نبی سر: سرحد پر بسا ایک منفرد گاؤں
کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک ہی مُلک کے ایک ہی صوبے میں ایک دوسرے سے منفرد اور عجیب و غریب مقامات ومناظر دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ سندھ دھرتی تو ویسے بھی اس لحاظ سے بھرپور حیثیت رکھتی ہے۔ یہاں زراعت کے قابل میدانی علاقے، پہاڑ، دریا اور دریاؤں کے بند کے درمیان کچے کی زمینیں، نخلستان اور ریگستان بھی ہیں۔
بات جب سندھ کے تھر ریگستان کی ہو تو ہمیں ایک الگ ہی جہاں دیکھنے کو ملتا ہے۔ تھر کے وہ گاؤں جو تھر کی بئراجی (مغربی سمت) سے دور جنوب مشرق میں ہیں وہاں زندگی کا رنگ سندھ کے باقی علاقوں سے بالکل الگ ہے۔ ایسا بھی نہیں کے وہاں بسے لوگ خوشحال زندگی بتا رہے ہیں مگر یہ بھی ایک سچ ہے کہ وہاں کے لوگ اپنے علاقے کو چھوڑنے کا تصور بھی نہیں کرتے۔
پڑھیے: تھر کے سدابہار 'روزے داروں' کے نام
تھر کا ریگستان 1947 کے بٹوارے سے قبل تو ایک ہی تھا اور لوگوں کا کاروبار اور گھومنا پھرنا، آنا جانا لگا رہتا تھا جو کہ بعد میں بھی کسی حد تک جاری بھی رہا مگر سرحد کی حیثیت جب لکیروں سے باڑھ تک پہنچی تو یہ سلسلہ بھی دم توڑتا چلا گیا اور تھر کی بڑی آبادیوں سے کوسوں دور بسے آپس میں قریبی آبادیوں کے درمیان بھی بہت بڑے فاصلے پیدا ہو گئے۔
میں ایسے ہی ایک گاؤں نبی سر کے حال زندگی پر روشنی ڈالنے لگا ہوں۔
نبی سر تھر میں پاک و ہند سرحد کے بلکل قریب سندھ کی جنوبی سرحد پہ واقع ہے۔ ویسے سندھ میں اس نام کے دو اور بھی شہر ہیں۔ ایک ضلع عمر کوٹ کے جنوبی حدوں میں ہیں جو نبی سر روڈ کہلاتا ہے اور دوسرا اسی سے آگے تھر کے بئراجی علاقوں کی مغربی سمت میں بنی نوکوٹ اور عمرکوٹ کو ملانے والی سڑک پر واقع ہے۔ یہ دونوں شہر تھوڑے بہت فرق سے ایک جیسے ہیں مگر تھر والا نبی سر ان سے بلکل مختلف و منفرد ہے۔
اگر آپ کے پاس اپنی فور ویل گاڑی نہیں ہے اور مقامی لوکل سواری پر گاؤں جانے کی تمنا رکھتے ہیں تو آپ کو اسلام کوٹ سے روزانہ اس گاؤں جانے والی اکلوتی گاڑی پر جانا پڑے گا جو روزانہ شام 4 بجے یہاں سے نکلتی ہے۔ یہ گاڑی دراصل ایک پک اپ ہے جس میں سامان لادنے کے بعد جو جگہ بچتی ہے وہ عورتوں کو دی جاتی ہے اور مرد حضرات سامان کے اوپر اپنے لیے جگہ بنا لیتے ہیں۔
اسلام کوٹ سے آدھا فاصلہ تو پکی سڑک پر قدرے آسان رہتا ہے۔ باقی کا سفر کچی سڑک پر کرنا ہوتا ہے۔ گاڑی راستے میں مسافر سوار کرتی اور اتارتی آگے بڑھتی جاتی ہے، اگر کسی کا سامان زیادہ ہو تو اسے اپنے راستے سے لنک روڈ پر کہیں دور جا کر مسافر اتارنا پڑے تو وہ سہولت بھی مسافر کو حاصل رہتی ہے اور اس پر کسی دوسرے مسافر کو شکایت کرنے کی اجازت بھی نہیں ہوتی۔ اس دوران جو دیر ہوتی ہے وہ تو ٹھیک مگر اس بیچ کہیں ٹائر پنکچر ہو جائے تو وہ دیر الگ گنی جائے۔ ایسے میں یہ کوئی 50 سے 60 کلومیٹرز کا سفر 4 سے 5 گھنٹوں میں پورا ہوتا ہے۔
پڑھیے: تھر: درد اور مسکان کا صحرا
اس گاؤں میں روزانہ آنے والی چونکہ یہ اکلوتی گاڑی ہے اس لے گاؤں میں پہنچنے پر اس گاڑی کا بھرپور استقبال کیا جاتا ہے۔ یہاں لوگوں میں محبت کا وہ خوبصورت اظہار دیکھنے کو ملتا ہے جو اکثر بڑی شاہراہوں والے شہروں میں کہیں نظر نہیں آتا۔ گاڑی جیسے ہی گاؤں کی حدوں میں پہنچتی ہے بہت سارے چھوٹے بچے اس کے پاس آ نکلتے ہیں اور پھر تب تک اس کے پیچھے دوڑتے رہتے ہیں جب تک وہ اپنے آخری اسٹاپ تک نہ پہنچ جائے۔
گاڑی میں اگر گاؤں سے باہر کا کوئی شخص موجود ہے تو وہ سب کی نگاہ کا مرکز بنا رہے گا۔ ویسے تھر کے لوگ بھی کراچی والوں کی طرح بئراجی علاقوں سے آئے لوگوں کو سندھ سے آئے ہوئے کہتے ہیں مگر اس گاؤں والے تو دور سے آئے لوگوں کو ایلین کے جیسا برتاؤ کرتے ہیں۔ اس میں غلطی ان کی بھی نہیں، کوئی بڑی بیماری نہ ہو تو برسوں تک وہ تھر سے باہر تو کیا تھر کے شہروں اسلام کوٹ یا مٹھی بھی نہیں دیکھ پاتے۔
آج کے دور میں بھی اگر کوئی وہاں سمارٹ فون لے جاتا ہے تو گاؤں کے لوگوں کی دلچسپی کا باعث رہتا ہے۔ ایک دوسرے کو یہ بولتے دیکھے جاتے ہیں کہ "ارے ایک ایسا بھی فون ہے جس کے بٹن ہی نہیں۔ بس انگلی پھیرنے سے چلتا ہے۔ فوٹو ایسے آتے ہیں جیسے اصلی"۔
دیہی سندھ کے اکثر اسکولوں کی طرح یہاں بھی اسکول موجود ہے مگر استاد صاحب غائب رہتے ہے۔ گاؤں کا سر پنچ یا بڑا، سچ میں بڑے دل والا ہے جس نے اپنی جیب سے تنخواہ دے کر وہاں ایک معلم مقرر کیا ہوا ہے جو اسکول میں آنے والے چند بچوں کو علم کی شمع روشن کرتا ہے۔ مگر اکثر والدین بچوں کو پڑھانے کے بجائے انہیں مویشیوں کو چرانے میں مشغول رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
ان کی سوچ ہے کہ ویسے بھی پڑھ لکھ کر کون سا ہمارے بچوں کو افسر بننا ہے تو پڑھا کر وقت کیوں ضائع کرائیں۔ اچھا ہے کہ وقت پر ہی چرواہے بن جائیں تا کہ عادت پکی ہو جائے اور اس کام کو بہتر ڈھنگ سے سر انجام دے سکیں۔ اس طرح وہاں بچے جیسے ہی ہوش سنبھالتے ہیں تو انہیں یہی ذمہ داری دے دی جاتی ہے کہ صبح سویرے اٹھیں جو ملے کھا کر باقی اسی سے بچا کپڑے میں لپیٹ کر پانی کی بوتل کندھے پر لٹکا کر صحرا میں سبزے کی تلاش میں نکل پڑیں پھر جہاں کچھ نصیب ہو وہاں مویشیوں کو چروادیں اور یوں پھر ان مویشیوں کا دودھ پی کر یا انہیں بیچ کر گارہ کیا جاسکے۔
بارشیں ہوتی ہیں تو سبزیاں اگانا ممکن ہوتا ہے اور یہاں کے لوگ جی بھر کے تازہ سبزیوں سے بنے سالن کے مزے لیتے ہیں ورنہ عام دنوں میں کئی کئی دن تک لسی، دودھ اور مکھن سے روٹی کھانا ہی معمول رہتا ہے۔
پڑھیے: تھر کا المیہ صرف بھوک کی وجہ سے نہیں
جب قحط سالی آتی ہے تو نہ ان کے پاس کچھ ایسا ہوتا ہے جس کا سالن بنایا جا سکے اور نہ ہی مویشیوں کے کھانے کو کوئی ہرا پتہ ہوتا ہے۔ ایسے دن گزارنا ان کے لیے کٹھن امتحان سے کم نہیں ہوتے ہیں مگر جب حسب منشا بارشیں نہ ہوں تو یہ لوگ ایسا ایک نہیں مگر دو دو بلکہ تین سال بھی سہہ لیتے ہیں۔ ایسے میں ہر گھر سے کچھہ فرد اپنی مویشیوں کو سندھ کے بیراجی علاقوں میں لے آتے ہیں اور جس سال ساون خوب برسے اس سال وہ وہیں رہتے ہیں اور ایسے میں وہاں کے لوگوں کے ساتھ مویشیوں کے بھی مزے آ جاتے ہیں۔
اس گاؤں میں رابطہ کاری کا نظام بھی نہیں کہ سو یہ لوگ اپنی ہی دنیا میں مگن ہیں۔ حال ہی میں انڈیا پاکستان میں اڑی واقعے اور سرجیکل اسٹرائیک کے سبب کشیدگی جاری تھی اور ٹی وی چینل کھولتے ہی لگتا تھا کے بس جنگ آج نہیں تو کل پکی ہے۔ مگر یہ گاؤں جو کہ انڈیا کے بارڈر پر واقع ہے، ان کے باسیوں میں سے اکثر کو تو پتہ تک نہیں تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان کیا چل رہا ہے۔
یہاں ایک آدھ بندے کے پاس ریڈیو ہے جہاں سے کوئی خبر ملی تو ٹھیک ورنہ ہر کویہ اپنی دنیا میں مست ہے۔ بجلی نہیں تو ٹی وی نہیں اور پہلے تو روشنی کے لے بھی وہی لالٹین ہی ایک ذریعہ ہوا کرتی تھیں مگر اب دوسرے دیہی علاقوں کی طرح یہاں بھی یہ بہتری ضرور آئی ہے کہ کہیں کہیں سولر پلیٹیں لگنے سے روشنی کا بندوبست ہونے لگا ہے۔
گاؤں والوں کو سب سے بڑی پریشانی اگر کوئی ہے تو وہ میڈیکل ایمرجنسی سے نمٹنے کی ہے۔ کیوںکہ ایسے میں مریض کو بڑے شہروں جیسے اسلام کوٹ یا مٹھی پہچانا ایک چیلنج بن جاتا ہے۔ روز آنے جانے والی گاڑی اپنے وقت اور اپنی اسپیڈ کے حساب سے چلتی ہے۔ ضروری نہیں کہ میڈیکل ایمرجنسی کی صورت میں یہ گاڑی گاؤں ہی موجود بھی ہو۔ اگر ہو بھی تو اس کا ایسے خصوصی طور پر جانے پر کرایہ اتنا لگتا ہے کے ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔
ایسی کسی ایمرجنسی کی صورت میں بھی مریض کو خدا کے آسرے صبح تک چھوڑا جاتا ہے کہ اس گاڑی کے جانے کا وقت ہو تو ہی مریض کو ہسپتال پہنچایا جائے۔ یہ صورتحال اس وقت مشکل پیدا کر دیتی ہے جب بارشوں اور گرمیوں میں بچھو سانپ وغیرہ کے تواتر میں باہر آنے سے ان کا شکار ہونے والوں کی تعداد بڑھنے لگتی ہے۔
ویسے تو آج کل حکومت نے ایسی صورتحال سے نپٹنے کے لے موبائل صحت مرکز کا پروگرام متعارف کروایا ہے مگر وہ شاید اور اسباب کے ساتھ اس لےر بھی کامیاب نہیں کیونکہ وہاں کے مقامی لوگ سند یافتہ ڈاکٹرز نہیں اور باقی سندھ کے شہروں کے ڈاکٹر وہاں تعنات ہونا چاہتے ہی نہیں۔
البتہ ایک فوری طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ ایک فور ویل ایسے دور دراز بارڈر کے قریب واقع کچھ دیہاتوں کی مرکزی آبادی میں دی جائے جسے چلانے والا بھی مقامی مقرر کیا جائے اور ایسی میڈیکل ایمرجنسی میں مریض کو فوری کسی بڑے شہر کے اچھے ہسپتال میں پہنچایا جائے۔
یہ گاؤں اور یہاں کے لوگوں کا مزاج سادگی، حب الوطنی اور محبت سے سرشار ہے۔ نہ کسی کی تکلیف کا سبب بنتے ہیں نہ کسی پر منحصر ہوتے ہیں بس اپنی زندگی، اور اس کے بے رنگ روپ کو اپنی لحاظ سے خوبصورت بنانے کی جدوجہد میں لگے رہتے ہیں بس تھوڑی نظر یہاں ارباب اختیار بھی کر لیں۔
ڈاکٹر عبدالحفیظ لغاری تجزیاتی کیمیا میں پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھتے ہیں اور پیشے کے اعتبار تحقیقی ادارے پاکستان کونسل آف سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ میں سینیئر سائنٹیفک آفیسر کے طور پر تعینات ہیں۔ وہ مختلف موضوعات پر سندھی اور اردو اخبارات میں لکھتے رہتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تبصرے (8) بند ہیں