• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm

قومی اسمبلی میں حکومت کی شرمندگی کا سلسلہ جاری

شائع November 30, 2016

اسلام آباد: حکومت قومی اسمبلی میں اس وقت لاچار دکھائی دی جب وہ ایوان سے لے کر پارٹی نظم و ضبط اور اپنے وزرا و اراکین کی اجلاس میں موجودگی یقینی بنانے میں ناکام نظر آئی۔

حکومت کی اسی بے بسی کے باعث قومی اسمبلی کا سیشن، جسے 29 نومبر کو ختم ہونا تھا، اس میں توسیع کرنی پڑی۔

ڈپٹی اسپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی بھی پرائیوٹ ارکان کے دن ایوان میں نظم و ضبط قائم کرنے اور اپنے اوپر اٹھنے والے سوالات کا جواب دینے میں ناکام رہے۔

اجلاس کے دوران معاملات اس وقت خراب ہونا شروع ہوئے جب مرتضیٰ جاوید عباسی نے، ملک میں گیس کی لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے جمعیت علمائے اسلام (ف) کی رکن نعیمہ کشور خان کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد پر بحث کا مطالبہ کیا۔

اس قرارداد پر بحث پچھلے پرائیوٹ ارکان کے دن سے زیر التوا تھی، جب وزیر مملکت برائے پیٹرولیم و قدرتی توانائی جام کمال خان گرما گرم بحث کے دوران اراکین کی شکایات کا جواب دیئے بغیر خاموشی سے ایوان سے چلے گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت انکوائری کمیشن بل منظور کرانے میں پھر ناکام

لیکن جب ڈپٹی اسپیکر نے ایجنڈا آئیٹم پڑھا تو اس حوالے سے متعلقہ وزارت سے اس کا جواب دینے کے لیے کوئی ایوان میں موجود نہیں تھا۔

اس کے بعد ڈپٹی اسپیکر نے وزیر قانون زاہد حامد کا رخ کرتے ہوئے انہیں یاد دلایا کہ یہ معاملہ گزشتہ ہفتے بھی موخر کردیا گیا تھا اور ان سے پوچھا کہ حکومت کی طرف سے کون اس کا جواب دے گا۔

اس پر زاہد حامد نے کہا کہ وہ متعلقہ وزیر سے رابطہ کریں گے اور وعدہ کیا کہ انہیں چند منٹوں کے اندر ایوان میں لے کر آئیں گے۔

اس کے بعد ڈپٹی اسپیکر پی ٹی وی کی کارکردگی کے حوالے سے قرارداد کے اگلے ایجنڈا آئیٹم کی طرف بڑھے، لیکن اس بار بھی معاملے پر جواب دینے کے لیے کوئی موجود نہیں تھا۔

اس موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رکن اعجاز حسین جاکھرانی طیش میں آگئے اور حکومتی اراکین کی جانب سے ’غیر سنجیدہ رویے‘ پر احتجاج کرتے ہوئے حکومتی اراکین کی اگلی نشست خالی ہونے کی نشاندہی کی اور ڈپٹی اسپیکر سے مطالبہ کیا کہ وہ پارلیمنٹ میں انفرادی و اجتماعی ذمہ داری نہ نبھانے پر حکومت کی مذمت کریں۔

مزید پڑھیں: حکومت انکوائری کمیشن بل منظور کرانے میں ناکام

کشمیر امور کے وزیر محمد برجیس طاہر نے اپنی کابینہ کے ساتھیوں کی دفاع کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ قرارداد پر بحث کے دوران متعلقہ وزیر کی ایوان میں موجودگی ضروری نہیں اور اس پر بحث کو سمیٹتے وقت متعلقہ وزیر یہاں موجود ہوں گے۔

اس موقع پر ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ بحث کے دوران متعلقہ وزارت کے کسی شخص کو پوائنٹس نوٹ کرنے، سوالات کا جواب دینے اور بحث سمیٹنے کے لیے یہاں موجود ہونا چاہیے تھا۔

اس کے بعد مرتضیٰ جاوید عباسی نے دوبارہ گیس لوڈ شیڈنگ پر بحث کی جانب رخ کیا۔

رکن نعیمہ کشور خان نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ اراکین اس معاملے پر کافی بحث کرچکے ہیں اور اب صرف متعلقہ وزیر کا انتظار ہے، لیکن احتجاج کے باوجود ڈپٹی اسپیکر نے مزید اراکین کو معاملے پر بحث کی دعوت دی۔

یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہا جب تک وزیر قانون نے ایوان کو یہ نہیں بتایا کہ شاہد خاقان عباسی کابینہ کمیٹی برائے توانائی کے اجلاس میں مصروف ہیں اور وہاں بھی لوڈ شیڈنگ کا ایجنڈا موجود ہے۔

یہاں ڈپٹی اسپیکر نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے زاہد حامد سے کہا کہ کمیٹی پارلیمنٹ سے زیادہ اہم نہیں ہے اور اگر متعلقہ وزیر مصروف تھے تو انہیں اسمبلی سیکریٹریٹ کو اس حوالے سے اطلاع کرنی چاہیے تھی یا اپنی جگہ وزیر مملکت یا پارلیمانی سیکریٹری کو بھیجنا چاہیے تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما لیکس تحقیقات، اپوزیشن نے سینیٹ میں بل جمع کرادیا

بعد ازاں وزیر پیٹرولیم ایوان میں پہنچے جس کے بعد ڈپٹی اسپیکر نے جیسے ہی دوبارہ لوڈ شیدنگ کے معاملے پر بحث کی کوشش کی تو فاٹا کے رکن محمد جمال الدین نے اپنے توجہ دلاؤ نوٹس پر بحث موخر ہونے کی شکایت کی۔

تاہم ڈپٹی اسپیکر نے انہیں اطمینان دلاتے ہوئے شاہد خاقان عباسی کو بات کرنے کی اجازت دی اور ساتھ ہی تاخیر سے آنے پر ان کی سرزنش بھی کی۔

وزیر پیٹرولیم نے یہ دعویٰ کرتے ہوئے اپنی بات کا اختتام کیا کہ ملک میں گیس کی کوئی لوڈ شیڈنگ نہیں ہے۔

بعد ازاں ڈپٹی اسپیکر نے جیسے ہی اجلاس ملتوی کرنے کی کوشش کی پیپلز پارٹی کے اراکین کی جانب سے اس پر احتجاج کیا گیا، لیکن پہلے سے ہی کئی بار تنقید کا نشانہ بننے والے ڈپٹی اسپیکر نے اجلاس بدھ (آج) تک ملتوی کردیا۔

قومی اسمبلی کے آج کے اجلاس میں دوبارہ کمیشنز آف انکوائری بل کا ایجنڈا بھی رکھا گیا ہے۔


یہ خبر 30 نومبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024