رئیل اسٹیٹ کیلئے ایمنسٹی اسکیم جاری کیے جانے کا امکان
اسلام آباد: معمولی ٹیکس کی ادائیگی پر رئیل اسٹیٹ سیکٹر (شعبے) کو اربوں کھربوں کا کالا دھن سفید کرنے کا موقع دینے کیلئے ایمنسٹی اسکیم جاری کرنے کی تیاریاں مکمل کرلی گئی۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کی ذیلی کمیٹی نے تجاویز کو حتمی شکل دیدی جس کے تحت رئیل اسٹیٹ شعبے کو 3 سے 4 فیصد ٹیکس کی ادائیگی پرکالا دھن سفید کرنے کا موقع دیا جائے گا اور ذرائع آمدن بھی نہیں پوچھے جائیں گے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس رکن قومی اسمبلی عبدالمنان کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا جس میں رئیل اسٹیٹ شعبے کے نمائندوں کی جانب سے ایک فیصد ٹیکس کی ادائیگی پر کالا دھن سفید کرنے کیلئے ایمنسٹی اسکیم جاری کرنے کا مطالبہ مسترد کردیا گیا۔
مزید پڑھیں: رئیل اسٹیٹ کی قیمتوں میں 70 فیصد اضافہ
تاہم ذیلی کمیٹی نے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے متعلق تجاویز تیار کرلیں جس کے تحت جائیداد کی ڈی سی اور ایف بی آر ریٹس کے درمیان فرق پر 3 سے 4 فیصد کی شرح سے ٹیکس لگانے اور مرحلہ وار جائیداد کی قیمتوں کو مارکیٹ نرخوں پر کیا جائے گا۔
کمیٹی کنونیئر میاں عبدالمنان کا کہنا تھا کہ منگل کو قو می اسمبلی کی قائمہ کمیٹی خزانہ میں تجاویز پیش کی جائیں گی اور پارلیمنٹ کے رواں سیشن میں بل منظوری کیلئے پیش کردیا جائے گا۔
اس موقع پر ممبر ایف بی آر ڈاکٹر محمد اقبال نے کہا کہ بیرون ممالک سے رئیل سٹیٹ میں آنے والی سرمایہ کاری کو ایمنسٹی کی ضرورت نہیں کیوں کہ بیرون ممالک سے جو پیسا آتا ہے اس کے بارے میں نہیں پوچھا جاتا۔
ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈویلپرز (آباد) کے نمائندوں کا کہنا تھا کہ رئیل اسٹیٹ شعبے کو ڈاکو مینٹیشن کی اجازت دی جائے اور ٹیکسوں میں کمی کی جائے، پہلا گھر خریدنے والوں سے پوچھ گچھ نہ کی جائے، ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کو نیشنل ٹیکس نمبر سے مشروط کیا جائے۔
آباد کے نمائندوں کا مزید کہنا تھا کہ ملک میں اربوں ڈالر کا رئیل اسٹیٹ شعبہ کام کررہا ہے اور ساتھ ہی مطالبہ کیا کہ جائیداد کی قیمتوں کے قانون کو 3 ماہ کے لیے موخر کردیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی،اسلام آباد میں جائیداد کی نئی قیمتیں مقرر
واضح رہے کہ عام طور پر صوبوں میں جائیداد کی قیمتوں کے تعین کا ٹیبل 1899 کے اسٹیمپ ایکٹ کے سیکشن 27 اے کے تحت ضلع کا کلیکٹر جاری کرتا ہے۔
رواں سال کے آغاز میں حکومت نے رئیل اسٹیٹ شعبے کو ٹیکس دھارے میں لانے کیلئے قانون سازی کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد رئیل اسٹیٹ کے شعبے نے فیڈرل بورڈ آف رونیو (ایف بی آر) کو 28 جولائی 2016 کو موجودہ مارکیٹ رپورٹ جمع کرا دی تھی، جس کے مطابق ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) کی منظور شدہ شرح کے باعث جائیداد کی قیمتوں میں 70 فیصد اضافہ ہوا۔
ایسوسی ایشن آف بلڈرز اور ڈویلپرز (آباد) کے سینئر وائس چیئرمین عارف جیوا کی سربراہی میں ریٹیلرز کے 13 رکنی وفد نے ملک کے 18 شہروں میں جائیداد کی موجودہ قیمتوں کے حوالے سے رپورٹ جمع کرائی تھی۔
ان 18 شہروں میں اسلام آباد سمیت پنجاب کے 10، سندھ کے 3، جبکہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے 2،2 شہر شامل ہیں۔
جولائی میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں 18 بڑے شہروں میں جائیداد کی قیمت کے تعین کے جدول میں نظر ثانی کی بھی منظوری دی گئی تھی۔
پنجاب کے جن 10 شہروں کیلئے قیمتوں کے تعین کے نئے جدول جاری کیے گئے ہیں ان میں لاہور، روالپنڈی، جہلم، گجرانوالہ، گجرات، سیالکوٹ، فیصل آباد، ملتان، رحیم یار خان اور بہاولپور شامل ہیں۔
سندھ کے شہروں کراچی، حیدرآباد اور سکھر، خیبر پختونخوا کے شہر پشاور اور ابیٹ آباد جبکہ بلوچستان کے شہروں کوئٹہ اور گوادر کیلئے بھی قیمتوں کے تعین کے نئے جدول جاری کیے گئے ہیں۔
اسلام آباد میں بھی جائیداد کی قیمتوں کے تعین کے جدول میں نظرثانی کی منظوری دی گئی ہے جہاں قیمتیں 2004 سے تبدیل نہیں ہوئیں۔
مزید پڑھیں: جائیداد کی قیمتوں کا تعین اسٹیٹ بینک نہیں ایف بی آر کرے گا
خیال رہے کہ گزشتہ دہائیوں میں کراچی میں زمین پر قبضے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، خاص کر ایسے علاقوں میں جہاں امن و امان کی صورتحال خراب ہے، جیسا کہ لانڈھی، ہاکس بے، سہراب گوٹھ ، گلستان جوہر، گڈاپ ٹاون، سرجانی ٹاون، میمن گوٹھ اور نیشنل ہائی وے میں قبضہ مافیا اپنے عروج پر ہے۔
عام طور پر بدعنوان سیاستدان اور حکومتی افسران اس طرح کے معاملات میں ملوث ہوتے ہیں، یہ لوگ زمین پر قبضہ، غیر قانونی پانی کی سپلائی، بھتہ خوری اور اسمگلنگ جیسے غیر قانونی کاموں سے کروڑوں روپے بٹورتے ہیں۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ زمینوں کی بڑھتی ہوئی قیمتیں کراچی میں قبضہ مافیا کے خلاف آپریشن کی کامیابی کی نشاندہی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اگلے وقتوں میں اس شہر کے اکثر باسیوں کے لیے "اپنا گھر" ایک خواب ہی بن کر رہ جائے گا۔
تبصرے (1) بند ہیں