اوبر بمقابلہ کریم : کونسی سروس زیادہ بہتر؟
پاکستان میں بہت جلد وہ دن ختم ہونے والے ہیں جب آپ کسی گلی یا جگہ پر کھڑے رکشہ یا ٹیکسی کے منتظر کھڑے ہوتے تھے، اب اسلام آباد، کراچی اور لاہور میں متعدد افراد کے لیے سفر کے لیے ٹرانسپورٹ کا حصول انگلیوں کی چند جنبش سے ہی ممکن ہے یعنی اسمارٹ فون نکالا اور ایپ اوپن کرکے گاڑی منگوالی۔
پاکستان میں اس وقت اس طرح کی دو سروسز اوبر اور کریم کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔
دنیا میں اس طرح کی ایپ بیسڈ سروسز کو رائیڈ شیئرنگ کا نام دیا جاتا ہے اور اوبر کو اس حوالے سے دنیا کی سب سے بڑی کمپنی سمجھا جاسکتا ہے۔
رائیڈ شیئرنگ کیا ہے؟
رائیڈ شیئرنگ سروسز ٹیکسیوں کے متبادل کی خواہش سے سامنے آئیں، کریم اور اوبر جیسی دو بڑی سروسز اس وقت کام کررہی ہیں اور لگ بھگ جہاں بھی یہ کام کررہی ہیں اس شہر کے ہر جگہ ان کو طلب کیا جاسکتا ہے (کریم کچھ علاقوں میں سروس فراہم نہیں کرتی تاہم یہ اسلام آباد میں دستیاب ہے، جبکہ اوبر ابھی لاہور اور کراچی میں ہی ہے)۔ یہ ٹیکسی کی طرح ہی کام کرتی ہیں بس آپ کو ایپ کے ذریعے اپنے قریب موجود کسی گاڑی کو طلب کرنا ہے۔
ان ایپس کو استعمال کیسے کریں؟
آپ کو بس کسی رائیڈ کی ضرورت ہے تو آپ کو اپنے فون میں موجود اوبر یا کریم کی ایپ کو اوپن کرنا ہوگا اور آن اسکرین پروموٹس پر عمل کرنا ہوگا، ہر ایپ میں آپ کو آپ کی لوکیشن کا نقشہ نظر آئے گا جس کا تعین فون سے ہوتا ہے اور قریب موجود گاڑیوں کو دکھایا جائے گا۔
یہ گاڑیاں آپ نقشے میں حرکت کرتے دیکھ سکیں گے تاہم ضروری نہیں ہر ایک آپ کو بٹھانے کے لیے تیار ہو، ایک بار جب آپ رائیڈ کی درخواست دیکر اپنی منزل کا اندراج کریں گے، یہ ایپ قریبی موجود ڈرائیورز سے رابطہ کرے گی جس کے بعداس کمپنی کے سسٹم میں موجود ڈرائیور اسے قبول کرلے گا تو آپ اس کی پروفائل دیکھ سکیں گے، عام طور پر ڈرائیورز آپ کے مطلوبہ مقام پر پہنچ کر کال یا ٹیکسٹ کرتا ہے۔
سروسز اور کرایہ
اوبر کی جانب سے اس وقت دو آپشنز صارفین کو دیئے جارہے ہیں یعنی گاڑی اور رکشہ۔
اوبر کا رکشہ کافی سستا ہے جس کا بنیادی کرایہ 35 روپے، انتظار کرانے پر فی منٹ ایک روپے جبکہ فی کلو میٹر 3 روپے کرایہ ہے، اس کے کم از کم چارجز 50 روپے جبکہ بکنگ منسوخ کرانے پر بھی پچاس روپے دینا پڑتے ہیں، جبکہ گاڑی میں کم از کم کرایہ بھی سو روپے، انتظار کرانا فی منٹ دو روپے کا پڑتا ہے جبکہ فی کلو میٹر 9.38 کلومیٹر کرایہ ہے، اس کے کم از کم چارجز 150 ہیں اور منسوخ کرانے پر بھی اتنے ہی ادا کرنا پڑتے ہیں۔
کریم میں آپ کو چار آپشنز گو، اکانومی، وائی فائی کارز اور بزنس دستیاب ہیں.
کریم میں بھی گو کے کم از کم چارجز ڈیڑھ سو روپے ہیں، جبکہ بنیادی کرایہ سو روپے، فی کلو میٹر گیارہ روپے کرایہ ہے، اکانومی کے کم از کم چارجز 175، وائی فائی گاڑی اور بزنس کے 250 روپے ہیں۔
اوبر اور کریم دونوں سروسز مین صارفین نقد اور کریڈٹ کارڈ دونوں کے ذریعے ادائیکی کر سکتے ہیں۔ تاہم کریم میں آپ کریڈٹ پہلے سے خرید سکتے ہیں اور سفر کے بعد ادائیگی کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
کتنی محفوظ ہیں؟
ٹیکسی کی طرح اوبر یا کریم میں بھی ایک اجنبی ہی گاڑی چلا رہا ہوتا ہے تو ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگوں کے تحفظ کا خیال پریشان کرے، دونوں کمپنیاں اپنے ڈرائیورز کے حوالے سے کچھ احتیاطی تدابیر کے ذریعے تحفظ کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اوبر کی سروس میں دنیا کے مختلف مقامات میں سنگین واقعات سامنے آئے ہیں خاص طور پر جنسی تشدد اور حملے کے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں بھی بیشتر خواتین اس حوالے کریم کو زیادہ ترجیح دیتی ہیں۔
اوبر کو استعمال کرنے والے کچھ افراد سے بات کرنے پر یہ نتیجہ سامنے آیا کہ وہ اکیلے سفر کے لیے تو اس سروس کو استعمال کرتے یا کرسکتے ہیں مگر خاندان کے لیے وہ کریم کو ہی ترجیح دیں گے، جس کی وجہ ان کا اوبر کے ڈرائیورز کے ساتھ ناخوشگوار تجربات ہیں، یقیناً اس کی وجہ دنیا کے مختلف جگہوں پر اوبر کی سروس کے حوالے سے سامنے آنے والے سنگین واقعات ہی ہیں۔
لوگوں کی آراء
ویسے تو کچھ افراد کی رائے سے کسی کمپنی کو بہتر یا برا قرار دینا ممکن نہیں تاہم پھر بھی جب آراءلی گئی تو جن سے ہمیں بات کرنے کا موقع ملا ان میں بیشتر خواتین نے اکیلے سفر کے لیے کریم کی گاڑیوں کو ترجیح قرار دیا جس کی وجہ ڈرائیورز کا اچھا رویہ، ان کے خیال میں بہتر سروس اور عدم تحفظ کا احساس نہ ہونا ہے۔
اسی طرح مردوں کی اکثریت دونوں سروسز کے بارے میں یکساں رائے ہی رکھتی ہے تاہم پھر بھی کچھ افراد کے خیال میں اوبر سستی ضرور ہے مگر کریم کی سروس اس سے زیادہ بہتر ہے جس کی وجہ اچھے ڈرائیورز، ان کا مہذب رویہ اور تربیت ہے، جبکہ ان کے بقول اوبر میں فی الحال لگتا ہے کہ ڈرائیورز کو کسی جانچ پڑتال کے بغیر ہی رکھ لیا جاتا ہے اور اکثر ان کے لیے اس میں سفر کا تجربہ کچھ زیادہ اچھا ثابت نہیں ہوتا۔
مگر اس کا مطلب یہ نہیں کریم میں سب اچھا ہے، اس سروس کے فیس بک پیج پر لوگوں کے میسجز کو جب ہم نے جانچا تو کچھ لوگوں نے ڈرائیورز کی بدتمیزی کی شکایت کی جبکہ ڈرائیورز کے تاخیر سے پہنچنے اور انتظار کے پیسے چارج کرنے اور دیگر شکایات بھی کیں۔
دوسری طرف اوبر کے فیس بک پیج پر اس کی تعریفی پیغامات زیادہ نظر آتے ہیں جس میں لوگ اس سروس پر اطمینان کا اظہار کررہے ہوتے ہیں تاہم وہاں بھی کچھ لوگوں نے ڈرائیور کے تاخیر سے پہنچنے پر بکنگ کینسل کرنے اور پیسے چارج کرنے کی شکایت کی جبکہ کچھ نے ڈرائیورز خاص طور پر رکشہ چلانے والوں کے کم پڑھے لکھے ہونے، ان کی بدزبانی وغیرہ کی شکایت بھی کی جنھیں ایپ آپریٹ کرنا بھی نہیں آتا۔
ویسے دونوں سروسز میں اوبر کا فیس بک پیج زیادہ متحرک نظر آتا ہے جس پر ہر کمنٹ کا جواب دیا جاتا ہے اور صارف کو شکایت دور کرنے کے لیے طریقہ کار بھی دیا جاتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں کریم کا فیس بک پیج اتنا ایکٹو نظر نہیں آتا۔
ان کے اثرات
یقیناً یہ سروسز فی الحال پاکستان میں نسبتاً نئی ہیں مگر ان کے پھیلاﺅ سے کسی حد تک پبلک ٹرانسپورٹ کے مسائل میں کمی آئے گی جبکہ دوسری جانب ٹیکسیوں اور رینٹ اے کار وغیرہ ضرور خاتمے کے قریب پہنچ جائیں گی۔
جیسے جیسے لوگوں کے ہاتھ میں اسمارٹ فونز آئیں گے مقامی ٹیکسی اور رکشہ ڈرائیورز اپنے صارفین سے محروم ہوتے چلے جائیں گے کیونکہ یہ دونوں کمپنیاں متعارف ہونے کے بعد سے تیزی سے پاکستان میں مقبول ہوئی ہیں خاص طورپر نوجوان ملازم پیشہ افراد میں ان کی مقبولیت بہت زیادہ ہیں جن کے ہاتھ میں اسمارٹ فون لازمی ہوتا ہے۔
بظاہر ایسا بھی لگتا ہے کہ یہ سروسز اسی طبقے پر توجہ زیادہ مرکوز کررہا ہے جن کے اچھے تجربات انہیں مزید آگے بڑھنے میں مدد دیں گے تاہم ہوسکتا ہے کہ انہیں آگے جاکر مقامی ٹرانسپورٹ تنظیموں کے احتجاج یا رکاوٹوں کا بھی سامنا کرنا پڑیں جن کا کاروبار ان سروسز سے متاثر ہوگا یا ہورہا ہے۔
لُبِ لُباب
ان تمام معلومات سے لیس ہوکر توقع ہے کہ آپ زیادہ آسانی سے فیصلہ کرسکیں گے کہ اوبر یا کریم میں سے آپ کے لیے بہتر سروس کونسی ہے، تاہم ہماری رائے میں سستا سفر کرنا چاہتے ہیں تو اوبر بہترین ہے جبکہ بہتر سروس کے لیے ہم کریم کو ترجیح دیں گے۔
آپ بھی ووٹ کریں: