وکلا کا چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے استعفے کا مطالبہ
اسلام آباد: آٹھ سال قبل دارالحکومت کی جس شاہراہ دستور پر وکلا نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی بحالی کا مطالبہ کیا تھا، اس بار وکلا اسی شاہراہ پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے استعفے کا مطالبہ کرتے نظر آئے۔
وکلا نمائندوں نے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد انور خان کاسی کے استعفے کے لیے ایک ہفتے کی مہلت دی اور ساتھ ہی ایسا نہ ہونے پر ملک گیر احتجاج کی دھمکی دی ہے۔
انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی سے 31 دسمبر کو ریٹائرمنٹ سے قبل، ججز کے خلاف زیر التوا ریفرنسز کے فیصلے سنانے کا بھی مطالبہ کیا۔
پاکستان بار کونسل (پی بی سی)، اسلام آباد بار کونسل (آئی بی سی)، اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن (آئی ایچ سی بی اے) اور ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن اسلام آباد (ڈی بی اے آئی) کے نمائندوں نے بدھ کے روز عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے باہر احتجاج کیا۔
سپریم کورٹ کے باہر وکلا سے بات کرتے ہوئے پاکستان بار کونسل کی لیگل ایجوکیشن کمیٹی کے چیئرمین محمد شعیب شاہین نے کہا کہ عدلیہ میں کرپشن اور اقربا پروری برداشت نہیں کی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’عدلیہ میں احتساب سیاستدانوں کے احتساب سے کئی زیادہ ضروری ہے۔‘
اتفاق سے جس وقت شعیب شاہین سیاستدانوں کے احتساب کی بات کر رہے تھے، سپریم کورٹ میں وزیر اعظم نواز شریف نے خلاف پاناما پیپرز میں لگائے گئے الزامات کے حوالے سے درخواستوں کی سماعت جاری تھی۔
پاکستان بار کونسل کے عہدیدار نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے خلاف ہائی کورٹ میں متنازع تقرریوں کے حوالے سے ان کے کردار کے باعث احتجاج ان کے استعفے تک جاری رہے گا، ان تقرریوں میں ان کے بھائی کی بطور ڈپٹی رجسٹرار گریڈ 19 میں تقرری بھی شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ جسٹس انور کاسی جب تک سپریم کورٹ کے جج جسٹس اقبال حمید الرحمٰن کے نقش قدم پر نہیں چلتے، ان کے خلاف احتجاج پارلیمنٹ اور دیگر فورمز کے باہر بھی کیا جائے گا، جسٹس اقبال حمید الرحمٰن 26 ستمبر کو اپنے خلاف عدالتی فیصلے کے بعد مستعفے ہوگئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کے جسٹس اقبال حمید الرحمٰن مستعفی
شعیب شاہین نے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی پر زور دیا کہ وہ رواں سال کے آخر میں اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل تمام ججز کے خلاف زیر التوا ریفرنسز کا فیصلہ کریں، کیونکہ 1973 کے بعد کسی جج کو اس کی بداعمالی پر سزا نہیں دی گئی اور یہ کہ اگر انصاف کو پروان نہیں چڑھایا جاتا تو آرٹیکل 209 کو منسوخ کردیا جائے گا۔
احتجاج کے لیے وکلا ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن اسلام آباد کے نوٹس کے بعد ڈسٹرکٹ عدالتوں کے شہدا ہال میں جمع ہوئے اور وہاں سے ریلی کی صورت میں شاہراہ دستور کا رخ کیا۔
تاہم پولیس، رینجرز اور فرنٹیئر کونسٹیبلری (ایف سی) کی بھاری نفری تعینات ہونے کے باعث وکلا سپریم کورٹ میں داخل نہ ہوسکے۔
اس موقع پر اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل محمد وقاص ملک کا کہنا تھا کہ پولیس کو وکلا کو سپریم کورٹ میں داخل ہونے سے نہیں روکنا چاہیے۔
یاد رہے کہ 26 ستمبر کو سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں کئی تقرریوں کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ تقرریاں قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کی گئیں اور اس سے من پسند افراد کو نوازا گیا۔
یہ خبر یکم دسمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔