• KHI: Fajr 5:23am Sunrise 6:39am
  • LHR: Fajr 4:49am Sunrise 6:10am
  • ISB: Fajr 4:53am Sunrise 6:16am
  • KHI: Fajr 5:23am Sunrise 6:39am
  • LHR: Fajr 4:49am Sunrise 6:10am
  • ISB: Fajr 4:53am Sunrise 6:16am
10
10
شائع November 21, 2016

جام نندو: سندھ پر مثالی حکمرانی کرنے والا سردار

ابوبکر شیخ

میں اگر تاریخ کی 530 برسوں تک پھیلی ایک پگڈنڈی بنالوں اور اُس پر چلنا شروع کروں تو اس پگڈنڈی کے آخری کنارے پر میں ننگر ٹھٹھہ اور مکلی پہنچ جاؤں گا۔ ایک ایسے زمانے میں جب لوگ بے خوف ہو کر چین کی نیند سوتے تھے کہ ان پر کوئی یلغار نہیں ہوگی، زمینوں میں فصلیں لہلہاتی تھیں اور انہیں جلا دیے جانے کا کوئی اندیشہ نہیں ہوتا۔

آئیں 530 برس پہلے کا ٹھٹھہ دیکھتے ہیں۔ ننگر ٹھٹھہ کی تعمیر نو ہوچکی ہے، محلوں کے نکڑوں پر مختلف علوم پر بحث و مباحثے ہوتے ہیں۔ علم کی تشنگی عالموں کو دور دراز ملکوں سے کھینچ کر یہاں لے آتی ہے کیوں کہ سندھ کے دارالحکومت 'ساموئی' میں جام نظام الدین سمہ، جنہیں لوگ پیار سے 'جام نندو' بلاتے ہیں، تخت پر بیٹھے ہیں۔

پتہ نہیں اس بات میں کتنی حقیقت ہے کہ 325 قبل مسیح میں جب سکندراعظم 'پٹالہ' (زیریں سندھ) آیا تھا تو اُس وقت اِس علاقے پر جو حاکم ’سامبس‘ تھا وہ سمہ قبیلے سے تعلق رکھتا تھا۔ مگر یہ حقیقت سے قریب تر ہے کیوں کہ چودھویں صدی سومرا سرداروں کی حکومت کے زوال کے دن تھے۔ محمد تغلق کے زمانے میں سومرو اپنی حیثیت کو نمک کی ڈلی کی طرح وقت کے پانی میں گھول چکے تھے۔

مقبرہ جام نندو — تصویر ابوبکر شیخ
مقبرہ جام نندو — تصویر ابوبکر شیخ

مقبرہ جام نندو — تصویر ابوبکر شیخ
مقبرہ جام نندو — تصویر ابوبکر شیخ

تاریخ کے اوراق پلٹیں تو پتہ چل جائے گا کہ سیاسی حوالے سے تو موسم کوئی اچھا نہیں تھا بلکہ فطرت کا بھی غصہ اپنے عروج پر تھا۔ بارشوں کی کمی اور قحط نے سارا منظرنامہ بے رنگ سا کر دیا تھا۔

سندھ میں سومرا قبیلے کے بعد سمہ خاندان کی حکومت کی ابتدا ہوئی۔ 1351 میں جام اُنڑ سموں نامی وہ پہلا حاکم تھا، جس نے سمہ دور کی بنیاد رکھی تھی۔ سترہ کے قریب حاکموں نے 1519 تک تقریباً 170 برس تک حکمرانی کی۔ اس حکومت کے آخری 50 برس اگر ہم نکال دیں تو یہ بھی کوئی اتنی پُرسکون حکومت نہیں رہی، کیوں کہ ’ہنوز دلی دور است‘ کا جملہ یہاں بالکل برعکس کام کرتا تھا، یہاں اکثر ’دلی قریب است‘ والی صورتحال ہی رہی۔

1388 میں فیروز شاہ تغلق کی موت کی وجہ سے دہلی سلطنت منتشر ہونے لگی تھی۔ اسی صورتحال میں سندھ کے جلاوطن شہزادے جام بابینو، جام تماچی اور جام صلاح الدین دہلی سے واپس لوٹے۔ ان کو فیروز شاہ ننگر ٹھٹھہ سے اپنے ساتھ لے گیا تھا۔ جام بابینو کی راستے میں وفات واقع ہوئی، اور جام تماچی واپس ننگر ٹھٹھہ لوٹ آیا اور تخت نشیں ہوا۔

اگر آپ مکلی پر بالکل آخر میں شمال میں نشیبی علاقے تک چلے جائیں تو یہ وہ زمین کا ٹکڑا ہے، جہاں سمہ سرداروں نے اپنا دارالخلافہ بنایا تھا اور نام 'ساموئی' دیا تھا۔ اب یہاں بڑی تگ و دو کے بعد بھی آپ کو دیکھنے کے لیے کچھ نہیں ملے گا۔

مقبرہ جام نندو — تصویر ابوبکر شیخ
مقبرہ جام نندو — تصویر ابوبکر شیخ

مقبرہ جام نندو — تصویر ابوبکر شیخ
مقبرہ جام نندو — تصویر ابوبکر شیخ

مگر یہاں کے وقت کا آسمان، ننگر ٹھٹہ کے ویران خستہ مدارس، خانقاہیں اور گلیاں، طغرل آباد کا قلعہ اور قلعے میں مسجد کی دیواریں اس بات کی گواہ ہیں کہ سمہ سرداروں میں ایک حاکم ایسا بھی آیا جس کے متعلق مغل دور کے فارسی مصنف عبدالباقی نہاوندی اپنی کتاب 'ماثر رحیمی' میں رقم طراز ہیں کہ "سندھ کیا، بلک پورے ہندوستان میں اس جیسا دیندار، مُتقی اور صاحبِ فضیلت بادشاہ پھر نہیں ہوا۔ اس کے زمانے میں عالم، صالح، بزرگ و فقیر سارے خوش و خرم، رعیت خواہ سپاہی فارغ البال تھے۔"

یہ یقیناً ایک اعزاز تھا جو ’جام نندو‘ کے لیے ہی ہو سکتا تھا۔ میر معصوم بکھری ’تاریخ معصومی‘ میں رقم طراز ہیں ’’سلطان کو تخت پر بٹھانے کے لیے سارے لوگ، عالم، رعیت اور سپاہی متفق تھے، اس نے خود مختار ہو کر سر بلندی کا جھنڈا بلند کیا۔‘‘

یہ شدید ترین سردیوں کے دن تھے، جب آسمان نیلا، دن چھوٹے اور راتیں طویل ہو جاتی ہیں، تب ساموئی سے خبر آئی کہ وقت کے بادشاہ ’جام سنجر‘ اپنی آٹھ برس کی حکمرانی کر کے اس دنیا کو الوداع کہہ گئے۔ پھر ان ہی سردیوں میں اتوار کے دن 29 دسمبر 1461 میں جام نظام الدین کو سندھ کے تخت پر بٹھایا گیا۔

جام نندو کے مقبرے پر سنگ تراشی کا کام نہایت  ہی نازک اور دلکش ہے — تصویر ابوبکر شیخ
جام نندو کے مقبرے پر سنگ تراشی کا کام نہایت ہی نازک اور دلکش ہے — تصویر ابوبکر شیخ

محقق غلام محمد لاکھو لکھتے ہیں کہ ’’سُلطان جام نظام الدین انتہائی بخت والی گھڑی میں سندھ کے تخت پر بیٹھا۔ جنگ و جدل کا موسم جیسے گذر چکا تھا۔ چاروں اطراف معتبر سیاستکار حکومتیں چلا رہے تھے، ان کو اندرونی استحکام حاصل تھا۔ ان کو نہ کسی بغاوت کے کچلنے کی پریشانی تھی اور نہ ہی ہمسائے پر حملہ کر کے قبضہ جمانا تھا۔ تاریخ نے یہ خوش بخت یکسوئی بڑی محنت اور مشکل سے پیدا کی ہوگی۔ اُس وقت گجرات میں محمود بیگڑہ، کشمیر میں سلطان زین العابدین، اور مارواڑ جودھپور میں راجا جودھ آزادی، اطمینان اور وقار کے ساتھ حکومت کر رہے تھے۔"

سندھ کے لیے یہی وہ زمانہ تھا جب عوامی زندگی میں سکون لوٹ آیا تھا. حکومت نے زرعی زمینوں کو وسعت دینے کے لیے نئی نہریں کھدوائیں۔ جس سے فصلوں میں بہتری آئی تجارت میں اضافہ ہوا اور معاشی استحکام پیدا ہوا۔ اس لیے جام نندو کے دور حکومت کو سر سبز اور خوشحال سندھ کا زمانہ کہا جاتا ہے۔

تاریخ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ 1495 میں سندھ کے سلطان نے ٹھٹھہ کو نئے سرے سے تعمیر کروایا اور یہ شہر تہذیب و تمدن کا بین الاقوامی مرکز بنا۔ جب امن، راحت، فراغت و خوشحالی کی خبریں دُور دراز علاقوں اور ملکوں تک پہنچیں تو عالموں اور علم کے پیاسوں نے یہاں کا رُخ کیا۔

ایران، خراسان، سمرقند و بخارا سے اتنی کثیر تعداد میں عالم، فاضل و شعرا پہنچے کہ ان کو آباد کرنے کے لیے جام نندو کو ننگر ٹھٹھہ میں الگ الگ محلے مخصوص کرنے پڑے۔ یہاں کئی خانقاہیں، مکتب اور مدرسے تعمیر ہوئے جہاں تفسیر، حدیث، فقہ، تصوف، عقائد، اُصول تعلیم، صرف و نحو، منطق، علم عروض، علم نجوم پر تعلیم دی جاتی اور کتابیں تصنیف ہوتیں۔

مختلف محلوں کی تعمیر و ترویج ہوئی، کئی نئے باغات تعمیر ہوئے۔ اس زمانے میں جب سندھ میں ننگر ٹھٹھہ اوج پر پہنچا تب گجرات میں احمد آباد، مرکزی ایشیا میں ہرات، شمال میں ملتان اور ہند میں دہلی اپنے عروج پر تھے۔

کہتے ہیں کہ، سندھ کا سلطان ہر ہفتے اپنے گھوڑوں کے اصطبل میں جاتا اور گھوڑوں کی پیشانی پر ہاتھ پھیر کر کہتا: "اے بختاورو، دعا کرو کہ کبھی ناحق حملے کے لیے تم پر سواری نہ کروں، کیوں کہ چاروں سرحدوں پر اسلام کے حاکم ہیں۔ نہ کبھی مجھے شرعی سبب کے سوا کہیں جانا پڑے اور نہ کوئی اس طرف آئے، میں نہیں چاہتا کہ کسی کا ناحق خون بہے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے آگے شرمندہ ہونا پڑے۔‘‘

مقبرے کا اندرونی منظر — تصویر ابوبکر شیخ
مقبرے کا اندرونی منظر — تصویر ابوبکر شیخ

مقبرہ جام نندو پر موجود سنگ تراشی کا ایک نمونہ — تصویر ابوبکر شیخ
مقبرہ جام نندو پر موجود سنگ تراشی کا ایک نمونہ — تصویر ابوبکر شیخ

مقبرے کے اوپر نزاکت سے تراشے ہوئے پتھروں کی مدد سے جھروکہ بنایا گیا ہے — تصویر ابوبکر شیخ
مقبرے کے اوپر نزاکت سے تراشے ہوئے پتھروں کی مدد سے جھروکہ بنایا گیا ہے — تصویر ابوبکر شیخ

جام نندو کی پاکبازی اور زہد و تقویٰ کی کئی باتیں مشہور ہیں۔ سید حسام الدین راشدی ’مکلی نامہ‘ میں تحریر کرتے ہیں کہ، ’’قاضی عبداللہ جو اپنے وقت کے بڑے عالم تھے، اُن کی جنازہ نماز جام نظام الدین نے اس لیے پڑھائی کہ وہ ساری عمر باوضو رہے۔ ٹھٹھہ میں کتنے پیر، فقیر، صوفی اور بزرگ موجود تھے مگر یہ اوصاف فقط سندھ کے سلطان میں موجود تھے۔ اس تقویٰ و پرہیزگاری کے سبب پیر مراد شیرازی کی جنازہ نماز بھی وقت کے حاکم جام نندو نے پڑھائی تھی۔ تاریخ کے صفحات میں ایسی مثالیں بڑی مشکل سے ہی ملتی ہیں۔"

جام نے آدھی صدی تک ایک مثالی حکومت کی بلکہ لوگوں کے دلوں پر حکومت کی، اور جب جام نندو کا جاری کردہ سکہ ہم دیکھتے ہیں تو اس دور کے مثالی ہونے میں کسی شک کی گنجائش ہی نہیں بچتی۔

مگر جیسے سندھ کے اس سلطان کی عمر ڈھلی تو منظرنامہ بھی بدلنا شروع ہوا۔ 1502 میں شاہ اسماعیل نے ایران میں صفوی بادشاہت کی بنیاد رکھی، اس واقعے نے بڑی دور دور تک اپنے اثرات مرتب کیے۔ مغلوں نے سندھ کا راستہ دیکھ لیا تھا۔ آخری ایک برس سلطان کی طبیعت نے ساتھ نہیں دیا۔ آخر 1508 کے سرد دنوں میں سندھ کے اس سلطان نے آنکھیں موُند لیں۔ یہ آنکھیں کیا بند ہوئیں جیسے شفقت کی چھاؤں سندھ سے روٹھ گئی۔

کمال کا سورج مکلی کی پہاڑیوں کے پیچھے ڈوب گیا۔ اور زوال کی خاردار جھاڑیاں اُگ پڑیں۔ اس زوال کے متعلق سید حسام الدین راشدی ’مکلی نامہ‘ میں لکھتے ہیں کہ "جام نظام الدین سمہ خاندان اور آزاد سندھ کا آخری تاجدار تھا جس نے 48 برس تک لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کی۔ اس کے بعد اس کے بیٹے جام فیروز اور خاندان کے ایک دوسرے شہزادے جام صلاح الدین کے درمیان تخت و تاج کے لیے خانہ جنگی شروع ہوئی۔

914 سے لے کر 927 تک کبھی صلاح الدین گجرات سے لشکر لے کر آتا تو کبھی فیروز سبی اور قندھار سے ارغونوں کو بلا لیتا۔ اسی کشمکش کے نتیجے میں ارغونوں نے پہلے صلاح الدین کو فیروز کے مقابلے میں ختم کیا اور اس کے بعد فیروز اپنے آخری ایام کو پہنچا۔‘‘

مقبرے کے اوپر گنبد نہیں ہے — تصویر ابوبکر شیخ
مقبرے کے اوپر گنبد نہیں ہے — تصویر ابوبکر شیخ

مقبرہ جام نندو — تصویر ابوبکر شیخ
مقبرہ جام نندو — تصویر ابوبکر شیخ

مقبرے پر موجود نقاشی کا منفرد کام — تصویر ابوبکر شیخ
مقبرے پر موجود نقاشی کا منفرد کام — تصویر ابوبکر شیخ

سندھ کے اس سلطان کی آخری آرامگاہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ ہینری کزنس، پیر حسام الدین راشدی اور ڈاکٹر احمد حسین دانی جب اس نامکمل مقبرے کے متعلق بات کرتے ہیں تو ان سب کی متفق رائے یہ ہے کہ "یہ ایک یادگار اور خوبصورت ترین سنگتراشی کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے، جس میں قدیم جین، گجراتی فنِ تعمیر، مقامی لوگوں کی فنکارانہ صلاحیتوں اور اسلامی فنِ تعمیر کا ملا جلا ایک ایسا شاندار شاہکار ہے جو مکلی پر بنی ساری عمارات سے مختلف، انوکھا اور خوبصورت ہے۔

آپ دیکھتے جائیں تو آپ کی آنکھیں نہیں تھکیں گی۔ سامنے والی دیوار پر پرندوں کی قطار، سورج مُکھی اور کنول کے پھولوں کی قطار، انتہائی خوبصورت خط میں قرآن شریف کی آیات اور پھر بالکل نیچے پھولوں کی قطار جس کے ہر پھول کی بناوٹ دوسرے پھول سے الگ ہے۔

جھروکوں کو انتہائی نزاکت، نفاست اور خوبصورتی سے تراشا گیا ہے۔ ڈاکٹر دانی تو یہاں تک متاثر ہیں کہ لکھتے ہیں کہ "مقبرے کے اندر کا کام بھی حیرت انگیز ہے۔ یہ تعمیر 1509 کی ہے۔ یہاں سنگتراشی کا کام بھی اتنے اعلیٰ معیار کا اور نازک ہے کہ یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ کام پہلے لکڑی یا عاج پر کیا گیا ہے جسے بعد میں ان پیلے پتھروں پر منتقل کیا گیا ہے۔ ہم جب گجراتی فن تعمیر کی بات کر رہے ہوتے ہیں تو قدیم جین اور ہندی کاریگروں کی مہارت کا ذکر کر رہے ہوتے ہیں، مگر یہ مقبرہ سندھی کاریگری کی صلاحیتوں کا مظہر ہے۔ اس مقبرے کے تعمیراتی کام نے گمشدہ فن کے خزانوں سے پردہ اُٹھایا ہے جو اسلام سے پہلے یہاں جوان ہوا ہوگا۔"

جام نندو کے مقبرے پر مختلف جیومیٹریکل ڈزائن کے ساتھ قرآنی آیات بھی کنندہ ہیں — تصویر ابوبکر شیخ
جام نندو کے مقبرے پر مختلف جیومیٹریکل ڈزائن کے ساتھ قرآنی آیات بھی کنندہ ہیں — تصویر ابوبکر شیخ

جام نندو کی سادہ قبر — تصویر ابوبکر شیخ
جام نندو کی سادہ قبر — تصویر ابوبکر شیخ

جب آپ اس مقبرے کے آنگن میں پہنچتے ہیں تو چاہے سورج طلوع ہو رہا ہو، تپتی دوپہر ہو، یا سورج غروب ہو رہا ہو، آپ پر ایک ہی کیفیت طاری ہوتی ہے، ایک عجیب سا سکون آپ کے ساتھ ہوتا ہے۔ آپ جیسے مقبرے میں داخل ہوتے ہیں تو پہلی سادہ سی قبر اُس انسان کی ہے۔ جس نے اپنی ساری عمر سادگی کے ساتھ علم کی ترویج اور انصاف کی فراہمی کے لیے وقف کر دی تھی۔


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

ابوبکر شیخ

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (20) بند ہیں

عبدالستار میمن Nov 21, 2016 02:38pm
میں تاریخ کے موضوع پر اکثر آپ کی تحریریں پڑھتا رہتا ہوں۔اور تاریخ کے متعلق میری معلومات میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ میں ڈان والوں کو مبارکباد دینا چاہوں گا کہ وہ ہم پر ہماری تاریخ افشاں کرنے کیلئے کام کرتی رہتی ہے۔میں شیخ صاحب کو بھی مبارک کا مستحق سمجھتا ہوں کہ عام اور سہل زبان میں ہم تک ہماری تاریخ کے گذشتہ اوراق پہنچاتے ہیں۔
abdul latif Nov 21, 2016 02:42pm
Ye Abubaker Shaikh ki eik or achi or maloomati taharir hy, or sath main achi photography bhi. hamari nek tamnaen or duaen ap k sath hen.
عدنان جِداکر Nov 21, 2016 02:43pm
زبردست ، شیخ صاحب بہت اعلیٰ
shahnaz Nov 21, 2016 03:26pm
Mazi k shandar mazaron ko dekhny k liay hm jb Makli jaty hen, to wahan k asaron ki kharab halat dekh kr afsos hota hy, huhumat ko is taraf sanjidagi sy dhyan dena chahiay. Hamesha ki trah Shaikh Sahb ki ek or khoobsoort tahrir.
Kamran Khan Nov 21, 2016 04:20pm
Very nice Keep it up dear Brother, Kamran Khan.. Dil hy Pakistani
Ray seen Nov 21, 2016 05:31pm
Well done sir ji.... You know , how to play and describe forgotten history.....
یمین الاسلام زبیری Nov 21, 2016 06:29pm
شیخ صاحب معلومات اور تبصرے کے حصاب سے بہت اچھا مضمون ہے۔ تصویریں بھی بہت اچھی طرح لی گئی ہیں۔ ان کھنڈرات کو دیکھ کر حالی یاد آتے ہیں: جلال ان کا کھنڈروں میں ہے یوں چمکتا ۃ کہ ہو جیسے خاک میں کندن دمکتا۔
کلیم Nov 21, 2016 08:22pm
بہت ہی عمدہ تحریر۔ ابوبکر سر، آپ کے الفاظ میں سندہ دھرتی کی مٹی کی خوشبو اور احساس کی چاشنی ہے اور آپ کی تصویریں بولتی ہیں۔
ali saleem Nov 21, 2016 08:42pm
outstanding
محمد عارف سومرو Nov 21, 2016 09:01pm
مضمون معلومات سے بھرپور ہے۔ باقی سب باتیں تو ٹھیک ہیں لیکن وضو والی بات کو تسلیم کرنے سے عقل قاصر ہے۔
Dr.muhammad khatti karachi Nov 21, 2016 09:30pm
Very good effort by mr. Abu baker, he really explored and explained in a nice way along with good photography. Congratulation to mr.sheikh and also to dawn news.
Syed Hassan Nov 21, 2016 09:59pm
Brief history about thatta its mesmerising the way it is told please carry on writing more about historical Sindh.
Sabit Ali Pitafi Nov 21, 2016 10:12pm
Well-done Shaikh sahib
عرفان مھدی خواجا Nov 21, 2016 10:17pm
تمام بہترین ابوبکر صاحب نے بہت محنت کرکے ہمیں سندھ کی تاریخ کے بارے میں سمجھایا ہے. اور ہم سمجھ سکتے ہیں کہ یہ بہت محنت کے بعد ہم تک پہنچتی ہے. بہت شکریہ محترم ابوبکر صاحب اور ڈان گروپ
Tahmena Nov 21, 2016 11:15pm
@عبدالستار میمن very nice article very informative.
muhammad yousif joyo Nov 21, 2016 11:25pm
very good artical
abdul ahad memon Nov 21, 2016 11:42pm
Very informative knowledge indeed.
muhammad ihsan malik Nov 21, 2016 11:55pm
Nice piece of knowledge sir specially for me because I am also studying history. You narrate some facts in your article brilliantly
Mohiuddin Nov 21, 2016 11:59pm
Excellent
جان محمد جنجھی تھرپارکر Nov 22, 2016 07:42am
بھت خوب لکھا ے آپ نے اور شاھکار تھذیب تھی اس دور کی.