حال ہی میں مجھے قراقرم پہاڑوں پر مقبول گوندوگورو لا ٹریک مکمل کرنے کی کامیابی حاصل ہوئی۔ اس کوہ پیمائی کے سفر میں جہاں شدید جسمانی صعوبت سے گزرنا پڑتا ہے وہاں یہ ٹریک آپ کو پہاڑی چوٹیوں، گلیشئرز اور وادیوں کے حیرت انگیز مناظر کا نادر موقعہ بھی فراہم کرتا ہے۔
چونکہ اس سفر کے لیے جسمانی اور ذہنی اعتبار سے خاصا فٹ رہنا مطلوب ہوتا ہے اسی لیے ٹریک عبور کرنے کے بعد مجھے خود پر کافی فخر محسوس ہوا۔
عام طور پر لوگ ایسی کامیابیاں ہر کسی کو دکھانے کی غرض سے سوشل میڈیا پر رکھ دیتے ہیں اور پھر اس پر اپنے کارناموں کی پسندیدگی دیکھ کر اور بھی فرحت محسوس کرتے ہیں۔ مگر میں اس للچاہٹ کو ایک طرف رکھنے میں کامیاب رہا۔ اس کے بجائے میں نے محسوس کیا کہ مجھے اس ظاہری شاندار کامیابی کے دوران حقیقی پس منظر سمجھنے کی کوشش کی جائے۔
عام طور پر اس قسم کی ٹریک یا کوہ پیمائی کے لیے آپ کو اپنی پیِٹھ پر 15 کلو گرام کا بھاری بھرکم بستہ لاد کر اوسطاً 18 کلومیٹر فی دن کے حساب سے گلیشئرز اور پہاڑی راستوں سے گزرنا ہوتا ہے۔ مگر ہم میں سے کتنے یہ کام خود سر کرتے ہیں؟ میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ میں نے تو ایسا نہیں کیا۔ میرے پاس پانی اور کچھ کھانے کا سامان ہی تھا جبکہ باقی سارا سامان ایک مقامی پورٹر (پہاڑ پر سامان اٹھانے والا قلی) نے اپنی پِیٹھ پر اٹھایا ہوا تھا۔
عام طور پر ہر ایک پورٹر مجموعی طور پر 30 سے 40 کلوگرام کا بوجھ ڈھو لیتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر تو اس قدر ماہرانہ صلاحیت کے حامل ہیں کہ ہر کسی سے کافی وقت پہلے ہی کیمپ سائٹس پر پہنچ جاتے ہیں۔
وہ اکثر و بیشتر تو کوہ پیمائی کے لیے ضروری سامان جیسے ونٹر بوٹس اور دستانوں کے بغیر اپنا کام سر انجام دیتے ہیں اور جان خطرے میں ڈال لیتے ہیں؛ ہماری ٹیم کے تین پورٹر بھی اسی وجہ سے زخمی ہوئے اور ان میں سے ایک کو قریب واقع ہسپتال لے جانا پڑا تھا جس میں ایک دن کے پیدل سفر جتنا دور واقع تھا۔
سامان ڈھونے کے لیے کسی دوسرے کے بغیر آپ خود سر سفر نہیں کر پاتے۔ اس سے پہلے کہ میں اپنی کوہ پیمائی کی تکمیل پر شاد مان ہوتا، میرے ذہن نے مجھے یاد دلایا کہ وہ گائیڈز ہی تھے جو اس پورے سفر میں مجھے اپنا راستہ تلاشنے میں معاون رہے۔ ابتدا میں تو اس بات کو قبول کرنا نہ چاہا مگر پھر یہ سمجھ آ گئی کہ اصل حقیقت بھی تو یہی ہے۔
سفر میں مقامی لوگوں کی جانب سے راستوں کی نشاندہی کے لیے لگائے جانے والے نشانات اور گائیڈز کی مدد کے بغیر آپ تنہا راستہ کھوج نہیں پائیں گے۔ ایک ایسا بھی موقعہ آیا جب میں ایک گلیشئر کے مقام اتصال پر کھو گیا تھا، جہاں سے مجھے اپنی منزل کی مزید رہنمائی کے لیے کسی گائیڈ کا انتظار کرنا پڑا تھا (جو اس کے ساتھ ساتھ مجھے راستے میں موجود دراڑوں میں گرنے سے بچاتا)۔
ایسے کٹھن حالات میں میں نے اپنا کھانا خود نہیں پکایا تھا اور نہ ہی مجھ میں کسی دوسرے کی مدد کرنے میں مہارت حاصل تھی۔ آخر کار یہ بات شرمندگی کے ساتھ واضح ہو گئی تھی کہ ٹریک کو مکمل کرنے میں پورٹرز کے مقابلے میری اپنی جفاکشی تو بہت ہی کم تھی۔
اصل ہیروز تو وہ پورٹرز تھے جو معمولی رقم کے عوض اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈال کر ہماری ہر وہ چیز ڈھوتے ہیں جن کی ضرورت ہمیں زندہ رہنے اور اپنے ایڈونچر سے محظوظ ہونے کے لیے مطلوب ہوتی ہیں۔ راستے میں ملنے والے گائیڈز ہی وہ ہیروز تھے۔ ہیروز وہ کُک بھی ہیں جنہون نے ہماری طرز کا اور ہماری غذا کے مطابق مقدار میں کھانا تیار کرتے تھے۔
یہاں تک کہ وہ خچر اور گھوڑے بھی ہیروز ہیں جو 70 کلو کا بوجھ لادے ہوئے تھے۔ اس طرح کے پرخطر ٹریکس ایسے جانوروں کے لیے کافی دشوار ہوتے ہیں اور کئی جانوروں کو سنگین چوٹیں بھی لگ جاتی ہیں، جبکہ کچھ دوران سفر اپنی زندگیاں کھو بیٹھتے ہیں۔
میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ چند ٹریکرز اپنا ساز و سامان خود اٹھاتے ہیں، اپنا کھانا خود پکاتے ہیں اور عموماً زیادہ خود انحصار ہوتے ہیں۔ مگر پھر بھی ان میں سے کئی افراد مقامی گائیڈز کی خدمات کے بغیر کامیابی کے ساتھ ٹریک مکمل نہیں کر پاتے۔
ان کے کام کو تسلیم کرنا بہت اہم ہے، وہ جو کام سرانجام دیتے ہیں اس مقابلے قلیل رقم ادا کی جاتی ہے اور بہت ہی کم سراہا جاتا ہے۔ ان کے کام کی قدر سے مراد ان کی عزت کرنا اور بہتر معاوضہ ادا کیے جانے کے ساتھ ان کی سخت محنت کو تسلیم کرنا ہے۔
لکھاری گلگت بلتستان اور وہاں کے لوگوں کے مداح اور نیک خواہشات رکھتے ہیں۔ ہمیشہ سے ہی پاکستان کی سرزمین پر پھیلی گونا گوں جغرافیائی خوبصورتی سے متاثر رہے ہیں۔
ان سے ای میل پر رابطہ کیا جاسکتا ہے: [email protected]
تبصرے (5) بند ہیں