میانمار سے فرار ہو کر ہزاروں روہنگیا مسلمانوں کی بنگلہ دیش آمد
امدادی کارروائیوں میں مصروف اہلکاروں کے مطابق میانمار سے تعلق رکھنے والے ہزاروں روہنگیا مسلمان پناہ لینے کے لیے بنگلہ دیش کا رخ کررہے ہیں۔
واضح رہے کہ میانمار کے شمال مغربی حصے میں جاری کشیدگی میں اب تک کم از کم 86 افراد ہلاک جبکہ 30 ہزار سے زائد افراد بے یارومددگار ہوچکے ہیں۔
مہاجرین پر نظر رکھنے والے اقوام متحدہ کے ادارے انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (آئی او ایم) کے ایک افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ سرحد پر پہاڑی علاقے میں قائم اپنے کیمپوں میں 500 سے زائد افراد کو داخل ہوتا دیکھ چکے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق اقوام متحدہ کے لیے کام کرنے والے اہلکار میانمار میں جاری خانہ جنگی سے جان بچا کر آنے والے روہنگیا افراد کے بنگلہ دیش کی سرحد میں داخل ہونے سے متعلق آگاہ کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے اہلکاروں کی جانب سے ان پناہ گزینوں کی واضح تعداد نہیں بتائی گئی تاہم وہ اچانک اس بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کے سرحد پار کرنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔
2012 میں میانمار کے مغربی ریاست رکھائن یا ارکان میں حملوں میں سیکڑوں افراد کی ہلاکت کے بعد سے میانمار میں خون خرابے کا سلسلہ جاری ہے، جو شدت اختیار کرتا جارہا ہے اور 8 مہینے قبل نوبل کے امن انعام حاصل کرنے والے اونگ سان سوچی کی قائم ہونے والی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج بن کر سامنے آرہا ہے۔
دوسری جانب، بنگلہ دیش کے ساتھ واقع میانمار کے علاقے میں فوجیوں کے داخلے اور بارڈر پر واقع تین چیک پوسٹس پر 9 اکتوبر کو ہونے والے حملوں میں 9 پولیس اہلکار بھی ہلاک ہوچکے ہیں۔
رکھائین سے تعلق رکھنے والے 60 سالہ مولوی عزیز خان بتاتے ہیں کہ وہ گزشتہ ہفتے اس وقت میانمار چھوڑنے پر مجبور ہوئے جب فوجیوں نے ان کے گھر کو گھیرے میں لے کر آگ لگادی۔
ان کا مزید بتانا تھا کہ اس وقت وہ اپنی 4 بیٹیوں اور 3 نواسوں کو لے کر قریبی پہاڑی تک پہنچ کر جان بچانے میں کامیاب ہوئے جس کے بعد وہ سرحد پار کرکے بنگلہ دیش پہنچے۔
دوسری جانب میانمار کی حکومت اور فوج رہائشیوں کی جانب سے لگائے جانے والے ان تمام الزامات کی تردید کرتی ہے کہ فوجیوں نے روہنگیا خواتین کا ریپ کیا، ان کے گھر جلائے گئے۔
انسانی حقوق پر نظر رکھنے والی نیو یارک کی ایک تنظیم کے مطابق 10، 17 اور 18 نومبر کو لی جانے والی سیٹلائٹ تصاویر واضح کرتی ہیں کہ رکھائین کے شمالی علاقے میں 820 عمارتوں کو تباہ کیا گیا جس کے بعد تباہ شدہ عمارتوں کی تعداد 1250 تک پہنچ گئی۔
رپورٹس کی جانچ
میانمار حکومت کی جانب سے بنگلہ دیش نقل مکانی کرنے والے روہنگیا عوام کی پرانی رپورٹس کو بھی مسترد کیا جاچکا ہے۔
صدارتی ترجمان اور رکھائین میں قائم ہونے والی نئی انفارمیشن ٹاسک فورس کے رکن زا ہتے کے مطابق حکومت اس قسم کی رپورٹس کی تحقیق کررہی ہے لیکن اب تک کسی الزام کو لے کر نتیجے پر نہیں پہنچا جاسکا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم 9 اکتوبر سے پولیس اور فوج کی مدد سے نقل مکانی کرکے بنگلہ دیش جانے والے لوگوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں، کچھ لوگ اپنے دیہاتوں سے روانہ ہوئے ہیں لیکن ہم انہیں واپس ان کے دیہاتوں میں آباد کروائیں گے۔
روہنگیا عوام کے لگائے گئے الزامات کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اگر ایسا کچھ ہوا ہے تو ہم تشویش کا شکار ہیں اور اس معاملے میں مزید تحقیقات کرتے رہیں گے، ہم تمام الزامات کو مسترد نہیں کرتے ہماری حکومت تمام الزامات کی تحقیق کرے گی تاہم ان میں سے کچھ الزامات غلط ثابت ہوچکے ہیں۔
یاد رہے کہ میانمار کی فوج کی جانب سے مسلم اکثریتی شمالی علاقے رکھائین کو آپریشن زون قرار دیا ہوا ہے جہاں فوج کے مطابق روہنگیا کے مسلمان باغیوں کے خلاف جنگ جاری ہے اس لیے بین الاقوامی صحافیوں کو ان دعوؤں کی تصدیق کے لیے علاقے میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
میانمار کی 11 لاکھ روہنگیا آبادی ہے، جنہیں بنگلہ دیش میں غیرقانونی مہاجر قرار دیا جاتا ہے، اس روہنگیا آبادی کے شہریوں کو میانمار کی اکثریتی بدھ مت حکومت شہریت فراہم نہیں کرتی جبکہ انہیں سفر پر بھی بےشمار پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق اب تک 30 ہزار کے قریب روہنگیا افراد بےگھر ہوچکے ہیں جبکہ اقوام متحدہ کے مطابق کئی ہزار افراد متاثر ہیں۔
انسانی حقوق کی بحالی کے لیے علاقے میں جاری آپریشنز میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد کو کھانا اور پیسے فراہم کیے جارہے ہیں جنہیں 40 دن سے کھانے کی فراہمی بند ہے۔
پناہ گزینوں کے لیے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے نے میانمار حکومت سے امداد فراہم کرنے کے لیے اجازت طلب کی ہے۔
مہاجرین کے لیے قائم اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن کے علاقائی افسر ویویان تان کے مطابق، ان افراد کو اس جگہ مدد فراہم کرنا مقصد ہے جہاں وہ موجود ہیں تاکہ وہ سرحد پار کرکے بنگلہ دیش جانے پر مجبور نہ ہوں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر انہیں اس جگہ مدد نہیں ملتی جہاں وہ موجود ہیں تو یہ افراد دوسرے ملک میں پناہ لینے پر مجبور ہوجائیں گے جیسے کہ بنگلہ دیش، ہم بنگلہ دیشی حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اپنی گرم جوشی کی پرانی روایت کو برقرار رکھے اور ان مہاجرین کو اپنی سرحد پر خوش آمدید کہے۔