عمر قید کا ملزم 11سال جیل کاٹنے کے بعد بےگناہ قرار
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ایک بار پھر ٹرائل کورٹ اور ہائی کورٹ کی غلطیوں کو ٹھیک کرتے ہوئے مجرم کو 11 سال جیل میں گزارنے کے بعد بری کردیا۔
منڈی بہاؤالدین کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے 2005 میں محمد انار کو قتل کے الزام میں سزائے موت سنائی تھی، تاہم بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ نے ان کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کردیا تھا۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے محمد انار کے خلاف ثبوتوں میں تضاد پائے جانے اور ٹھوس استغاثہ نہ ہونے کے باعث، ان کی فوری رہائی کا حکم جاری کیا۔
25 نومبر کو اسی بینچ نے سزائے موت کے مجرم کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے 24 سال بعد رہائی کا حکم دیا تھا، ان مثالوں کے بعد اس حقیقت کی یاد دہانی ہوتی ہے کہ ملک کے عدالتی نظام میں اشد اصلاحات کی ضرورت ہے۔
مظہر فاروق کو 1992 میں 22 سالہ طالب علم کو قتل کرنے کے الزام میں، ٹرائل کورٹ کی جانب سے سزائے موت سنائی گئی تھی، جسے 2009 میں لاہور ہائی کورٹ نے برقرار رکھا تھا۔
رواں سال اکتوبر میں ہی عدالت عظمیٰ نے دو بھائیوں غلام سرور اور غلام قادر کی، 2002 کے قتل کیس میں عینی شاہدین کے بیانات میں تضاد کی بنیاد پر، بریت کا حکم سنایا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: 19 سال بعد بَری ہونے والا ملزم 2 سال قبل فوت
تاہم یہ بات سامنے آئی کہ دونوں بھائیوں کو پہلے ہی اکتوبر 2015 میں بہاولپور کی سینٹرل جیل میں پھانسی دی جاچکی ہے۔
محمد انار کو 23 دسمبر 2005 میں ایڈیشنل سیشن جج نے، مئی 2005 میں منڈی بہاؤالدین کے گاؤں وریم میں دوست محمد کو قتل کرنے کے جرم میں سزائے موت سنائی تھی۔
لاہور ہائی کورٹ نے 13 اپریل 2011 کو ان کی سزائے موت کے فیصلے کو عمر قید میں تبدیل کردیا تھا۔
محمد انار کے وکیل ایڈووکیٹ غفران خورشید امتیاز نے ڈان کو بتایا کہ ’سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ہائی کورٹ نے ملزم کو بےقصور قرار دینے کی جرات نہیں کی۔
پراسیکیوشن کی جانب سے پنجاب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل عبد الودود نمائندگی کر رہے تھے۔
مزید پڑھیں: بری ہونیوالے بھائیوں کی پھانسی:وکیل کا اپیل دائر کرنے کا اعلان
خامیاں نظر انداز
ایڈووکیٹ غفران خورشید امتیاز کا کہنا تھا کہ ’عدالت نے اس حقیقت پر برہمی کا اظہار کیا کہ ماتحت عدالتوں نے کیس میں واضح خامیوں کو نظرانداز کیا اور اگر انہیں کیس کے ریکارڈ کا سہارا لیے بغیر معاملات سے متعلق فیصلہ کرنا پڑتا ہے تو تمام مقدمات کو ٹرائل کے لیے سپریم کورٹ بھیج دینا چاہیے۔‘
ایڈووکیٹ غفران امتیاز نے کہا کہ ’عدالت کا مزید کہنا تھا کہ بالکل واضح مقدمات کو جعلی گواہان شامل کرکے تباہ یا کمزور کردیا جاتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس کیس میں ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ محمد انار کے خلاف قادر آباد پولیس اسٹیشن میں مقدمہ دوست محمد کے اہلخانہ کے افراد کے بجائے اس کے کزن مختار احمد نے درج کرایا، جو انار کے گھر سے چار سے پانچ ایکڑ کے فاصلے پر رہتا ہے۔‘
مقدمے کی ایف آئی آر کے مطابق ’شکایت کنندہ صبح سویرے گایوں کا دودھ دوہ رہا تھا کہ اسی دوران اس نے دوست محمد کے گھر سے چینخوں کی آواز سنی، جس کے بعد وہ اسے بچانے کے لیے دیگر تین افراد کے ہمراہ اس کے گھر گیا۔‘
تاہم ایڈووکیٹ امتیاز نے اس دعوے کو جھوٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’چار سے پانچ ایکڑ کے فاصلے سے کسی کی چینخ سن پانا انتہائی مشکل ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ایف آئی آر کے مطابق جب شکایت کنندہ دوست محمد کے گھر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ محمد انار اس کا گلہ دبا رہا ہے جبکہ دوست محمد کی اہلیہ کوثر، جس کا مبینہ طور پر انار سے تعلق تھا، مقام پر کھڑی ہے۔‘
ایف آئی آر کے مطابق ’شکایت کنندہ کو دیکھ کر کوثر موقع سے فرار ہوگئی، لیکن اپنے شوہر کے قتل سے پانچ روز بعد وہ بھی مردہ حالت میں پائی گئی۔‘
حیران کن طور پر کوثر کے قتل کی ایف آئی آر درج نہیں کرائی گئی۔
ایڈووکیٹ امتیاز کا کہنا تھا کہ ’اگرچہ ایف آئی آر میں لکھا گیا ہے کہ دوست محمد کو گلہ دبائے جانے سے قبل زہر دیا گیا، لیکن اس کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں اس کا کوئی ذکر نہیں۔‘
اس کے علاوہ ہائی کورٹ نے درخواست کی سماعت کے دوران دوست محمد کی 10 سالہ بیٹی سُمیرا کو طلب کیا، جس نے عدالت میں بیان دیا کہ ’محمد انار نے بھی اس کے والد کے قتل کے بعد بھینس کا دودھ دوہا تھا۔‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ پولیس نے دوست محمد کے 11 سالہ بیٹے اور دوسری بیٹی کا بیان ریکارڈ نہیں کیا۔
سپریم کورٹ نے سمیرا کے ہائی کورٹ میں دیئے گئے بیان کو رد کردیا، کیونکہ ایسا کوئی آزاد گواہ موجود نہیں تھا جو اس کے بیان کی توثیق کرسکے۔
ایڈووکیٹ امتیاز کے مطابق ’عدالت کا کہنا تھا کہ پراسیکیوش ملزم اور مقتول کی اہلیہ کے درمیان تعلق کو ثابت کرنے میں بھی ناکام رہا۔‘
انہوں نے کہا کہ کیس میں خامیوں کے بعد سپریم کورٹ نے ملزم کو تمام الزامات سے بری کرنے کا فیصلہ سنایا۔
یہ خبر 3 دسمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔