016 12:36am
بہت اعلی اور خوبصورت انداز
علی بھاء Dec 06, 2016 03:50pm
ابوبکر ایک کمال کا فوٹوگرافر اور تاریخ کے سبجیکٹ پر لکھنے والا ایک ایسا لکھاری ہے۔ کہ جب وہ کسی بھی ٹاپک سلیکٹ کر لیتا ہے، تو الفاظ پتا نہیں کہاں سے اسکے آگے کسی کورے کپڑے کے تھان کی چرح کھلتے جاتے ہیں۔
شہناز Dec 06, 2016 03:52pm
دوسرے بلاگز کی طرح یہ بھی ایک اچھا بلاگ ہے خاص کر قدیم مقامات کے حوالہ سے۔ میرا جاتی کی طرف فیلڈ کے حوالہ سے جانا ہوتا ہے اور اس درگاہ پر بھی ایک دو بار جانا ہوا ہے۔میرے خیال سے یہ یہاں کے ساحلی پٹی کی نفسیات سمجھنے کیلئے ایک اچھی جگہ ہے۔ہم سب مڈل طبقے سے تعلق رکھتے ہیں مگر یہاں جو لوگ آتے ہیں وہاں زندگی غربت کی لکیر سے بھی بہت نیچے گذرتی ہے۔گوورنمنٹ نے تو کچھ نہ کرنے کی قسم کھارکھی ہے، تو یہ ذلتوں کے مارے لوگ سکون کیلئے آخر کہاں جائیں۔شیخ صاحب نے صحیح لکھا کہ پریشانیوں سے آخر کس کو چھٹکارہ نہیں چاہئے۔ انتہائی خوبصورت اور حقیقت کی لکیروں کو چھوتی آپ کی تحریر ہے، لکھتے رہئے کہ ہمارے بس میں بس یہ ہی ہے۔
wasif ali Dec 06, 2016 05:44pm
Bohat achi post hai sir g
Muhammad Irfan shaikh Dec 06, 2016 06:17pm
Phar Kar bhot acha Laga or dil b chahra hai k ik baar khud Jakar b daikho es jaga Phar Kar itna sakooun mila tu real main Kitna poor sakooun manzar hoga
aBubaker SHAIKH Dec 06, 2016 06:27pm
@میر الطاف حسین تالپور ۔۔۔ عزیزم میر الطاف حسین صاحب۔۔۔یہ آپ کی یقینا ایک اچھی تجویز ہے۔۔۔تحریر کو پسند کرنے کیلئے بہت بہت شکریہ۔
abdul latif Dec 06, 2016 07:33pm
Amazing write up and photography. Well done
Noor Muhammad Thaheemore Dec 06, 2016 08:04pm
good article on my murshid
الیاس انصاری Dec 07, 2016 12:07pm
@میر الطاف حسین تالپور آپ نے صحیح کہا ، اس سے لوکیشن سمجھنے بھی آسانی ہوگی
sabir nawaz khan Dec 07, 2016 03:27pm
Very nice & informative topic....
SHAHZAD SHAIKH Dec 07, 2016 06:43pm
bohat acha mazmoon likha hy app nye or bohat hi achi quality ki picture snap ki hen ....nice and keep it up
Aman Dec 07, 2016 08:29pm
Thank you, very informative and precious history of our brave and very pious ancestors past.
khaki Dec 08, 2016 03:29am
Sir jee ap ne bohat he achha likha pr kuchh aur bhool gae ho jati k motalaq mohbat aur haya wa ikhlaq wala chhotta sa shehar hae shayad ap ko guaid karne wala sahe na ho.
sadiq shah Dec 08, 2016 04:17am
me is hi sher me pla bra ho mere NANA ka nam SAYED KABEER ALI SHAH tha jo ke porani tanki ke pas rhete the ab bhi he wo hmara ghar wha jo ke sahi ki haweli ke nam se mashoor he.
Kamran Khan Dec 08, 2016 11:25am
Very nice job. Keep it up. Kamran Khan
bakht jamal Dec 09, 2016 01:51am
@rais Muhammad Ji main aapko wahan le jasakta hoon (bakht Jamal 0343193148)
sattar memon Dec 11, 2016 06:28pm
hamesha ki tarah shaikh sahb ki eik or achi taharir hy. tarekhi maqamat k mutliq jis tarah sy abubakar sahb likhty hn wo smjhna intahae aasan ho jata hy. hamain umed hy k tarekhi maqamat k silsly main ye tahaqeqi kaam jari rahay ga.
علی اکبر تھہیم Dec 17, 2016 10:55pm
ماشاہ اﷲ ابوبکر صاحب آپ کے لکھنے کے انداز نے بہت متاسر کیا ہے.
asma Jan 17, 2017 02:57pm
EXECELLENT