برہمن آباد، سندھ کا قدیم تجارتی مرکز
چند دن قبل میں نے سندھ کے ایک قدیم شہر برہمن آباد کا رخ کیا جس سے کئی قصے اور کہانیاں منسوب ہیں۔ ماضی میں زبردست شان و شوکت رکھنے والے اس شہر کی دیواریں خستہ حال ہو کر بکھر چکی ہیں۔
برہمن آباد شہدادپور کے مشرق میں آٹھ میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ اسے "دلو رائے جا دڑا" کے نام سے جانا جاتا ہے۔ کسی زمانے میں یہ شہر 12 مربع کلومیٹر تک پھیلا ہوا تھا مگر آج یہ سکڑ کر صرف ایک سے ڈیڑھ کلومیٹر تک رہ گیا ہے۔
اس کی تباہی کے حوالے سے ایک لوک روایت پائی جاتی ہے کہ اس پر حکمرانی کرنے والا راجا دلو رائے تھا جو کہ ایک ظالم بادشاہ تھا اور اس کے ڈھائے جانے والے مظالم کی وجہ سے یہ شہر تباہ ہو گیا۔
میں جب وہاں پہنچا تو میرے پاؤں اس زمین پر پڑے جو اب ٹوٹتی بکھرتی اور ریزہ ریزہ ہونے والی اینٹوں سے سرخ ہو چکی ہے۔ نظر دوڑانے پر کئی کلومیٹرز تک سرخ مٹی یا سرخ اینٹیں دکھائی دے تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا کہ یہ انہی اینٹوں کا قبرستان ہے جو کہ کبھی اس شہر کو سہارا دیے ہوئی تھیں۔
میرے سامنے ہی ایک قد آدم اسٹوپا اپنی خستہ حالی کی داستان بیان کر رہا تھا، جو کہ آج بھی دور سے دکھائی دے جاتا ہے۔ اس اسٹوپا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں گوتم بدھ کی راکھ رکھی گئی تھی مگر اس کی کوئی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ اسٹوپا کے دن بھی پورے ہونے والے ہیں۔ اس کی ٹوٹتی بکھرتی اینٹیں ایک دن اس اسٹوپا کو بھی سرخ مٹی کے ڈھیر میں بدل دیں گی۔
اسی اسٹوپا کے عقب میں قبرستان بھی ہے اور پاس ہی ایک مزار بھی بنا ہوا ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کسی کو یہ بزرگ خواب آئے اور انہوں نے کہا کہ میرا مزار یہاں تعمیر کیا جائے۔ مگر یہ حالیہ دنوں کی ہی بات ہے، اس کا واسطہ اس دور کے برہمن آباد سے نہیں۔
یہاں پر ان کمروں کی دیواریں اور سیڑھیاں بھی دیکھی جاسکتی ہیں جو کہ رہائشی گھروں کے لگتے ہیں مگر یہاں اب کسی آنگن یا گھر کی رونق نہیں بلکہ ایک ویرانی کا سماں چھایا رہتا ہے۔
تاریخ کے اوراق میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ 1854 میں بیلاسس اور رچرڈسن نے یہاں کے آثار قدیم کی کھدائی کی تھی، جبکہ اس حوالے سے ایک تحقیقی رپورٹ ممبئی کے رائل ایشیاٹک سوسائٹی جریدے "السٹریٹیڈ لنڈن" میں 1857 میں شایع ہوئی۔ یہاں سے پائی جانے والی اشیاء برٹش میوزیم اور ممبئی کے عجائب گھروں میں رکھی گئی ہیں۔
مگر اس شہر کے نام کے بارے میں کئی آراء پائی جاتی ہیں۔ کوئی بھی محقق آج تک اس کے ایک نام پر متفق نہیں ہوا۔ ابو ریحان البیرونی اپنی کتاب “فی تحقیق مان الہند” میں برہمن آباد کے بارے میں لکھتے ہیں کہ “محمد بن قاسم نے بہمنوا کا شہر فتح کیا اور اس کا نام منصورہ رکھا اور ملتان کی فتح کے بعد اسان کا معمورہ رکھا”۔
چچ نامہ میں اسے برہمناباد لکھا گیا ہے۔ “آباد” کے حوالے سے کہا جاتا ہے یہ شاید ایرانی نام ہے۔ اور اس حوالے سے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ یہ شہر ایرانی بادشاھ بہمن اردشیر کے حکم سے تعمیر کیا گیا تھا۔ جس کا حقیقی نام بہمنوا تھا۔ جو کہ بعد میں تبدیل ہو کر بہمن آباد ہو گیا۔ بہمن اردشیر نے اپنی حاکمیت کے دوران اسی نام سے کئی شہر تعمیر کروائے۔ جبکہ “مجمع التواریخ” میں لکھا گیا ہے کہ بہمن اردشیر نے ایک شہر قندابیل اور دوسرا بہمن آباد تعمیر کروایا۔
ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر محمد علی مانجھی کا کہنا ہے کہ “یہاں پر کسی زمانے میں ایرانی بادشاہ اردشیر کی حکمرانی تھی۔ جب اس شہر کا حکمران راجا چچ بنا تو اس نے اسے برہمن آباد قرار دیا۔ ان کہنا ہے کہ یہ ایک تجارتی مرکز تھا کیوں کہ اس زمانے میں دریائے سندھ کا بہاؤ اس شہر کے کنارے پر تھا جس کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں عروج پر تھیں۔
جب دریا نے اپنا رخ موڑ لیا تو یہ شہر ویران ہو گیا۔ اسی شہر میں جہاں آج ہمیں کسی مسجد کے آثار نظر آتے ہیں، وہاں ایک آتش کدہ بھی ہوا کرتا تھا مگر راجا چچ کی حکومت کے دوران یہاں پر ایک بت خانہ تعمیر کیا گیا۔ جس کے بعد جب عربوں نے سندھ کو فتح کیا تو 712 میں اس دور کے گورنر منصورہ کے نام سے منسوب کر کے اس شہر کو منصورہ کہا گیا۔”
سبط حسن اپنی کتاب “پاکستان میں تہذیبوں کا ارتقا” میں لکھتے ہیں کہ عربوں کی جانب سے سندھ کی فتح سے قبل سندھ اور عرب میں بہترین تجارتی تعلقات تھے۔ سندھ ایک زرخیز اور دولتمند سرزمین تھی۔ یہاں ان دنوں راجا چچ کا بیٹا ڈاہر حکومت کرتا تھا۔ اس کے دو دارالحکومت تھے۔ شمال میں اروڑ (روہڑی کے قریب) جہاں پر راجا آٹھ ماہ رہائش اختیار کرتا تھا اور جنوب میں برہمن آباد (شہدادپور سے آٹھ میل شمال میں)۔
ریاست کے چار صوبے تھے۔ ملتان، اسکلندہ (اچ)، سہون، اور برہمن آباد۔ ہر صوبے کا ایک گورنر تھا۔ رعایا بدھ مت کی پیروکار تھی۔ یہ لوگ راجا ڈاہر سے خوش نہیں تھے۔ اس کی واحد وجہ یہ تھی کہ وہ ہندو تھا جبکہ اعلیٰ منصب والے عہدے بھی اس کے ہم مذہبوں کے سپرد تھے۔
مشکور پھلکارو محقق اور تاریخ دان ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ “اس شہر کے بارے میں یہ تو یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ اس کے تعمیر ہونے کا برس کون سا ہے، مگر جس زمانے میں ہاکڑو اور پران دریا یہاں سے گزرتے تھے، اس وقت اس شہر کا جنم ہوا ہوگا۔ یہاں پر گاؤں ہوا کرتے تھے۔ دریائے سندھ اس زمانے میں ایک قسم کا ہائے وے تھا۔ جس کے ذریعے تجارت ہوتی تھی۔ اس شہر کی ایک جانب میدان تھا اور راستے کھلے تھے، اس لیے اس شہر کی رسائی سمندر تک بھی تھی۔ رائے گھرانے کے دور میں یہ ایک تجارتی مرکز رہا ہے۔ اس شہر میں بدھ مت کے ماننے والوں کی اکثریت تھی۔"
ان کا مزید یہ بھی کہنا ہے کہ یہاں پر ایک قلعہ بھی تعمیر کیا گیا تھا جہاں پر دنیا کے مختلف ممالک سے لوگ تجارت کرنے آتے تھے۔ جب راجا چچ نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تو بدھ مت کے ماننے والوں نے بغاوت کی اور انہوں نے چچ کے خلاف اعلان جنگ کردیا۔ چچ نے انہیں کچلنے کے لیے فوج کشی بھی کی تھی۔ اس وقت کے ایک اور حکمران راجا اگھم کے خلاف جنگ کرنے کو بھی تیاری کی گئی تھی، مگر اگھم کی طبیعت ناساز ہونے کی وجہ سے یہ جنگ ٹل گئی۔ وہ اس خیال کو رد کرتے ہیں کہ یہ منصورہ ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ منصورہ شہر کی جگہ یہ نہیں ہے جو ہمیں بتائی جاتی ہے بلکہ وہ اس کے آس پاس تعمیر کیا گیا تھا۔
راجا چچ نے جب رائے سہاسی سے تخت چھینا تو انہوں نے اس کی ملکہ سونہہ رانی سے شادی کی تھی اور اس کے بعد چچ نے اگھم بادشاہ کی ملکہ کو بھی اپنا بنا لیا تھا۔ اس طرح یہ شہر مختلف ادوار میں الگ الگ حکمرانوں کے پاس رہا۔ مگر جب راجا ڈاہر اس کا حکمران ہوا تو اس وقت حالات کافی بدل چکے تھے۔ عربوں کی جانب سے کیے جانے والے حملوں نے اس شہر کا سکون برباد کر دیا تھا کیوں کہ اس وقت عرب اسلام کے پھیلاؤ کے لیے ایشیا اور سندھ میں داخل ہو چکے تھے۔
ایک خیال یہ بھی ہے کہ محمود غزنوی نے سومنات فتح کرنے کے بعد واپسی پر اسی شہر پر حملہ کیا تھا اور اس شہر کو آگ لگا دی تھی۔
جہاں حکومت کرنے والے بادشاہوں نے اپنے عروج و زوال دیکھے تھے، وہاں آج اس شہر کے بس نشانات رہ گئے ہیں. افسوس اس بات کا ہے کہ ہم ان شہروں کی حفاظت نہیں کر پائے ہیں جبکہ پوری دنیا میں آثارِ قدیمہ کی دیکھ بھال کے لیے ایڑی چوٹی کا دور لگا دیا جاتا ہے۔
اس زمانے کے بہتے دریا کے نشانات آج بھی موجود ہیں، میرے لیے یہ شہر ایک حیرت کدہ تھا، جہاں کبھی رونقیں تھیں، روشنیاں تھیں، میلے تھے اور آج بس سناٹا سا ہے۔
تاریخ کے اوراق میں برہمن آباد کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے مگر سچ تو یہ ہے کہ کچھ شہر اپنی کہانی کبھی بیان نہیں کر پاتے اور برہمن آباد بھی انہی میں سے ایک ہے۔
اختر حفیظ سندھی زبان کے افسانہ نگار اور صحافی ہیں، اور ایک سندھی روزنامے میں کام کر ریے ہیں۔ ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (6) بند ہیں